Sachchi Batain 27 May 1932

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

11:17PM Mon 9 Oct, 2023

تحریر: مولانا عبدا لماجد دریابادیؒ

سورۂ مائدہ کے شروع میں ایک بڑی سی آیت ہے۔ اس کے پہلے ٹکڑے میں مسلمانوں کو شعائر اللہ کی تعظیم پر توجہ دلائی ہے، دوسرے جزء میں یہ ارشاد ہوتاہے، کہ:-

﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ ‌شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا ﴾ 

اور یہ نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی اس بناپر کہ اُس نے تمہیں مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا، تمہیں اس پر آمادہ کردے کہ تم اُس کے ساتھ زیادتی کرنے لگو۔

یعنی دشمن کے بھی، اور پھر ایسے شدید دشمن کے جو خانۂ کعبہ کی راہ روکے ہوئے ہے، حقوق ہوتے ہیں، مسلمانوں کو نہ چاہئے، کہ غصہ میں آکر ایسے موذی دشمن سے بھی کسی معاملہ میں ناانصافی کا برتاؤ کر بیٹھیں! اللہ اللہ! دنیا کی کون سی کتاب، بجز کتاب اللہ کے ہے، جس میں جان کے دشمنوں اور ایمان کے دشمنوں تک کے ادائے حقوق کی یہ تاکید اور یہ اہتمام ہے!خیر یہ ذِکر تو یہاں ضمنًا آگیا۔ اس وقت مقصود آیت کے تیسرے جزء پر توجہ دلانا ہے۔ ارشاد ہوتاہے:-

﴿‌وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ 

اور نیکی اور پارسائی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو، اور گناہ اور زیادتی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

مسلم قوم کے باہمی برتاؤ اور آپس کی معاملت ومعاشرت کے لئے کتنا بہتر، کتنا اعلیٰ ، ضابطۂ عمل بتادیاگیاہے! ارشاد ہوتاہے ، کہ کسی مسلمان سے نہ خواہ مخواہ علٰیحدگی ، مخالفت، بیگانگی جائز ہے، نہ اندھا دھند اُس کی موافقت، تائید وحمایت۔ دیکھنے کی شے، اشخاص نہیں، اعمال ہیں۔اگر کسی کا کوئی عمل اچھاہے، نیک ہے، مفید ہے، تو بلا تامل اُس کا ساتھ دے دینا چاہئے، بلا لحاظ اس کے کہ وہ شخص ہے کون، اور اگر کوئی عمل بد ہے، مضرہے، ناجائز ہے، تواُس میں شرکت سے بچنا چاہئے، اُس سے علٰیحدہ رہنا چاہئے، خواہ اس عمل کا پیش کرنے والا کوئی بھی ہو۔ اگرآج اس قانون پر عمل ہونے لگے، تو یہ ہماری قائم کی ہوئی، امت کی تفریقیں اور تقسیمیں باقی رہ جائیں؟ ان گروہ بندیوں اور ٹولیوں اور ٹکڑیوں کا وجود کہیں رہ جائے؟ آج ڈاکٹر انصاری، اگر دو اور دو کا مجموعہ چار کہیں، تو اس کی تردید حلقۂ محافظین حقوق مسلمین کی طرف سے فرض عین، اس لئے کہ انصاری ، ’’نہروانی، ہیں ، کانگرسی ہیں! اور مولانا شوکت علی اگر دن کو دن اور رات کو رات بتلائین، تو اس کی مخالفت آزاد خیال گروہ کی طرف سے ہونی فرضِ قطعی، اس لئے کہ شوکت علی ’’ٹوڈی‘‘، ہیں، گورنمنٹی ہیں! ’’احرار‘‘ ’’مسلم کانفرنس‘‘ کے بخیہ اُدھیڑ کر رکھ دیں گے، اورمسلم کانفرنس، احرار کو نیچا دکھاکر رہے گی!’’وہابی‘‘ ’’بدعتی‘‘ کے پیچھے نماز نہ پڑھے گا، اور ’’بدعتی‘‘ ’’وہابی‘‘ کے سلام کا جواب نہ دے گا!علی گڑھ، دیوبند کا ساتھ نہیں دے سکتا، اور فرنگی محل، علی گڑھ ی قیادت نہیں قبول کرسکتا!

یہ ساری تفریق وانتشار، اسی خدائی قانون کو بھُلا دینے کا نتیجہ ہے۔نفس تقسیم میں مضائقہ نہیں، کروروں افراد کا اپنی اپنی طبیعت یا اپنے اپنے دائرہ عمل کی مناسبت سے، مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجانا، قابل اعتراض نہیں، بالکل قدرتی ہے، لیکن ایک گروہ کا دوسرے سے اس درجہ کدورت رکھنا، کہ اس کی ہربات قابل تردید ٹھہر جائے، ایک دوسرے کی خوبیوں سے انکار محض اس بناپر، کہ مخالف کیمپ سے کوئی مفید آواز بلند ہوسکتی ہی نہیں، یہ آخر کس اسلامی تعلیم کے موافق ہے؟ چھوٹی چھوٹی جماعتوں اور پارٹیوں کے مذہبی یا سیاسی حیثیت سے، کچھ نام رکھ لئے گئے ہیں، اور ان ناموں کی بناپر، ایک دوسرے سے مستقل عداوتیں، مستقل نفرتیں، پیداکرلی گئی ہیں۔ آخرت میں تو خیر، جو کچھ پیش آناہے، پیش آکر رہے گا ہی، اسی دنیا میں اِس طرز عمل کا جو نتیجہ نکلاہے، کیا وہ کسی سے مخفی ہے؟ کسی معاملہ میں نہ کوئی ایک آواز قوم کی ہے، نہ کوئی ایک سردار ہے، نہ کسی قسم کا نظام باقی رہ گیا ہے۔ بھیڑوں کا گلّہ بھی ایک ساتھ چلتاہے، لیکن یہ کروروں کا انسانی گلّہ ایسا ہے، کہ اس کوہرفرد کی راہ دوسرے سے جداگانہ ! ہندو اگر ہم پر ہنسیں اور انگریز ہم پر تالیاں سجائیں، تو اس پر حیرت کیوں ہو؟