Salman Ahmed Siddiqui by Abdul Mateen Muniri
یہ بات تو معلوم تھی کہ ایک عشرہ قبل دل کا آپریشن ہوا تھا، اور گذشتہ چار پانچ سالوں سے ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑدیا تھا، اور ہرہفتے کئی بار صاف کرنے کے عمل سے انہیں گذرنا پڑتا تھا، اور یہ ایسی بیماریاں ہیں کہ کسی بھی وقت ناگہانی ہوسکتی ہے، لیکن جناب محمد سلمان احمد صدیقی مرحوم کا حوصلہ اتنا بلند تھا، کہ کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اتنی جلدی اور اچانک وہ ہمارے درمیان سے اٹھ جائیں گے، اور جب ۲۴ ستمبر کی دوپہر کو حیدر آباد دکن سے آپ کی رحلت کی خبر آئی تو ایک لمحہ کے لئے دل ودماغ پر ایک سکتہ سا طاری ہوگیا۔
ان کے عزیز ویار غار مولانا بدر الحسن قاسمی نے بتایا کہ دو روز قبل وہ حیدرآباد سے پٹنہ آئے ہوئے تھے، وہاں ان دونوں کے مکانات لگ کر ہی ہیں، درمیان میں صرف ایک دیوار حائل ہے، لیکن اس وقت خیال بھی نہیں آیا کہ سلمان بھائی سے مل لیں، اور دو روز بعد اپنے وطن ثانی حیدرآباد میں اس طرح آپ اللہ کو پیارے ہوئے کہ چیک اپ کے لئے ہاسپٹل ہوکر آئے تھے، طبیعت پر ایسے کچھ آثار نہیں تھے، بس سستانے کے لئے صوفہ پر بیٹھے، کچھ تکان کا احساس ہورہا تھا، پانی منگوایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہچکی آئی اوردم بھر میں اللہ کو پیارے ہوگئے، یہ دنیا چھوڑتے ہوئے کسی کو کوئی تکلیف بھی نہ دی۔
سلمان بھائی ان لوگوں میں تھے، جن کے اس طرح اچانک اٹھ جانے سے تنہائی کا احساس جاگ آٹھتا ہے، جانا تو سبھی کو ہے، کوئی یہاں رہنے کے لئے نہیں آیا ہے، ایک وقت مقرر رخت سفر ہر ایک کو باندھنا ہے۔ گردے کی تکلیف کے بعد ان کا دبی آنا جانا کچھ کم ہوگیا تھا، وہ زیادہ تر حیدرآباد ہی میں رہتے تھے، لیکن وقفے وقفے سے جب بھی آتے تو محسوس ہوتا کہ زندگی کی تروتازگی لوٹ آئی ہے، پرانی یادیں تازہ ہوتیں، اور ملی اور اجتماعی درد ودکھ بانٹنے کا موقعہ ملتا، وہ مطالعہ کے رسیا تھے، اچھی اور دلچسپ کتابیں جمع کرنے کا انہیں چسکا تھا، یہ شوق بھی ہم دونوں کی محبت اور تعلق کو مضبوط تر رکھنے کا بہت بڑاسبب تھا، بیماری کے بعد جب ہم نے انہیں بتایا تھا کہ آپ جو بھی کتاب پڑھنا چاہیں ہم سے طلب کریں، اور اس کے لئے ہم نے انہیں ای بوک ریڈر کینڈل کے اسکرائب ورژن کے بارے میں بتایا تو بہت خوش ہوئے، یہ ڈیوائس دبی میں دستیاب نہیں تھا تو کینیڈا سے اسے منگوایا، اور اس پر انہوں نے باقاعدگی سے مطالعہ شروع کردیا، اور جب بھی ملاقات ہوئی احسان مندی کا اظہار کرتے رہے، ہمارے علم وکتاب گروپ سے بھی وہ وابستہ تھے، اور اس کے مندرجات کو پابندی سے پڑھتے تھے، رمضان المبارک سے قبل آپ کی دبی میں آخری ملاقات ہوئی تھی، اس وقت وہ ہفتے میں تین بار ڈیلاسس کے مرحلے سے گذرنے کے باوجود عمرہ پر جانے کا ارادہ کرچکے تھے۔
سلمان بھائی ۱۹۷۸ء میں دبی آئے تھے، یہاں عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ کامیابی سے گذارا، انہیں یہاں کے ایک قدیم تاجر عبد العزیز بن فارس نے بلایا تھا، جن کا اس زمانے مین لکڑی اور بلڈنگ میٹریلس کا چھوٹا موٹا کاروبار تھا، سلمان بھائی یہاں آنے سے پہلے ممبئی میں کچھ عرصہ عطر کے کاروبار سے وابستہ رہے تھے، اس تجربہ نے دبی کی زندگی میں چار چاند لگادئے، بن فارس کی کمپنی میں جنرل مینیجر بھی رہے، اور ان کے کاروبار کو بڑی ترقی دی، ساتھ ہی ساتھ سونا بازار کے قریب آپ کی شراکت میں عطر کا کاروبار شروع کیا اور آپ کی دکان بن فارس خلیجی ممالک خاص کر کویت کے باشندوں میں بڑی معروف اور مقبول ہوئی، اس کاروبار کو آپ کے بھائی حافظ عرفان صاحب سنبھالتے تھے، جو ابھی چند سال قبل اللہ کو پیارے ہوئے ہیں۔ آپ کے دبی میں گذارے ہوئے چار عشرے بڑے قیمتی تھی، جس میں آپ نے تجارت وکاروبار کے ساتھ خدمت خلق اور ملت کے اداروں کے تعاون اور اکابر وعلماء کی پذیرائی میں گہرے نشانات چھوڑے۔
سلمان صاحب کی ولادت مورخہ ۱۲ جنوری ۱۹۵۳ء بہار کے قصبے برہولیا، دربھنگہ میں ہوئی تھی، آپ کے والد ماجد مولوی حبیب الحسن مرحوم فارغین دیوبند میں سے تھے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے،لہذا آپ کی طرف نسبت کرتے ہوئے حسینی بھی لکھا کرتے تھے، آپ نے فراغت کے بعد جمشید پور کے قریب چقندر پور کی مشہور حکیم دونی سوپ فیکٹری میں کیشر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی، اور پھر حکیم صاحب کی تعمیر کردہ مسجد میں امامت کی بھی زمہ داریاں سنبھالنے لگے، سلمان بھائی نے یہیں پر اسکول کی تعلیم مکمل کی، آپ کے دیگر تین بھائیوں محمد رضوان، محمد حسان اور حافظ عرفان نے دینی تعلیم پائی تھی، لیکن جب آپ کے بڑےبھائی مولانا محمد رضوان القاسمی مرحوم نے سنہ ۱۹۷۰ء کے آس پاس حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش پر حیدرآباد کو مستقر بنایا، اور جامع مسجد ایبیٹ روڈ میں امامت وخطابت ،اور مدرسہ رحمانیہ میں تدریس اور دیگر علمی وادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے تو پھر آپ نے والدین اور بھائی بہنوں کو یہیں بلالیا، یہاں سلمان بھائی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر مزید اعلی تعلیم کے لئے پونا کا رخ کیا، اسی دوران ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کو ممبئی میں مسلم پرسنل لا پر پہلی کل ہند کانفرنس عبد القادر حافظکا بھٹکلی مرحوم کی کنوینر شب میں منعقد ہوئی، اس وقت آپ کو حافظکا صاحب کے انتظام وانصرام کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، اور جب دوسری مسلم پرسنل لا کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوئی،تو تو اس وقت اس کے منتظم آپ کے بھائی مولانا محمد رضوان القاسمی مرحوم تھے، تو آپ نے اس کے انتظام وانصرام میں بھائی جان کا بھر پور ساتھ دیا،جس سے آپ کی صلاحیتوں اور دینی حلقوں سے تعلقات کو چار چاند لگ گئے، یہاں سے ملی کاموں اور علماء واکابر سے آپ کا ربط مضبوط ہو،اور یہ تعلق زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہا۔
۱۹۸۲ء میں آپ کی شادی فارسی زبان کے ممتاز ماہر اور دانشور ڈاکٹر متین احمد مرحوم کی دختر نیک اختر سے شادی ہوئی۔
سنہ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں برصغیر میں پرانی نسل کے چوٹی کے علماء ابھی بقید حیات تھے، یہ دور اس لحاظ سے دبی کا ایک سنہرا دور تھا کہ اس دوران ان حضرات کی بڑے پیمانے پر یہاں تشریف آوری ہوتی تھی، انکی تقاریر اور مجالس کے انعقاد کے موقعے ملتےتھے، سلمان بھائی ان سب سے متعارف تھے، اور ان کی خدمت میں بلا تفریق کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، اس ناچیز سے آپ کے روابط کا آغاز بھی ۱۹۸۶ء کے آس پاس ہوا تھا، جب آپ نےاس ناچیز کو علماء واکابر کی مختلف مجالس کا نظم کرتے ہوئے دیکھا، تو ایک بار حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی مرتبہ دبی آنے کی اطلاع دی، اور اللہ تعالی نے آپ کی مجالس کو منظم کرنے کی توفیق دی،جس سے زندگی کے آخری لمحات تک قاضی صاحب اور سلمان بھائی سے شفقت اور محبت کا تعلق قائم رہا، اور یہ تعلق مولانا محمد رضوان القاسمی سے بڑھتا ہوا اپنے حلقے کو وسیع تر کرتا چلا گیا، جس کی ایک الگ داستان ہے۔
سلمان بھائی کو اپنے دستیاب وسائل وذرائع سے دین کی اور ملت کی خدمت کی فکر لگی رہتی تھی، جس کی وجہ سے حضرت قاضی صاحب جیسی شخصیات کو کام کرنے میں بڑی تقویت ملی، جس سے امارت شرعیہ بہار، اسلامی فقہ اکیڈمی، آل انڈیا ملی کونسل، مسلم پرسنل لابورڈ، اور تعلیمی کاروان جیسے اداروں اور تحریکات کو آگے بڑھانے میں مدد ملی، آپ ان میں دامے درمے سخنے اپنا حصہ ڈالتے رہے، حالانکہ وہ ملی کونسل جیسی تنظیموں میں عملا متحرک نہیں رہے تھے۔
مولانا رضوان القاسمی اور قاضی صاحب کے انتقال کے بعد وہ کچھ بجھ سے گئے تھے، اور تنہائی سی محسوس کرنے لگے تھے، لیکن انہوں نے ان شخصیات کے قائم کردہ اداروں کو زندہ اور فعال رکھنے میں بھر پور کردار ادا کیا، اپنے بھائی کے قائم کردہ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کو قانونی مشکلات سے آزاد کرانے، اور کی زمینوں وغیرہ پر دارالعلوم کا قبضہ دلانے کے لئے انہوں نے جان توڑ محنت کی۔ انہوں نے سبیل السلام کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو فعال رکھنے میں ہمیشہ دلچسپی لی، جب یہاں رابطہ ادب اسلامی کا سیمینار منعقد ہورہا تھا تو اس ناچیز سے ان دونوں بھائیوں نے فرمائش کی کہ کسی طرح ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کے پہلے دیوان "وہ جو شاعری کا سبب ہوا" کے اس موقعہ پر اشاعت کے لئے کسی طرح مصنف سے اجازت حاصل کریں، وہ کسی کو اسے چھاپنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، اور عاجز صاحب نے اس ناچیز پر اعتبار کرکے اسے سبیل السلام سے شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی، اور سلمان صاحب نے اپنی چہیتی اکلوتی بیٹی کے نام پر ادارہ طوبی پبلیکیشنز قائم کرکے یہاں سے اسے اعلی معیار پر شائع کیا۔
جب آپ دبی آئے تھے تویہاں پر بہار اور یوپی وغیرہ کے اعلی مسلمان تعلیم یافتہ اور پروفیشنلس کی تعداد بہت کم تھی، آپ نے انہیں یہاں روزگار سے وابستہ کرنے کے لئے منظم طور پر کام کیا، کلاک ٹاور کے پاس ایک فلیٹ کرایہ پر لے کر ویزا پرضرورت مندوں کو لانے اور ان کے رہن سہن کا انتظام کرنے پر خصوصی توجہ دی، اس طرح یہاں پر بہار سے آئے ہوئے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو منظم کرنے پر توجہ دی اور بہار انجمن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آپ کی بڑی کوشش رہی کہ یہاں پرہندوستان کے اردو بولنے والوں کے لئے سرکاری طور پر منظور شدہ ایک مرکز کا قیام ہو، اس کے لئے محترم سید خلیل یس یم کی رفاقت میں آپ نے انڈین مسلم سنٹر کو اپنایا، اور کافی سالوں تک اسے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کی بھرپور جد وجہد کی ۔
آپ کو دیوبند ، اور مظاہر علوم کے تمام اکابر سے ربط وتعلق تھا، آخر میں آپ نے مولانا سید محمد رابع حسنی علیہ الرحمۃ سے بیعت وارشاد کا تعلق قائم کیا تھا۔ آپ کی رحلت ایک مخلص، فعال اور باصلاحیت فہم وشعور سے آراستہ ملت کے ایک کارکن سے محرومی ہے، اسی طرح اس دنیا کی سرائے میں لوگ آتے جاتے رہیں گے، لیکن سلمان بھائی ان لوگوں میں سے تھے جن کی یاد تادیر زندہ رہے گی، اور ان کا کام تا قیامت ان کے اجر وثواب میں اضافہ کرتا رہے گا۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
2024-09-27