Sachchi Batain. Mojizati Inquilab

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:09PM Sun 23 Feb, 2025

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

ہزارہا مے نوشوں اوربدمستوں کو جن کی گھٹّی میں شراب پڑی ہوئی تھی، یک بیک اُس سے تائب ، پاکباز وپارسا کس نے بنادیا؟ ہزارہا ہزار بدکاروں کو، جن کا اوڑھنا ، بچھونا، بدنظری، بدوضعی، بدچلنی تھا، دیکھتے دیکھتے ،متقی وزاہد کس نے کردیا؟ جس قوم میں چوری، خیانت، بدعہدہ، کینہ پروری، خود بینی، نخوت، بیدردی، خوں ریزی، انسان کشی، برادرکشی، عام تھی، اُس کے اندر، صدیوں میں نہیں، سوپچاس برس کی مدت میں بھی نہیں، دس ہی بیس سال کے اندر اندر، صلح وآتشی، امن واتحاد، حلم وعفو، سچائی اور دیانت، تواضع وفروتنی، مساوات واخوت، ہمدردی ورحم دلی، برادرنوازی واعزہ پروری کی روح کس نے پھونک دی؟ جوُا کس نے چھڑایا؟ بت پرستی کی رسموں کو دلوں سے کس نے اُجاڑا؟ گندگی اورعفونت میں پڑے رہنے والوں کے ظاہروباطن دونوں کو صاف، سُتھرا، اُجلا اور دلکش کس نے بنادیا؟ توحید پرستوں، شرک سے نفرت کرنے والوں، روزہ داروں، تہجد گزاروں کی قوم کی قوم کس نے پیدا کردکھائی؟……جواب، جوش عقیدت سے نہیں، واقعاتِ تاریخ سے طلب کیجئے۔

روحانی انقلاب اور اخلاقی اصلاح کو چھوڑئیے۔ خالص مادی اور دنیوی پہلو کو لیجئے۔ جو ’’کچھ‘‘ نہ تھے، وہ کس کے اثروتوجہ سے ، یک بہ یک’’سب کچھ‘‘ ہوگئے؟ جن کے پاس خُرمے کے چند باغوں اور اونٹوں کے گلوں کے سوا اور کچھ نہ تھا، وہ کس کے فیض سے، ملک کے نہیں،ملکوں کے، سلطنتوں کے، مالک بن بن گئے؟ جس قوم پر اُس کے ہمسائے ہنستے، اور جسے ہمیشہ حقیر ہی سمجھتے رہے، کیا ایساہوگیا، کہ وہی قوم ان سب پر غالب، حاکم ومتصرف ہوکررہی؟ جو مفلس اور کنگال تھے، وہ کیسے زردار وخزینہ دار بن گئے؟ اور جو ذلیل وپست تھے، ان کا شمار معززین اور اقبال مندوں میں کیسے ہونے لگا؟ جو لوگ رومہؔ وفارسؔ کے باجگذاروں سے دبے ہوئے تھے، وہ خود رومہؔ وفارسؔ کے تاجدار ہوہوکر، کس مرد بزرگ کی نظر کیمیا اثر سے رہے؟ ……جواب اس کا بھی تقلیدًا نہیں، تحقیقاً ، تاریخ کے اوراق سے حاصل کیجئے۔

دین ودنیا، دونوں کے انتہائی فلاح وبہبود کے جامع، مادی وروحانی دونوں ترقیوں کے ضامن، کی حیثیت سے کوئی دوسرا نام ، پوری چھان بین ، تلاش وجستجو کے بعد، بجز عرب کے نبی امیؐ کے ملے گا؟ ’انقلاب‘’انقلاب‘ سب پکارتے ہیں، ’رفارم‘ ’رفارم‘ کے نعرے سب لگاتے ہیں، ایسے معجزانہ انقلاب، ایسے حیرت انگیز اور کامیاب رفارم کی کوئی اور مثال آپ کو کہیں بھی ملے گی؟ اس واقعہ کے ہوتے، اس تجربہ کے باوجود، اس مشاہدہ کی موجودگی میں، یہ کیسی محرومی، اور کیسے حیف کی بات ہے، کہ آپ کبھی ارسطو کے فلسفۂ اخلاق کا درس سننے کو دوڑتے ہیں، اور کبھی افلاطونؔ کی ری پبلک کے اوراق پر دیدہ ریزی کرنے کو لپکتے ہیں، کبھی دیوجانسؔ کلبی کے ’ٹب‘ کی طرف بڑھتے ہیں، کبھی روسوؔ کے مُعاہدہ عُمرانی کی دفعات کی طرف کان لگاتے ہیں، کبھی کارل مارکسؔ اور لیننؔ سے لَو لگاتے ہیں، اور کبھی مسولینیؔ اور ہٹلرؔ کو آخری سہاراسمجھنے لگتے ہیں! علقی وقیاسی نظریات کو الگ کیجئے، محض مشاہدہ وتجربہ کی راہ ہے، آپ شادابی ، خوش بختی، سرسبزی، کامرانی کدھر پارہے ہیں، اور ویرانی، شوربختی، خشکی، پزمردگی، خانہ جنگی، تباہی کدھر؟