Sachchi Batain. Dajjal ka Fitnah

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:00AM Mon 22 Jul, 2024

مئی کا مہینہ شروع ہوئے کئی دن ہوچکے۔ کالجوں میں بڑی چھٹیاں شروع ہوگئیں۔ اُستاد اور شاگرد ہوسٹلوں کو خالی کرکرکے اپنے اپنے گھر، اور بعض پہاڑ پر روانہ ہوگئے۔اسکول بھی بند ہونے ہی پر ہیں۔ دیوانی کی عدالتوں میں بھی سناٹا نظرآنے لگا۔ ہائیکورٹ، چیف کورٹ، ججی، سب ججی، منصفی، سب ہی کہیں ’’تعطیلات کلاں‘‘ آگئیں۔ قصبات ودیہات تک مدرسے بند ہونے لگے۔ میونسپل بورڈ اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے ابتدائی مکتبوں کے مدرّسین اور شاگردوں کے چھُٹی منانے کا زمانہ آگیا ۔ا ور تو اور خالص ’’قومی‘‘ اور ’’آزاد‘‘ اور بعض مذہبی مدرسے بھی اسی زمانہ میں بند ہونے لگے……پہاڑوں پر جانے کا زمانہ آگیا۔ بڑے لاٹ صاحب، چھوٹے لاٹ صاحب، سب مع ہزارہا خدم وحشم، اور لکھوکہادفتروالوں، عملہ والوں، اہلکاروں، اور چپراسیوں کے روانہ ہوچکے ۔ نینی تال اور شملہ، دارجلنگ اور مسوری، اوٹاکمنڈ اور مہابلیشر، دلہوزی اور سولن، الموڑہ اور تابو، رانچی اور شلانگ، سب کی قسمتیں جاگ گئیں۔ نئے نئے ہوٹل جگمگانے لگے، قدم قدم پر سینما اور تھیٹر قائم ہوگئے، لکھنؤ اور الہ آباد، دہلی اور لاہور سے کتنی بڑی بڑی دُکانیں منتقل ہوکر پہاڑوں پر کھُل گئیں۔ ہزارہا ہزار وکیل اور بیرسٹر ، رئیس اور تعلقدار ، حکام اور دوکاندار، پہاڑوں پر پہونچ چکے، اور پہونچ رہے ہیں، اس لئے کہ Plainsکا موسم ، میدانی شہروں کی گرمی اب ناقابل برداشت ہے!

کیا ’’صاحب‘‘ کے قدم رکھتے ہی، ہندوستان میں گرمی بھی بڑھ گئی؟ یا ’’اقبال‘‘ سرکار‘‘ سے مُلک کا موسم بھی بدل گیا؟ آخر ایسی ہی گرمی آج سے چالیس ، پچاس، سو، دوسو برس قبل بھی ہندوستان میں ہوتی تھی۔ اُس وقت بھی مئی اور جون کے مہینے آتے تھے، اُس وقت بھی آفتاب کی یہی تمازت ہوتی تھی، ایسے ہی لُو کے تھپیڑے چلاکرتے تھے، اُس وقت بھی ایسے ہی پسینے چلاکرتے تھے، پھر کیا اُس وقت بھی شہروں اور دیہاتوں کے سارے کاروبار رُک جاتے تھے؟ آخر اُس وقت بھی لڑکے پڑھتے ہی، اور اُستاد پڑھاتے ہی تھے۔ مقدمات کے فیصلے اُس وقت بھی ہواہی کرتے تھے، فصل خصومات کا کام اُس وقت بھی جاری ہی رہتاتھا۔ خرید وفروخت ، لین دین، کا بازار اُس وقت بھی گرم ہی رہتاتھا۔ دماغی اور جسمانی کام آخر اُس وقت بھی بالکل رُک تو نہیں جاتے تھے۔ پھر آخر یہ ایک آدھ نسل سے ہماری کیسی قلب ماہیت ہوگئی، اورہمارا موسم کی سختی کا احساس کس درجہ بڑھ گیا، کہ گویا ہم اس ملک میں پیدا ہی نہیں ہوئے، گویا یہ آب وہوا ہماری قوتِ برداشت سے باہر ہے،گویا اس موسم کے ساتھ ہمارے قُویٰ کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتے!

انگریز، برفستان کے باشندے اگر ہندوستان کی گرمی نہیں برداشت کرسکتے، تو ایک حد تک واجبی ہے۔ لیکن یہ ہماری عقلوں پر کیا شامت سوار ہوگئی ہے کہ اندھا دھند بس سب کچھ وہی کرنے لگتے ہیں، جو ’’صاحب‘‘ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں! وہ اگر یہاں کی گرمی سے بدحواس ہواُٹھتے ہیں، تو ایک حد تک معذور ہیں، لیکن ہم اور ہمارے آباء واجداد سب اسی خاک سے پیداہوئے، سب اسی آب وہوا میں پلے اور بڑھے، یہی موسم ہمیشہ جھیلا، اسی زمین پر رہنا، اوراسی خام میں ملناہے، مگر ’’صاحب‘‘ کی ریس کچھ اس غضب کی ہمارے سروں پر اور جانوں پر، دلوں پر اور دماغون پر، قالبون پر اور روحوں پر ، مسلّط ہوگئی ہے، کہ نہ سوچنے کی سکت باقی رہ گئی ہے ، اور نہ اُس راہ سے الگ ہوکر چلنے کی ہمت! اور تماشہ یہ ہے، کہ جو ’’انگریز‘‘ سے مقابلہ کے لئے اُٹھے ہیں، وہ بھی ’’انگریزیت‘‘ کے آگے سپرانداختہ ہیں! یہی معنی ہیں مخبر صادقؐ کی اس خبر کے، کہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں!

اپنی منقاروں خود کستے ہیں حلقہ جال کا

طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا!