Sachchi Batain. Dua

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:22AM Mon 11 Dec, 2023

 

 اے بسا مخلص کہ نالد در دعا

دور اخلاصش بر آید تا سما

روزمرہ کا تجربہ ومشاہدہ ہے، کیسے کیسے مخلصین کس کس طرح رورو کر گڑگڑاگڑگڑاکر دعائیں کرتے رہتے ہیں اور قبول نہیں ہوتی ہیں۔ فرشتوں تک کو ترس آجاتاہے، اور وہ عرض کرتے ہیں، کہ بارِ الٰہا، تیری رحمت تو دشمنوں تک پر ہے، پھر دوستوں کے حق میں یہ تاخیر کیسی؟

بس ملائک با خدا نالند زار

کائے مجیبِ ہر دعا و مستجار

بندۂ مومن تضرّع می کند

 

او نمی داند بجز تو مستند

تو عطا بیگانگاں را می وہی

 

از تو دارد آرزو و ہر مشتہی

جواب ملتا ہے، کہ بے شک ہم رحیم بھی ہیں اور قادر بھی، لیکن ساتھ ہی’’حکیم‘‘ بھی تو ہیں۔ مصلحتوں اور حکمتوں ، بندہ کے نفع ونقصان کا بھی علم ہم ہی کو تو ہے۔ یہ جو دیر ہورہی ہے، تو اس میں عین اسی بندہ کی مصلحت ہے۔

حق بفرماید نہ از خواریِ اوست

 

عین تاخیرِ عطا یاریِ اوست

بہت ہم سے بھاگا بھاگا پھر رہاتھا۔ یہ آرزو اور حاجتمندی ہی تو اسے گھر گھار کر ہماری طرف لائی ہے، اگرآرزو پوری کردی گئی، تو پھر کبھی تو ادھر رُخ کرنے کا نہیں۔ پھراُسی طرح بھاگے گا، اور کھیل کود میں پڑجائے گا۔ نالۂ وزاری سے اس کا مرتبہ بڑھ رہاہے، کچھ گھٹ نہیں رہاہے۔ آہ وفریاد ، اضطرار واضطراب، سوزوگداز ہی کی نذر تو ہمارے دربار میں مقبول ہے۔

نالۂ مومن ہمی دریم دوست

 

گو تضرع کن کہ ایں اعزازِ اوست

حاجت آوروش ز غفلت سوئے من

 

آن کشیدش موکشاں در کوئے من

گر بر آدم حاجتش او واردو

 

ہم دراں بازیچہ مستغرق شود

قبول دعا میں تاخیر کم التفاتی کی بناپر نہیں، عین لطف والتفات کی بناپرہے۔ عاجز وبے کس بندہ کو کیاخبر، کہ اس کی’’یارب‘‘ ’’یارب‘‘ کی صداؤں سے اس کے کیا کیا مرتبے بڑھ رہے ہیں، کیسے کیسے درجے طے ہورہے ہیں، اور اُس کی مناجات ہمیں کیسا کیسا خوش کررہی ہے!

خوش ہمی آید مرا آوازِ او

 

واں ’’خدایا‘‘ گفتن و آن رازِ او

آگے چل کر مولاناؒ (روم) فرماتے ہیں، کہ انسان اپنی تفریح اور دلبستگی کے لئے پنجرہ میں طوطی اور بُلبل کو بند کرتاہے، ان کی آوازوں سے لطف لیتاہے، کوّے اور اُلُّو کو قید نہیں کرتا۔ جو دیکھنے میں حبس وبند، گرفتاری واسیری ہے، وہی درحقیقت عین مقبولیت ومحبوبیت ہے۔ دو سائل سوال کرنے آتے ہیں، جو کریہ منظراور بدقوارہ ہوتاہے، اُسے فورًا کچھ دے کر رخصت کردیاجاتاہے، جو خوش منظراور قبول صورت ہوتاہے، اُس کو طرح طرح حیلے بہانے کرکے لیاجاتاہے۔ بیچارہ سمجھتاہے، کہ اُس کے سوال کے پورے ہونے میں دیر لگ رہی ہے، دینے والے کریم کا دل اُس پر آئینہ ہوتا، تو اس تاخیر وانتظار پر صدہا عجلتیں اور فوری کامرانیاں قربان کردیتا!