sachchi Batain- Darja qutubiat

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:38AM Mon 24 Jun, 2024

 سچی باتیں (۳۱؍مارچ ۱۹۳۳ء)۔۔۔ درجہ قطبیت 

 بعض بزرگوں کی زبان سے ایک حکایت یوں سننے میں آئی ہے، کہ حضرت شاہ جیلانیؒ ، ایک بار شب کو بعد تہجد، اپنی خانقاہ سے باہرنکل، روانہ ہوئے۔ ایک مخلص خادم بھی چپکے سے ساتھ لگ لئے۔ حضرتؒ شہر بغداد کی شہر پناہ کے پھاٹک تک پہونچے۔ پھاٹک مضبوط قفلوں سے مقفل فورًا کھُل گیا، اور حضرتؒ شہر کے باہر ، چند ہی قدم بعد ایک دوسرا شہر دکھائی دیا۔ خادم حیران، کہ یاالٰہی ، یہ بغداد سے متصل دوسری آبادی کون؟وہاں یہ منظر دکھائی دیا، کہ ایک بزرگ کا انتقال ہورہاہے، غسل وتکفین وغیرہ کے بعد حضرت ہی نے جنازہ پڑھایا۔ خواجہ خضرؑ شریکِ جنازہ رہے۔ مرنے والے بزرگ ، قطب وقت تھے، تمام ابدال واوتاد کے سردار، جانشینی کا مسئلہ پیش ہوا۔ ہر شخص منتظر ومتوقع کہ دیکھئے ، یہ نعمت عظمیٰ کس بڑے زاہد ومتقی کے نصیب میں آتی ہے، حضرتؒ نے فرمایا، ملک روم کے فلاں گِرجا کا جو لاٹ پادری ہے، اُسے فورًا حاضر کرو۔ دَم کے دَم میں تعمیل ہوئی۔ حضرتؒ نے زنارکفر اپنے اشارہ سے توڑ، کلمہ پڑھا، مسلمان کیا، اور فورًا ہی قطبیت کے منصب جَلیل پر سرفراز ۔ پھر اُسی حیرت انگیزتیزی وخاموشی کے ساتھ خانقاہ کو واپسی ہوگئی۔ خادم نے دوسرے دن ، دل میں ڈرتے ڈرتے اپنی جسارت کا حال بیان کیا، اِس پر بہت سے عقدے کھُلے۔

روایت بہرحال، ایک سُنی سُنائی ہوئی حکایت ہے۔ کوئی قرآن کی آیت نہیں، حدیثِ صحیح نہیں، کہ اس کے ہرہر جزو پر یقین کرنا لازمی ہو۔ زمانہ کی ’’روشن خیالی‘‘ کو مختلف حیثیتوں سے روایت کے تسلیم کرنے میں تامل ہوگا، اور کم ازکم اتنا تو اچھے اچھے خوش عقیدہ لوگوں کی بھی زبان پر آجائے گا، کہ ایسے عجیب وغریب واقعات اب نہیں ہوتے! کہاں ایک گرجا کا لاٹ پادری، اور کہاں مرتبۂ قطبیت ! ایک دَم سے یوں قطب ماہیت ہوجانا ممکن کیونکر ہے؟……لیکن کیا خود یہ حیرت صحیح اور اچنبھا واجبی ہے؟ کیا ایسے واقعات ہونے اب بالکل بند ہی ہوگئے ہیں؟ قطبیت وغیرہ کا حال تو اہل کشف وعرفان جانیں، ہم ظاہر بیں تو صرف کھلے ہوئے کفروایمان ، اسلام وعداوت اسلام کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں، اور ان حدود کے اندر تو کسی کی حکمت کے بے خطا نمونے اور کاریگری کے بے نظیر تماشے تو ہر وقت اورہرآن دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیاؔ کے ولایت نژاد سب ایڈیٹر، مسٹر ڈیر اور مسز ڈیر، کو تبلیغ اسلام کرنے کون گیاتھا؟ لاہور کے مشہور انگریزی انشاپرداز اور بیرسٹر، کنہیا لالؔ گابا نے آنکھیں ، ہندوہی نہیں، دشمن اسلام آریہ سماجی گھرانے میں کھولیں، گھر کی تعلیم، ولایت کی تربیت، سارے اثرات عداوت اسلام ہی کے پڑتے رہے، پھر اسلام کی محبت وعقیدت کا تخم ، سینے میں کیسے جڑپکڑگیا؟ ہندوہندوستان ہی کے ایک دوسرے نامور فرزند، رام داس کھان، ایم، اے ، پی، ایچ ، ڈی، مدتوںاپنی زنارپرستی اور کفرپروری ہی پر فخر کرتے رہے، سناتن دھرم کالج لاہور کے پرنسپل رہے، پرنس آف ویلز کالج جموںؔ کی صدارت انجام دی، کسے خیال گزر سکتاتھا، کہ ایک دن وہی رشید الدینؔ خاں بن کر اسلام کے حلقہ بگوش نظرآئیں گے؟ ان پر کون سی تبلیغی چڑھائیاں کی گئی تھیں؟

ان سب کے زنار کفر کس نے دَم کے دَم میں توڑتاڑ کر رکھ دئیے؟ آخر ان لوگوں کے لئے ، اب اور آج کے ہندوستان میں مسلمان ہونے کے لئے کون سی دنیوی کشش تھی؟ کون سے دنیوی طمع، مادی ترغیب ان پر اثر ڈال سکی؟ ان کو اس جہاد کبیر کی، برادری کے، خاندان کے، اعزہ کے، سوسائٹی کے خلاف اس جہاد کی، اس اعلان حق کی توفیق عطاہوجانا، مرتبۂ قطبیت پر سرفرازی سے، بجائے خود کیا کچھ کم ہے؟