سچی باتیں (۱۵؍اپریل ۱۹۳۲ء)۔۔۔ بدگمانی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:08AM Mon 11 Sep, 2023

دروازہ پر کپڑا بیچنے والا، بزاز یا جولاہہ کپڑے کے تھان لے کر آیاہے۔گھر میں خبر ہوتی ہے۔ کپڑے والا کہتاہے، کہ یہ تھان پانچ روپیہ کا ہے، اور وہ ۱۲؍گز ، اندر سے جواب ملتاہے، کہ ’’ہائیں۔ اتنے مہنگے ۔ وہ تھان پانچ کا نہیں ڈھائی کا ہے، اور یہ کپڑا ۱۲؍آنہ نہیں، ۴؍گزکے حساب سے دئیے‘‘۔ اس کا نام سودے کا ’’چکانا‘‘ہے۔ اب ’’چکاؤ‘‘ شروع ہوتا ہے، اور گھر کی ماما ، یا لڑکے، کی دوڑ ، اندر سے باہر، باہر سے اندر، اور پھر اندر سے باہر شروع ہوتی ہے، چیخ وپُکار، غصہ گرمی، سب ہی کچھ اس درمیان ہوجاتاہے، اور سوداگر صاحب بنچ میں گٹھری باندھ بوندھ، چلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں، کہ آئندہ کبھی اس ڈیوڑھی پر نہ آئیں گے۔ غرض جو کام خاموشی کے ساتھ منٹ دومنٹ میں بہ آسانی ہوسکتا تھا، وہ کہیں بیس بیس پچیس پچیس منٹ کی بک بک جھک جھک ، حجت وتکرار کے بعد ختم ہوپا تاہے…یہ منظر اگر خود اپنے گھر میں نہیں، تو کم ازکم دوسروں کے ہاں تو ضرور آپ کی نظر سے بارہا گذرا ہوگا۔ ایک کپڑے والے ہی پر موقوف نہیں۔ المونیم کے برتن والا، لچکے گوٹے والا، تیل، عطروالا ، سیب ناشپاتی والا۔ غرض کوئی سا بھی سودے والا، پھیری لگاتاہوا، دروازہ پر آنکلاہے، تو یہی صورت پیش آئی ہے یا نہیں؟

اِس کو بھی چھوڑئیے ۔ آپ کہیں گے ، اِن صورتوں کا تعلق زیادہ تو عورتوں سے ہے، اور عورتیں ’’زیادہ تر ناقص العقل‘‘ ہوتی ہی ہیں۔ لیکن آپ تو ماشاء اللہ ’’کامل العقل‘‘ ہیں۔ خودآپ کا کیا حال ہے؟ اِکّہ والے سے پیسے چکاتے وقت یا تانگہ والے کو کرایہ دیتے وقت ، جو کچھ گزرتی ہے وہ کیا اس سے بہت کچھ مختلف ہوتی ہے؟ تانگہ والا محلہ سر پراٹھائے ہوئے ہے، کہ دو گھنٹہ کی مزدوری پورا ایک روپیہ ہوئی، اور آپ کہہ رہے ہیں ، کہ اجی ہم دس آنے دے رہے ہیں، یہ بھی بہت زائد دے رہے ہیں۔ اِکّہ والا غل مچائے ہوئے ہے کہ پانچ پیسے نکالئے ، اور آپ اَڑے ہوئے ہیں، کہ ایک اِکنّی سے زائد ہرگز نہ دیں گے۔ بدزبانی گالی گلوج ، تھوک فضیحت کی نوبت بھی بارہا ایسے موقعوں پر سربازار ، یا عین چوراہہ پر آگئی ہے یا نہیں؟ پھر اسٹیشن پر قلیوں کے ساتھ جو معاملہ پیش آتارہتاہے، وہ بھی کچھ اِسی سے مشابہ ہے یا نہیں؟ آپ قُلی سے اُلجھ رہے ہیں اور قُلی آپ سے، ابھی وہ ٹرّاکر بولا، اور ابھی آپ چیخ اُٹھے۔ کبھی وہ پیسے پھینک کر چلاگیا، کہ ’’جائیے، یہ ہماری طرف سے خیرات کردیجئے‘‘۔ اور کبھی آپ خوش ہورہے ہیں، کہ ’’میں نے بھی کیسی دھتابتائی، یہ بدمعاش بھی کیا یاد کرے گا‘‘۔……حافظہ پر زور ڈالئے ، خدامعلوم کس کثرت سے اِس قسم کے واقعات نظروں سے گزر چکے ہوں گے۔

یہ سب آخر کیاہے؟ یہ چیزیں ہنسی دل لگی، مذاق وتفریح کی ہیں، یااِن سے کوئی سبق نکلتاہے؟ ہاں سبق ملتاہے، اور کھُلا ہوا سبق یہ ہے، کہ آپ اپنے بھائی بندوں کو بے ایمان ، خائن اور دغاباز سمجھ رہے ہیں، اور آپ کے بھائی بند آپ کو۔ آپ کے ذہن میں یہ جماہواہے ، کہ وہ ہمیشہ اپنے حق سے بڑھ کر مزدوری، اور واجبی سے زیادہ ہی دام مانگیں گے، اور اُن کے دِل میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے، کہ آپ پہلی دفعہ میں کبھی بھی سودے کے پورے دام نہیں دیں گے، اور مزدوری ہمیشہ مار ہی رکھنا چاہیں گے۔ دوکانداروں کا رونا یہ ہے کہ گاہکوں سے اِیمان اُٹھ گیا، اور گاہک یہ جھینک رہے ہیں ، کہ اب تو دوکانداری اور بے ایمانی ایک چیز ہے۔ غرض آپ ان سب سے بدگمان ہیں، اوروہ سب آپ سے۔ اوراس بدگمانی کی کوئی معقول بنیاد نہ  آپ کے پاس ہے نہ اُن کے پاس۔ باہمی بدگمانی وبے اعتباری کا چکر قائم اس لئے ہے، کہ کوئی فریق اس پرآمادہ نہیں، کہ شریعت کے موافق، پہلے اپنے دل سے بدگمانی دور کرے۔ نہ وہ اس پر راضی کہ زبان س ہمیشہ سچی اور پکی ہی بات نکلے، اور نہ آپ اس پر تیار کہ اپنے پیسہ سے بڑھ کر حق وانصاف کو عزیز رکھیں۔ شریعت کے احکام یہ ہیں، کہ بندوں میں جس کسی سے بھی بڑا یا چھوٹا معاملہ پڑے، طویل یا مختصر سابقہ کی نوبت آئے، ہر ایک کے حقوق کی پوری پوری رعایت کی جائے، اور قول سے، فعل سے، ہاتھ سے، زبان سے، کسی طرح کسی کے ادائے حقوق میں کمی نہ کی جائے۔ ملک کے لئے سواراج کے آرزو مند سب ہیں، کیا اس سے کہیں بہتر، اوراس سے کہیں زیادہ مقدم یہ نہیں، کہ پہلے اپنے اندر کی اصلاح کرکے……اپنے باطن کی صفائی پیداکرکے، اپنے نفس کا تزکیہ کرکے، اپنے اخلاق کو سنوار کے، اپنا ذاتی اور شخصی سواراج حاصل کیاجائے؟