سچی باتیں (۱۵؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ کار آمد مشغلہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

03:01PM Mon 29 May, 2023

 سچی باتیں (۱۵؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ کار آمد مشغلہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

میر تقی میرؔ، اُردو کے کتنے زبردست شاعر ہوئے ہیں۔ ذوقؔ، غالبؔ، ناسخؔ سب ہی اُن کو اُستاد مانتے آئے ہیں۔ لیکن آج اگر کوئی اُن کی زبان، تحریر یا تقریر، نثر یا نظم میں استعمال کرنے لگے، تو لوگ اُس پر ہنسنا شروع کردیں۔ ’’ٹک‘‘ اور ’’تلک‘‘ اور ’’تِس‘‘ اور ’’کسو‘‘ اور خدا معلوم کتنے اور الفاظ، اُن کے زمانہ میں جانِ فصاحت تھے، آج بالکل متروک ہوچکے ہیں۔ اُردو اب بھی اُردو ہی ہے، اور اُردو کوئی پُرانی زبان بھی نہیں،لیکن فقروں کی ترکیب، لفظوں کی نشست ، بیان کے اندازمیں ، اتنی زائد تبدیلیاں ہوگئی ہیں، کہ جو اگلے استادوں کی زبان تھی، اُس پر آج کل کے ادنیٰ طالب علم بھی ہنس دیتے ہیں۔ میرؔ کا نام ،محض بطور مثال لے لیاگیا،کسی ملک اور کسی قوم کے ، بہتر سے بہتر، مایۂ ناز شاعر یا ادیب کو لے لیجئے، یہی پائیے گا ، کہ سوہ پچاس برس کے بعد، اس کی زبان متروک، اُس کی بندشیں پارینہ، اوراس کی سلاست وبلاغت افسانہ! شیکسپیرؔ کی زبان آج کون انگریز بولتاہے؟ فردوسیؔ کی فارسی آج کہاں بولی جاتی ہے؟

بطلیموسؔ اتنا بڑا ماہر ریاضیات تھا، آ ج اُس کے نظام ہیئت کو دنیا کی کون سی یونیورسٹی مانتی ہے؟ فلاطونؔ کا فلسفہ آج کہاں زیر درس ہے؟ ارسطوؔ کی منطق آج کس درسگاہ میں تمام تر صحیح تسلیم کی جارہی ہے؟ نیوٹنؔ کے دریافت کردہ’’قوانین‘‘ کا پردہ، کیا آینسٹائن کے ہاتھوں چاک ہوکر نہیں رہ گیا؟ ڈارونؔ کے نظریات کل تک تجدد کی انتہائی مثال تھے؟ آج دنیا ڈاروِن کو صدہا منزل پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی ہے۔ دادا بھائیؔ اور گوکھلےؔ، سریندرناتھؔ بنرجی اور تِلکؔ، کی تقریریں ابھی کل تک ’’سیاسی شوریدگی‘‘ کے آخری لفظ تھے، آ ج ملک کے بچہ بچہ کی زبان اُن سے کہیں زیادہ کھلی ہوئی ہے۔ ……غرض زبان ولغت، شعر وادب، علوم وفنون ، سیاسیات ومعاشیات جس شعبہ کو بھی لیجئے، ’’کَل‘‘ کے منتہی’’آج‘‘ کے مبتدی نظرآتے ہیں، اور جو ’’محقق‘‘ کہلاتے ہیں، اُن کی تحقیقات کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہونے پاتی ، کہ اُن کا شمار ’’عامیوں‘‘ میں ہونے لگتاہے!

یہ تجربہ ہر روز کا، اور مشاہدہ آئے دن کا ہے۔ اس سے مفر نہ مشرقی کو ہے نہ مغربی کو، چارہ نہ گورے کو ہے نہ کالے کو۔ مستثنیٰ نہ شاعر ہے نہ ادیب، نہ فلسفی نہ طبیب، نہ سائنٹسٹ نہ آرٹسٹ ، نہ کوئی جواہر لالؔ ، نہ کوئی سید احمد خاںؔ ،انھیں علوم وفنون کے پیچھے آپ دیوانے ہورہے ہیں؟ انھیں کمالات کی تحصیل کو آپ معراجِ زندگی سمجھے ہوئے ہیں؟ اسی سائنس اوراسی آرٹ پر بڑے بڑے ادیب، بڑے سے بڑے مؤرخ ، بڑے سے بڑے فلسفی ،بڑے سے بڑے سیاسی، ہوبھی گئے، تو آپ کے ان سارے کمالات اور ساری تحقیقات کا نتیجہ؟ آخرت کی لازوال زندگی کو چھوڑئیے، خود اسی عالم مادی کی محدود وبے ثبات زندگی میں انھیں ثبات کتنا ، اور ان کی عمر کتنی؟ اپنے دل میں جتنا ہی اپنے فضلِ وکمال پر ناز کرلیجئے، چندروز بھی نہ گزرنے پائیں گے، کہ خواص تو خواص، عوام تک اس کی ہنسی اُڑائیں گے، اور دل کھول کھول کر اس پر قہقہے لگائیں گے۔

یہ وقت وہ ہوگا، کہ نیکی کے فرشتے اُس وقت یہ کہہ کہہ کرروئیں گے، کہ افسوس، اس آدم زاد نے اپنا سارا وقت کھیل تماشہ اور فضولیات میں ضائع کردیا، اور عمر کی جو قیمتی گھڑیاں، خودشناسی وخداشناسی، ادائے حقوق، نیابت وخلافت الٰہی، اور تکمیلِ عبدیت کے لئے عطاہوئی تھی، اُنھیں اُن مشغلوں کی نذر کردیا، جو ذرابھی اس کے کام آنے والی نہیں!

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

 https://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/