Saifullah Master By Abdul Mateen Muniri
آج بروز جمعرات مورخہ 11 / دسمبر بعد نماز ظہر جناب سیف اللہ سرگرو صاحب کو جو سیف اللہ ماسٹر کے نام سے بھٹکل میں مشہور تھے، نوائط کالونی بھٹکل کے قبرستان میں ہزاروں اشک بار آنکھوں اور دکھے دلوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا، بعد نماز ظہر تنظیم ملیہ مسجد میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، جو مصلیان کے جمگھٹے میں نماز جمعہ اور عیدین کا منظر پیش کررہی تھی، یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنے جاننے والوں کے دلوں میں بستے تھے، اور ان کے محبوب اور چہیتے تھے، کیا بعید کہ جس آخری منزل پر وہ رواں ہوئے ہیں وہاں بھی ان کے خیر مقدم کی والہانہ تیاری ہورہی ہو، فرشتے اور حوروغلمان ان کے استقبال کے لئے فرش راہ بنے ہوئے ہوں۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو؟،دنیا شاہد ہےکہ جانے والے کی زندگی ایسے کارناموں سے تعبیر تھی، جن پر دارین کی کامیابی وکامرانی کا انحصار ہوا کرتا ہے۔
آج سے کوئی پندرہ روز پہلے جامعہ آباد میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی، اس باغ میں بلبل کی آخری چہک تھی، خوشی و مسرت سے بھرپور جامعہ کے اساتذہ وطلبہ کی جلو میں آپ کا چہرہ کس طرح دمک رہا تھا، کیسی ہنسی مذاق اور بے تکلفی کے مجلس تھی، کسے معلوم تھا کہ دوسرے ہی روز ایک سڑک حادثہ کی خبر آئے گی، اور پندرہ روز امید وبیم میں گذار کر آپ کا لاشہ ہی اپنے چہیتوں کے کندھوں پر سوئے قبر لے جانے کے لئے اٹھے گا، اوراب اگر آئندہ ملنا نصیب بھی ہوتو پھر روز قیامت ہی کا انتظار کرنا پڑے گا۔
مرحوم کا تعلق ہبلی کے ایک قصبے سے تھا، جہاں سے آپ کے والد ماجد بھٹکل میں آکر تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوئے تھے۔ آپ یہاں پر اسکول کے ایک ٹیچر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔
ماسٹر صاحب اپنی تعلیم مکمل کرکے گوا کے ایک پرائیوٹ اسکول سے وابستہ ہوگئے تھے، جہاں انہیں ایک خوش حال زندگی میسر تھی، 1985ء میں آپ اپنے والد ماجد سے ملنے بھٹکل آئے ہوئے تھے، توآپ کا جامعہ آباد بھی آنا ہوا، یہ اس ادارے کے عظیم ناظم الحاج محی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ کا سنہرا دور تھا، منیری مرحوم انسانوں کے پارکھ تھے، آپ نے ماسٹر صاحب کو جامعہ کے لئے تدریسی خدمات پیش کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کردیا،جسے انہوں نے فی الفور قبول کردیا، یہ ایک طرح سے خوشحال زندگی کی قربانی تھی، اس قربانی پر آمادہ کرنے والی اہم ترین چیز انہیں گوا کے لادینی ماحول سے اپنے اہل وعیال کی حفاظت کا جذبہ تھا، یہ شاید کوئی نیک ساعت تھی جب منیری صاحب کے دل میں اللہ تعالی نے یہ بات ڈال دی ۔ اس طرح آپ نے تسلسل کے ساتھ تقریبا (36) سال تک جامعہ میں نئی نسلوں کی آبیاری کی۔ کئی نسلیں جو یہاں دینی تعلیم کے لئے آئی تھیں انہیں عصری تعلیم، انگریزی ، کنڑی زبانوں سے بھی مزین کردیا۔
اس دوران وہ طلبہ کے ایک محبوب وچہیتے استاد تھے،
اللہ تعالی نے خوش مزاجی اور سادگی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی، وہ اخلاص کے پیکر تھے، جو نونہالوں کے دلوں پر جلد اثر کرتا تھا، ان چار دہائیوں میں جہاں انہوں نے دنیا جہاں کی نعمتوں کو ٹھکرا کر اور قربانیاں دے کر اپنے نونہالوں کی دینی بنیادوں پر تعلیم وتربیت کی فکر کی تو اس طویل عرصے میں آپ کے دست شفقت سے فیض پانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی ۔ یہ فیض یافتگان ہزاروں کی تعداد میں بھٹکل اور اطراف کی مسجدوں، مکتبوں اور مدرسوں میں عصر حاضر کے شعور کے ساتھ علم اور دین کی روشنی پھیلارہے ہیں ۔ آج ایسا ایک ٹیچر جس کی مکمل تعلیم انگریزی اور کنڑی اسکولوں میں ہوئی تھی، اس کے جنازے میں چاروں طرف مشرع ڈاڑھی سے مزین، سفید لمبی قیمص پہنے فارغین کی ایک بھیڑ نظر آرہی تھے، ان میں مقامی قاضی، امام ، مدرس اور حافظ معاشرے کے سبھی طبقات کے افراد موجود تھے۔یہ سبھی اپنے محبوب استاد کا جنازہ اٹھتے ہوئے مغموم اور دکھی نظر آرہے تھے۔ ہر کوئی حیران تھا کہ آخریہ کیا ہوگیا؟۔ آخر اچانک چپ چپائے ماسٹر صاحب کیسے ہم سے جدا ہوگئے!
مرحوم کی زندگی اخلاق، محبت، اور جذبہ سے عبارت تھے، جامعہ سے محبت ان کے رگ وپئے میں سمائی ہوئی تھی، طبعیت کی ناسازگی اور بیماری کے باجود وہ وقتا فوقتا جامعہ آباد آکر اپنی روح کو بالیدگی بخشتے تھے، جامعہ کی تقریبات میں آپ ایک دلہا کی مانند ہوا کرتے تھے، جس کے چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھری ہوتی ہیں ۔ یوم جمہوریہ ہو یا یوم آزادی اس موقعہ پر علی الصبح جھنڈا لہرانے ضرور تشریف لآتے، اور اس ملک کے لئے دی گئی علماء و قائدین ملت کی قربانیوں کی یاد دلاتے ، اپنے شاگردوں کو بانیان جامعہ کی قربانیوں اور احسانات بڑے والہانہ انداز سے بتاتے تھے، ان کی یہ باتیں جذبات سے پر ہوتی تھیں، جنہیں سننے والے ایک نئے حوصلے اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھتے تھے، آج جب کی وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں، ان کی باتیں جامعہ کے دروبام سے گونج رہی ہیں، وہ ایسے نہیں تھےکہ انہیں آسانی سے فراموش کردیا جائے، وہ موقعہ بہ موقعہ یاد آتے رہیں گے،اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے، اور دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی رہیں گی۔
یہاں کون ہے جو رہنے کے لئے آیا ہے؟، ایک مقررہ وقت پر سبھی کو رخت سفر باندھنا ہے، جانے والا کتنا خوش نصیب تھا، جو اپنے پیچھے دعاؤوں کا لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا، اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ مرحوم کے فراق پر ہماری آنکھیں پرنم ہیں، لیکن کیا اس غم کے ہلکا کرنے کے لئے یہ کافی نہیں کہ جانے والے نے اللہ کی مرضی کے حصول کی راہ وہ سب کچھ کیا جو اس کے بس میں تھا، جب عین جوانی میں اس کی بیٹی بیوہ ہوئی، اور چار بیٹیوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پرچھوڑ گئی تو انہوں نے اپنے خالق کے رضا پر راضی راضی رہنے کو اپنا شیوہ بنالیا، صبر وشکر کا دامن اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیا، اس نے اپنے اہل وعیال اور متعلقین اور جاننے والے بندگان خدا کو کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیا۔ اور حقوق اللہ وحقوق العباد کی پاسداری کا تا دم آخر خیال رکھا۔ ایسے نیک بندے ہی تو آخر جنت الفردوس اور اعلی مقامات کے مستحق ہوتے ہیں۔
2025-12-11