Sachchi Batain. Ishtirakiat ka Fitna

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

07:35PM Sat 8 Feb, 2025

مُلک کے ایک مشہورہندو لیڈر نے اب کی قید فرنگ سے آزاد ہوکر ایک نئے ’’مذہب‘‘ کی تبلیغ شروع کی ہے، اخباری مضامین میں اُسے باربار بیان کررہے ہیں، تقریروں میں اُسے دُہرا رہے ہیں، یعنی موروثی جائدادیں مٹادی جائیں، سرمایہ داری کا خاتمہ کردیاجائے، کاشتکار ، زمیندار، مزدور وکارخانہ دار، ایک سطح پر آجائیں، وغیرہ۔ ان عقائد کے حُسن وقبح، صدق وکذب کی ابھی چھوڑئیے۔سوال پہلا یہ ہے، کہ یہ تعلیمات کچھ نئی ہیں؟ ان لیڈر صاحب ، یا اُن کے کسی ہم وطن، ہم قوم کی طبع زاد ہیں؟ دنیا، یا کم ازکم دنیائے ہند، پہلی بار ان سے آشنا ہورہی ہے؟ یا یہ سب کچھ بعینہ وہ ہے، جو دنیا میں مدتوں سے کہا جارہاہے! کارل مارکسؔ اور لیننؔ اور ٹراٹسکیؔ، اوراُن کے پیرو اور شاگرد تو اس وعظ کو صدہا ہزارہا بار دُہرا چکے ہیں۔ اشتراکیت (سوشلزم) اور اشتمالیت(کمیونزم) اور انھیں کے مثل دوسرے ناموں سے اس کی دعوت تو دنیا کو سالہا سال سے مل رہی ہے۔ اور مملکت روس ان تعلیمات کو ایک مدت سے جامۂ عمل بھی پہنا چکاہے۔ ان میں نُدرت اور جدّت کا کون سا پہلو ہے؟ مخالفین سے نہیں، ان لیڈر صاحب کے بڑے بڑے گہرے معتقدین سے سوال ہے، وہ ازراہِ کرم ارشاد فرمائیں، کہ ’اجتہاد‘ فکری اس ہندی قائد کی تعلیمات کے کس درس سے، کس شعبہ سے ، ظاہر ہوتاہے؟ کیا ’’حریت‘‘ دماغی اسی کا نام ہے، کہ جو مباحث یورپ میں پامال ہوچکے ہوں، بلکہ جن نظریات کے خلاف یورپ کے متعدد ملکوں میں ردّ عمل شروع ہوچکاہے، اُن کو ہندوستانیوں کے سامنے دہرادیاجائے؟

بات باریک نہیں، بہت موٹی سی ہے، اور مخفی نہیں،بالکل ظاہر وصریح ہے۔ لیکن اتنی واضح حقیقت کی طرف بھی کسی کے ذہن کا التفات ہورہاہے؟ غیر مسلموں سے یہاں غرض نہیں، اُن مسلمان کہلانے والوں سے بھی روئے سخن نہیں، جومغرب زدگی، یا ، ہندوزدگی، کی رَو میں بالکل بہہ گئے ہیں، گزارش اُن مسلمان قائدین اور اہل صحافت کی خدمت میں ہے، جنھیں اپنا اسلام اپنی جان سے بڑھ کر عزیز اور اپنی مشرقیت محبوب ہے( اور بحمد اللہ ایسوں کی تعداد ابھی اچھی خاصی ہے، معدوم یا کالمعدوم نہیں)۔ ان حضرات نے آخر کیا سوچ کر، ایک سرتاسر، بدیسی اور غیر اسلامی پروپیگنڈا کی حوصلہ افزائی شروع فرمادی ہے؟ سرمایہ داری (کیپٹل ازم) کا فتنہ یقینا شدید تھا اور ہے۔ اس کا مقابلہ یقینا ضروری تھا اور ہے۔ لیکن یہ کہاں کی مصلحت شناسی اور عاقبت اندیشی ہے، کہ اُس سے مقابلہ کے لئے، ایک اُس سے بھی اشد فتنہ کو اپنے اوپر مسلّط ہوجانے کاموقع دے دیاجائے؟ اسلام نے یقینا مساوات کی تعلیم دی ہے، لیکن جس مساواتِ مطلقہ کا دعویٰ بعض فرنگی گمراہوں نے کیاہے، اُس کی تائید، عقل سے،نقل سے، شریعت سے، تجربہ سے، کہاں تک ہوتی ہے؟

کیا خدا کی شان ہے، ابو حنیفہؒ سے، ابو یوسفؒ کی تقلید سے، شافعیؒ کی تقلید سے، ہم خود شرمائیں، اپنے کا ان کا مقلد کہتے ہوئے ہمیں خود عار آئے، بخاریؒ کا نام لیں، جیلانیؒ کے نقش قدم پر چلیں، غزالیؒ کا حوالہ دیں، تو ’’رجعت پسند‘‘ ٹھہریں، ’’تاریک خیال‘‘ کہلائیں، ’’مقلد جامد‘‘ کا خطاب پائیں، ’’دشمن ترقی واصلاح‘‘ و ’’فرسودہ دماغ‘‘ کے القاب سے سرفرا ز ہوں، لیکن یورپ کی راہ سے جو آواز بھی آئے، اور اُس آواز پر بے سوچے سمجھے، ہم خود بھی جس طرح آواز لگانے لگیں، وہ عین روشن خیالی ہے، ترقی پزیری وترقی پسندی ہے، مایۂ فخرہے، سندِ افتخار ہے، اور اُس کی تبلیغ واشاعت، حمایت ونصرت ہے، ہمارے اچھے اچھے ذی علم، باوقار، اور دیندار افرادتک جھجکیں نہ شرمائیں ،

کہ ملّا برسر بازار شد مست!