Sachchi Batain... Anjam
ابھی مہینہ دو مہینہ کا ذِکر ہے، کہ ایک دن دفعۃ خبر ملی، کہ میری ایک رضاعی ماں مرض الموت میں مبتلاہیں، اور مجھے دیکھنے کو بُلا رہی ہیں۔ یہ پیشہ ور دائی نہ تھیں، اچھے خاصے شریف گھرانے کی غریب بیوی تھیں۔ بلاخیال اُجرت ومعاوضہ ، محض ہمدردی وخداترسی میں میری رضاعت دوچاربار کردی تھی۔ اپنی غفلت پر نادم، اور فرض فراموشی پر شرمسار، گیا۔ بصارت تو پہلے ہی سے جاچکی تھی، دیکھا کہ اب سماعت بھی جارہی ہے، اور گفتگو پر قدرت مشکل ہی سے باقی رہ گئی ہے۔ کچّا بوسیدہ مکان، فرش اور دیواریں لونے کی نذر، ایک کونہ میں ایک جِنگلے پلنگ پر پڑی ہوئی، آنکھیں بے نور، مجھے دیکھنے کو بُلایاگیا، مگر دیکھنے سے معذور۔ بخارتیز، پڑی بھُن رہی تھیں۔ کھانسی کی شدت سے دم پربنی ہوئی، جتنا بولتیں، اُ سے زیادہ کھانستیں، اور ہر کھانسی پر یہ معلوم ہوتا کہ دم اب اکھڑا اور جب اُکھڑا۔ کوشش کی گئی کہ چلّا چلّا کر کچھ کلمات تسکین سُنائے جائیں، پوری اور خاطر خواہ کامیابی نہ ہوپائی۔
دل کی آنکھوں کے سامنے ایک عجیب پُرحسرت وپُر عبرت منظرتھا۔ یہ نیم زندہ لاش ہمیشہ سے ایسی بے کس، بے بس، بے حس، بے حرکت، بے رونق نہ تھی۔ جب رضاعت کی ہوگی ، جوان رہی ہوں گی۔ کوئی اپنی تازہ اولاد ہوئی ہوگی، گود بھری پڑی ہوگی، میاں زندہ ہوں گے، سُہاگ قائم ہوگا۔ آرزوؤں ارمانوں کے دن ہوں گے، ساس، نند، اورخداجانے کون کون عزیز نازبرداریوں ، خاطر داریوںکو موجود ہوں گے۔ جسم میں قوت ہوگی، جوانی کا زور ہوگا۔ گڈھے میں دبی ہوئی بے نور آنکھیں اُس وقت چمکدار شفاف ہوں گی۔ نگاہیں چاہنے والے شوہر پر بجلیاں گراتی ہوں گی۔ اُس وقت یہ دَم توڑنے والی لاش، سرتاپاقوّت ہوگی، ایسی قوّت کہ دوسرے کی زندگی کا سہارا بن گئی۔ اور وہ جو آج چارپائی کے پاس اچھا خاصہ ، ہٹّا کٹّا، تندرست وطاقتور کھڑاہواہے، اُس وقت کیاتھا؟ محض چند ماہ کا ایک مضغۂ گوشت، محتاجی اور بیچارگی کا مجسّمہ، نہ بولنے چالنے کی سکت، نہ اُٹھنے بیٹھنے کی قوّت، نہ اس قابل کہ اپنے کو گندگی وغلاظت سے بچاسکے، نہ اس پرقادر کہ اپنی کسی کو سُنا سکے! اللہ اللہ! آج نقشہ بالکل بدلا ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے ترتیب بالکل اُلٹ گئی! جو طاقتور اور قوّت دار تھی، وہ عجز ودرماندگی کی تصویر! او رجو ہمہ احتیاج ودرماندگی تھا، وہ آج اپنے کو ارادہ اور قوت والا ، اختیار اور قدرت والا، یا، اور سمجھ رہاہے!
ضعیفہ کا وقتِ مقرر آچکاتھا۔ دوچار دن اور جھیل کر ختم ہوگئیں۔ لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ منظر کیا دنیا سے انوکھا، اور یہ نقشہ کیا جہاں سے نرالاتھا؟ ہرماں اور لڑکی، ہرباپ اور بیٹے کے لئے ، کیا کچھ ایسی ہی صورت، فطرت سے مقدر اور مقرر نہیں کردی گئی ہے؟ ہوشیار، کہ بڑھتی ہوئی قوت ، نشہ سے مست نہ کردے! خبردار، کہ چڑھتی جوانی بھُلاوے میں نہ ڈال دے! ہر بوڑھا کبھی بچہ رہ چکاہے، ہر جھُکی ہوئی کمر اور جھُرّیاں پڑے ہوئے سوکھے گالوں کا ’’پیر فرتوت‘‘ کبھی’’ جوانِ رعنا‘‘ بن کر وقت کی بہاریں لوٹ چکاہے۔ جو آج ناتوان ہیں، کبھی وہ بھی توانا رہ چکے ہیں۔ ہر ’’آغاز‘‘ کا ایک ’’انجام‘‘ ہے، ہر ہنسی کے بعد روناہے، اور ہرجینے کا آخر مرنا۔ مبارک ہیں وہ، جو ہر’آج‘ میں’ کل‘کو یاد کئے ہوئے ہیں، اور ہر ’’حال‘‘ کے آئینے میں ’’مستقبل‘‘ کے جلوے دیکھ رہے ہیں!