Sachchi Batain . Paidaish Aur Maut Ka Mahoul
کسی بچّہ کو، پیداہوتے ہی آپ نے دیکھاہے؟ کیسا آلائشوں میں آلودہ، اور گندگی میں شرابور ہوتاہے! اور پھر بظاہر تکلیف میں بھی کس قدر مبتلا ہوتاہے۔ روتاہے، چیختاہے، چلّاتاہے، لیکن گھروالوں پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ کوئی اس سے گھناکر الگ ہٹ جاتاہے اور نہ کوئی اسے مبتلائے مصیبت سمجھ کر اس سے ہمدردی کرنے لگتاہے۔ یہ سب خوش ہی ہوتے ہیں۔ ماں،باپ، دایہ، بھائی، بہن، سب کے چہرے کھِل ہی جاتے ہیں۔ کوئی انعام اکرام مانگتاہے، کوئی سجدۂ شکر میں گرتاہے، کوئی منّتیں بڑھانے لگتاہے، کوئی بچہ کے نہلانے دھُلانے اور پاک صاف کرنے میں لگ جاتاہے ۔ ظاہری حالات کا اقتضا یہ تھا، کہ سب گھناکر دُور بھاگتے، یا کوئی ازراہِ خداترسی قریب رہ جاتا تو وہ ہمدردی کی تدبیروں میں لگ جاتا۔ مگر یہ کوئی بھی نہیں کرتا۔ اثر، ظاہری حالت کے مقتضی کے بالکل برعکس ہی پڑتاہے…یہ روزمرہ کا تجربہ، ہر جگہ، ہرزمانہ، ہرقوم، ہرملک، ہردَور، ہر گھرانے، کا ہے۔
مرنے والوں کی حالت علی العموم کیاہوتی ہے؟ عمومًا بظاہر ٹھیک اسی طرح کی گندی اور گھناؤنی۔ کسی کا جسم، بخار سے سوکھ کر بالکل کانٹا ہوچکا۔ کسی کو دست اتنے آئے کی پاس بیٹھنے والے اپنی اپنی ناک میں رومال لگائے ہوئے، کسی کے زخموں میں ایسی عفونت پھیلی، کہ پاس کھڑا ہونا دشوار۔ کسی کی شکل بیماری نے ایسی بگاڑدی، کہ دیکھنے والوں سے دیکھا نہیں جاتا۔ جو ان سے جوان، خوبصورت سے خوبصورت، تنومند سے تنومند موت کے وقت، اکثر کیسے ناتوان، بدہیئت، اور غیر دلکش ہوجاتے ہیں!……ان کی زارونزار ظاہری حالتوں اور گھناؤنی ، جسمانی ہیئتوں پر نہ جائیے، یہ دیکھئے کہ جس عالم میں ان کی ولادت ہورہی ہے، جس جہان میں ان کا داخلہ نیا نیا ہورہاہے، وہاں یہ کس کس طرح ہاتھوں ہاتھ لئے جارہے ہیں، اور کیسی کیسی ان کی آؤبھگت ہورہی ہے! کیا کوئی دایہ، ملائکہ، رحمت سے بڑھ کر شفیق اور رحیم ہوسکتی ہے؟ کیا کسی ماں کی مامتا، ارحم الراحمین کے لطف وکرم ، شفقت ورحمت ، کے ہم پلّہ ہوسکتی ہے؟
دیکھنے کی بات صرف یہ ہے، کہ ان کی روحیں کتنی صاف اور ستھری ہیں؟ جس عالم میں اب یہ ہستیاں اب اول اول داخل ہورہی ہیں، وہاں کی فضا اور ماحول کے یہ کہاں تک مطابق، اوروہاں کا لطف وعیش اُٹھانے کے لئے یہ کہاں تک تیارہیں۔ اور اس کا معیار کیاہے؟ فضل خداوندی کے بعد، صر ف اپنے اپنے اعمال ! اگر عمل اچھے ہیں، اگر زندگی طاعت وعبادت میں بسر ہوئی ہے، اگر عمر، قوانین آسمانی کی فرماں برداری میں گزری ہے، تو یہاں سے لے کر وہاں تک ، اس گھڑی سے لے کر ابد الآباد تک بس چین ہی چین، راحت ہی راحت، عیش ہی عیش ہے۔ جسم کی نزاکتیں اور رعنائیاں ، مادّہ کی لطافتیں اور حسن آرائیاں سب اسی عالم ناسوت تک ہیں۔ وہاں، اوراُس عالَم میں ، جو چیز خوشبو اور حُسن پیدا کرتی ہے، اور رعنائی ونزاکت بن کر محسوس ہوتی ہے، وہ تو محض حسن عمل ہے۔ اکبر کی زبان میں ؎
قرآن ہے شاہد کہ حدا حُسن سے خوش ہے
کس حُسن سے ، یہ بھی تو سُنو ، حُسنِ گل سے!
اور عارف رومیؒ کے الفاظ میں ؎
گرمیانِ مشک تن راجا شود
روز مرہ مُردن گندہا پید شود
مشک را برتن مزن بر دل بمال
مشک چہ بود، اسمِ پاک ذا الجلال
جسم کو اگر مشک کے درمیان بھی ڈھک کررکھاجائے، جب بھی آخر موت کے بعد تو طرح طرح کی گندگی ظاہر ہوکر رہے گی۔ مشک کے ملنے کی جگہ جسم نہیں، جان ہے، تن نہیں، دل ہے۔ اور یہ مشک کیا چیز؟ کوئی مادّی شے نہیں، حق سبحانہ‘ وتعالیٰ کا ذکر!