Sachchi Batain. Qalil Jamaat
پارۂ سیقول کے آخر میں قوم یہود (بنی اسرائیل) کی تاریخ کے ایک واقعہ کا ذکر آتاہے، کہ اس زمانہ میں جالوت نامی ایک ظالم وسرکش بادشاہ نے مومنین پر طرح طرح کے مظالم ڈھارکھے تھے، بڑی دعاؤں کے بعد بالآخر مومنین کو ایک سردار جالوت نامی ہاتھ آیا۔ اس کے آگے ، کلام پاک کی تصریح ہے، کہ
﴿فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ﴾ [البقرة: 249]
جب طالوت مع اپنی سپاہ مومنین کے نہر کے پار (دشمن کے مقابلہ میں) پہونچا، تو ان لوگوں نے جالوت کی کثرت سپاہ اور سازوسامان کو دیکھ کر) کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کی سپاہ سے مقابلہ کی طاقت نہیں۔
یہ کہنے والے، رسول کے ماننے والے ہی تھے، منکر نہ تھے۔ اور قرآن اُن کے قول کو بلا نکیر نقل کرتاہے۔ یہ سند ہے اس امر کی ، کہ کثرت تعداد سے یا شوکت وسامان سے قلوب کا متأثر وخوف زدہ ہوجانا ایک امر طبعی ہے، جس کا اسلام وایمان کے ساتھ جمع ہوجانا ممکن نہیں۔ بس آج بھی جن مسلمانوں پر ’’ہندواکثریت‘‘ کا خوف، اور انگریزی حشمت واقتدار کی دہشت چھائی ہوئی ہے ، وہ بیچارے ایک حد تک معذور ہیں۔
اس کے معًا بعد ، کلام مجید ہی میں، مومنین کے ایک دوسرے گروہ کا قول بھی مذکور ہے،
﴿قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ [البقرة: 249]
(یہ سن کر) وہ لوگ جنھیں اس کا یقین تھا کہ اللہ کے حضور میں حاضر ہونا ہے، بولے، کہ اکثر ایسا بھی ہوتاہے، کہ اللہ کے حکم سے قلیل جماعت کثیر جماعت پر غالب آگئی ہے(کثرت سپاہ سے ڈرنا کیسا) اور اللہ تو صبر (واستقامت) والوں کے ساتھ ہے۔
گویا جو مومنین زیادہ پختہ ایمان کے تھے، اُنھوں نے سمجھایا کہ کثرت یا اکثریت سے ڈرنا بے معنی ہے۔ اللہ کے حکم سے ، تھوڑی تعداد بھی بڑھی تعداد پر غالب آجایا کرتی ہے، اور اقلیت اکثریت کو شکست دے دیتی ہے، صبرواستقامت سے کام لو، تو حق تعالیٰ کی معیت نصیب میں آئے گی!……اس گروہ کا ممدوح ومبارک ہونا ظاہر ہے، لیکن ان کی اس قوت قلب کی ، ان کی اس بے خوفی کی، بے جگری کی، مخلوق سے بے نیازی کی بنیاد، قرآن سے کیا نکلتی ہے؟ محض ان کا اعتماد آخرت!الذین یظنون أنہم ملاقوا اللہ۔ ان کا وصف امتیازی یہ تھا، کہ معاد کا اعتقاد ، بعث ونشر کا اعتقاد، احکم الحاکمین کے حضور میں پیشی کا اعتقاد، اُن کے لئے حال بن چکا تھا،یہ عقیدہ اُن میں راسخ ہوچکاتھا، اُن پر چھاچکاتھا۔ تو نتیجہ یہ نکلا، کہ ’’اکثریت‘‘ کا خوف اگر دلوں سے دُور کرناہے، تو صحیح علاج یہ ہے، کہ ایمان کو خوب پختہ کیاجائے، جس کا ایمان واعتقاد جس قدر زیادہ پختہ ہوگا، اُسی نسبت سے وہ غیراللہ کے مقابلہ میں نڈر اور بِلا جھجک ہوگا۔
آج کسی کی توجہ اس آسمانی علاج کی طرف ہے؟ جُداگانہ ومخلوط، انتخاب پر بحثیں صدہا ہزارہا بار ہوں گی، بیشمار مقالات لکھے جائیں گے، بے گنتی تقریریں ہوں گی۔ ایک کخے گا:-’’اِن ٹوڈیوں کو دیکھو، ہندووں سے لرزے جاتے ہیں، دوسراجواب دے گا:-’’ان بے غیرتوں کو دیکھو، اپنا ضمیر ہندووں کے ہاتھ فروخت کرچکے ہیں‘‘۔ باہم سب وشتم وبدگمانیاں، بدزبانیاں، درازدستیاں، سب ہی کچھ ہوگا، بس یہ نہ ہوگا، کہ یظنون أنہم ملاقوا اللہ کی طرف ایک بار، آزمائش، ہی کے طور پر رجوع کیاجائے، بے اعتمادی کے ازالہ کی حقیقی تدبیر پر توجہ کی جائے، اور سب کو ایمان باللہ، اعتماد علی اللہ کی پختگی ورسوخ پر اکٹھا کیاجائے۔