Sachchi Batain - Duniya Wa Akhirat

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

02:00PM Sun 2 Feb, 2025

دنیائے دنی، ناپاک ہے، مُردار ہے، توجہ کے قابل نہیں، التفات کے لائق نہیں۔ دُنیا ہیچ است وکار دنیا ہمہ ہیچ۔ یہ اور اسی طرح کے اور الفاظ اپنے واعظوں کی زبان سے بارہا سُنے ہوں گے، اخلاق کی کتابوں میں بارہا پڑھے ہوں گے، گویا یہی عین دینداری اور یہی حاصلِ تقویٰ ہے۔ لیکن کلام الٰہی میں تو دُنیا کی طرف متوجہ ہونے کی اجازت ہی نہیں حُکم موجود ہے! اور وہ بھی کچھ زیادہ پُرپیچ الفاط میں نہیں، تقریبًا صراحت ہی کے ساتھ!……حیرت نہ کیجئے، آیت ، تلاوت کے وقت صدہا بار آپ کی نظر سے گزرچکی ہے، یہ اور بات ہے کہ اب تک اس پر توجہ نہ فرمائی گئی ہو۔ سورۂ بقرہ کے رکوع ۲۷ میں ارشاد ہوتاہے،کہ

﴿يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ ،فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾  سورة البقرة .219

اللہ اس طرح احکام کو کھول کر بیان کرتاہے، تاکہ تم دنیا اور آخرت میں غور کرو۔

غوروفکر کرنے کا حُکم اگر صرف آخرت سے متعلق ہوتا، تو عین توقع کے موافق تھا۔ لیکن یہاں آخرت کے ساتھ ہی ساتھ، اسی سلسلہ میں، اور اسی پر عطف کرکے،’’دُنیا‘‘ سے متعلق بھی ہے! اوپر سے ذکر بعض احکام فقہی کا چَلا آرہاہے، آگے بھی یہی ذِکر ہے۔ مصارفِ خیر، حلّت وحرمت، وغیرہا۔ درمیان میں ٹکڑا یہ آگیا، کہ غور کرو آخرت پر بھی اور دُنیا پر بھی!غوروفکر ظاہر ہے کہ توجہ کے بعد ہی ہوسکتاہے، تو کیا صوفیہ وعلماء کی تعلیم وتلقین اب تک بالکل غلط ہی رہی ہے؟ نہیں، وہ تعلیم ذرابھی غلط نہ تھی، صرف ہم سے سمجھنے میں غلطی رہی۔ مطلق توجہ اور غوروفکر ، محبت ودوستی، پسند واختیار کے کیا مستلزم ہے؟ توجہ جس طرح اپنے خاص خاص عزیزوں دوستوں پر رہتی ہے، اُسی طرح اپنے بڑے بڑے جانی دشمنوں پر بھی تو مصروف رہتی ہے! مطلق توجہ اور غوروفکر کی تاکید ہے۔ یہ کب لازم آتاہے، کہ دنیا کی دوستی اورمحبت بھی کسی درجہ میں پیداکرو؟ صوفیہ وعلماء نے جس شے سے روکا ہے، وہ دنیا کی دوستی ومحبت ہے۔

کلام پاک نے حقیقۃً دنیا اور کاردُنیا میں غوروفکر کی تاکید کرکے، دنیا کے ساتھ دوستی ومحبت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا، اور اس کی جڑ ہی کاٹ دی۔ ایک اسی سال کی پیرزال اگر نہایت خوشمنا برقع پہنے ہوئے ہوں، اور کسی نوجوان کی نگاہیں اشتیاق سے اس طرف لگی ہوئی ہوں، تو کسی دانا کا اُس پیرزال کے چہرہ سے نقاب اُلٹ دینا۔ اور نوجوانوں سے یہ کہنا، کہ آؤ، خوب اچھی طرح، غور کرکے دیکھ لو، یہ اُس کے شوق واشتیاق کو بڑھانا ہے، یا اور اُس کی جڑتک کاٹ دینا؟ نوجوان محض وعظ ونصیحت سے ہرگز اتنا نہ مانتا ، جتنا اب قائل ہوجائے گا۔ دنیا کی حقیقت تو اس قدر واضح ہے کہ دنیا سے وابستگی جبھی تک ہے، جب تک قلب غافل ہے۔ پردۂ غفلت اُٹھنے، اور غور کرنے کے بعد کون اس کا دیوانہ رہ سکتاہے؟ کس کے دل میں ذرا بھی کشش اس کی باقی رہ سکتی ہے؟ آخرت کاباقی ، اور دنیا کا فانی ہونا، تو ادنیٰ غور کے بعد بھی روشن ہوجاتاہے، اور کون، فانی کو فانی سمجھ چُکنے کے بعد اُس سے اپنا دل اٹکاسکتاہے؟