Sachchi Batain(1932-09-30) Insan ki Shaqiul Qalbi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:04PM Sun 31 Dec, 2023

 سچی باتیں (۳۰؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ انسانوں کی شقی القلبی 

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

 

لکھنؤ اور جے پور، کلکتہ اور بمبئی کے زندہ عجائب خانے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ شیر اور چیتے، لکڑ بگھّے اور تیندوے، ریچھ اور گینڈے، کیسے کیسے شریر اور مہیب وحشی جانور ان میں پَلے ہوئے۔ خادم اورمحافظ، بیسیوں کی تعداد میں موجود۔ اونچی اونچی تنخواہیں اور بیش قرار مشاہرے۔ خوداِن جانوروں کی خوراک اور سکونت کے انتظام میں ہزارہا ہزار روپیہ ہر سال بلا دریغ اُٹھ رہے ہیں۔ یورپ کے چڑیا گھر اُن سے بھی اعلیٰ پیمانہ پر۔ ایک ولایتی اخبار نے لکھاہے، کہ ان جانوروں زندہ پکڑ لانا کوئی ارزاں سودا نہیں، ہزارہا کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ ایک ایک جانور کی خرید میں کئی کئی ہزار اُٹھ جاتے ہیں۔ گینڈے اور اَرنے بھینسے کی قیمت، فی جانور، تین تین ہزار سے لے کر چھہ چھہ ہزار ڈالر۔ بعضے جانور صرف افریقہ ہی کے جنگلوں میں دستیاب ہوسکتے ہیں، اُن کا مول دس دس ہزار ڈالر سے بھی مہنگا! یورپ کے شہروں تک ان کے لانے کے مصارف، سب اسی اندازہ سے اوراسی پیمانہ پر۔

پر ادھر بھی کبھی آپ کا خیال گیاہے، کہ جس نظام تمدن نے آدم خورشیروں، اور خوں آشام بھیڑیوں، زہریلے سانپوں اور ہولناک اژدہوں کی پرورش وپرداخت ، راحت رسانی وخدمت گزری، ان شاہانہ اولوالعزمیوں کے ساتھ اپنے اوپر واجب کررکھی ہے، اُس کا معاملہ خود اپنے ہم جنس انسانوں اور اپنے مورثِ اعلیٰ آدمؑ کے بچوں کے ساتھ کیاہے؟ اس نظام تمدن کے سایہ میں غریبوں اور کنگالوں کا کہیں ٹھکانا ہے؟ کمزوروں اور ناطاقتوں کی عزت کا کوئی سہارا ہے؟ زیردستوں اور بیچاروں کے حقوق کی حفاظت کی کوئی صورت ہے؟ جوبے زر اور بے گھر ہیں، اُن کی رسائی لاٹ صاحب کی کوٹھی، اور بڑے صاحب کے بنگلے تک کسی طرح ممکن ہے؟ اور پھر جو قومیں محکوم ہیں،اُن کے حقوق کہیں بھی محفوظ ہیں؟……آپ کہیں گے کہ لیکن آخر محتاج خانے اور یتیم خانے بھی تو ہیں۔ دُرست۔ لیکن یہ ارشاد ہوا ، کہ وہاں تک بھی رسائی اُن کی کیونکر ہو، جو نہ وسیلے رکھتے ہیں نہ سفارشیں! سرکاروں درباروں کو چھوڑئیے، اِن غریبوں کی پہونچ تو چپراسیوں اور اردلیوں ، دربانوں اور جمعداروں تک بھی نہیں ہوپاتی۔ اور گرتے پڑتے، رینگتے گھِسلتے، کسی طرح پہونچے بھی، تو دھکّے دے کر نکالے گئے۔

کہتے ہیں کہ رومہ کا ایک شقی القلب وسنگدل فرماں روا نیرو ہوا ہے۔ سارے شہر میں آگ لگوادی، اور خود، گاتابجاتا، تماشہ دیکھتارہا۔ رعایا فاقے کرکرکے رہی، اور وہاں ابرِ کرم کی بارش گوئیوں اور سازندوں، بھانڈوں اور ڈھاریوں پر ہوتی رہی! نیروؔ کا نام سنگدلی میں ضرب المثل ہوگیا۔ لیکن جس نظام تمدن نے گھر گھر نیرو پیداکردئیے، جس نے ہمسایوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر شیروں اور تیندووں کا کھِلایا، نمک اور پانی تک پر ٹیکس باندھ باندھ کر، اژدہوں اور سانپوں کوپالا اور جِلایا، اُس کے حق میں آپ کی زبان ذرابھی نہیں کھلتی؟ اور اُس کی بھَٹّی میں ایندھن بننے کے لئے آپ اپنے مال اور اپنی اولاد کو بے اختیار جھونکے چلے جاتے ہیں!