Sachchi Batain. Tababat Ka Pesha. by Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

06:46PM Sat 16 Dec, 2023

سچی باتیں (۹؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ آج کے دور میں طبابت کا پیشہ

 تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

طبابت کا پیشہ ، دنیا کے شریف ترین پیشوں میں ہے۔ پُرانے اطباء کا مقصود وخدمت خلق، اور رضائے خالق تھا۔ دوائیں کرتے اور دعائیں لیتے۔ علاج کرکے بیمار پر کوئی احسان نہ رکھتے، خود اپنی عاقبت سنوارتے ۔ کہتے ہیں، یہ علم انھیں انبیاء علیہم السلام سے ورثہ میں ملا تھا۔ جاہ وناموری، زروجواہر، سے اس پیشہ کو دُور کا بھی علاقہ نہ تھا۔ آج آپ اپنے شہر میں سب سے بڑا حکیم، یا سب سے بڑا ڈاکٹر کسے کہتے ہیں؟ یقینا اُسے نہیں، جو اپنے فن کا سب سے بڑا ماہر ہے۔ اُسے بھی نہیں، جو مریضوں پر توجہ اور شفقت سب سے زائد کرتاہے، بلکہ اُسے جس کی ’’فیس‘‘ سب سے اونچی ہے، جو اعلیٰ سے اعلیٰ موٹر رکھتاہے، اور جو بغیر ’’ڈبل فیس‘‘ کے ، رات کو قدم باہر نہیں نکالتا!

کسی بے گناہ کو سزاسے نجات دلانا ، بزرگوں اور درویشوں کا کام تھا۔ بادشاہ اور حاکم کے سامنے کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہہ کر اُسے اُس کے حقوق دلادینا، اہل اللہ کا مشغلہ تھا۔ آج آپ سب سے بڑا بیرسٹر، یا سب سے بڑا وکیل کس کو قرار دیتے ہیں؟ اُسے نہیں، جو قانون کا سب سے بڑا ماہرہے، اُسے بھی نہیں، جو مقدمات کی پیروی میں سب سے زیادہ غورومشقت کرتاہے، بلکہ اُسے جس کی ’’پریکٹس‘‘ سب سے اعلیٰ ہے، جو فیس سب سے زائد گراں لیتاہے!……اب طبیب صاحب ہون یا ڈاکٹر، وکیل صاحب ہوں یا بیرسٹر، سب کی بڑائی اور عظمت کا ، سب کی شہرت وناموری کا، سب کے کمال فن اور اعزاز کا معیار، بس یہ رہ گیا ہے، کہ کس میں جلبِ زر کا سلیقہ زائد ہے، کس کی فیس اونچی ہے، کون کماتا سب سے برھ کر ہے!

کہتے ہیں، الناس علیٰ دین ملوکہم۔ جیسا راجہ ویسا پرجا۔ جیسا بادشاہ ویسی رعایا۔ تاجر قوم کے تسلط کا اثر، زندگی کے ہر ہر شعبہ میں، ایک ایک گوشہ میں نمایاں ہے۔ دُکانداری ہماری رگ رگ ریشہ ریشہ میں حلول کرگئی ہے، اور ہر کمال، ہر عزت، ہرعظمت کا معیار بن کر رہی ہے۔ تنہا طبابت ووکالت ہی پر موقوف نہیں، جس طرف بھی آنکھ اُٹھائیے، یہی سماں نظرآئے گا۔ سب سے بڑے عالم دین آج کون سمجھے جاتے ہیں؟ وہ ، جو بڑی بڑی اونچی محفلوں میں پوچھے جاتے ہیں۔ سب سے بڑے مشائخ ودرویش کون تصور کئے جاتے ہیں؟ وہ جن کے مُرید اور معتقد، فلاں نواب صاحب، فلاں راجہ صاحب، فلاں خان بہادر صاحب ہیں! اقبال نے، کبھی اسلام اور شارع اسلام کی شان یہ بتائی تھی،

از کلیدِ دین درِ دُنیا کشاد!

امت نے اسی ترتیب کو اُلٹ دیا۔ اب ہمارے ہاں اگر دین کا دروازہ بھی کھُل سکتاہے، تو اسی دُنیا کی کُنجی سے!چک بُک  کی حکومت دلوں پر اور دماغوں پر، آنکھوں پر اور دکانوں پر، ہاتھوں پر اور زبانوں پر ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتاہے، کہ اِس طُرفہ غلامی کا، ذہنی اور عقلی، مادّی اور حسّی غلامی کا، خاتمہ کب، اور کیونکر، ہوگا!