Sachchi Batain 1935-06-01 Mah Liqa

خاتون ماہ لقا وفات پاگئیں……کون خاتون ماہ لقا؟ سوال معًا زبان پر آئے گا۔ جواب، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!
نام فرضی نہیں اصلی ہے۔ لکھنؤ جیسے لق ودق شہر میں ، کون ناواقف تھا! اطراف لکھنؤ کے بیسیوں حصّوں میں کون اجنبی تھا؟ شریف ومعزز گھرانوں میں کون ملا نہ تھا! کون، شوق کے ساتھ، ملنے کا آرزومند نہ تھا! بیٹی ایک شریف ترین خاندان کی ، بیوی ایک خوشحال گھرانے کی۔ نہایت شائستہ ونستعلیق، نفاست اور خوش مذاقی کی ایک جیتی جاگتی تصویر۔ حسن صورت میں ممتاز، سلیقہ اور ہنرمندی مین انتخاب ، وضع قطع کی جدتوں اور تراش وخراش کی نزاکتوں میں اپنا جواب آپ۔ جس زنانخانہ میں قدم رکھ دیا، اندھیرے گھر میں اجالا ہوگیا، جس محل سرا میں اتر پڑیں، محفل میں رونق محفل بن کر رہیں۔
احمد علی شوقؔ کی بہو، امیر مینائیؔ کی قرابتدار۔ اردو گھر کی کنیز۔ زبان ستھری اور شیریں۔ ادب صحیح معنی میں، ادب لطیف۔ جس رسالہ کو اپنی سیر کشمیر کے چند ورق دے دئیے۔ اسے ناز ہوگیا۔ جس اخبار میں چند سطریں لکھ دیں، وہ سرفراز ہوگیا……وفات کو ہفتوں نہیں، مہینوں ہوچکے، اور اخباری فضا، لکھنؤ کی اخباری فضا میں آج تک سناٹا!نوحے نہ سہی ، مرثئے نہ سہی، قطعۂ تاریخ نہ سہی، خبر محض خبر، تو ہوتی! گویا اس نقارخانہ میں اس بلبل کے نغموں کی اہمیت اتنی بھی نہیں، جتنی ہر ’’بازاری سنسنی‘‘ کی ہوتی ہے!……عبرت کی مثال کون اس سے بڑھ کر چاہئے؟ نام اور ناموری کیا بے ثباتی کے درس…کے لئے کچھ اور ڈھونڈھنے کی ضرورت باقی ہے؟
کیا زندگی جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا ہی چھوڑدے
اقبالؔ کے مقولہ کی تصدیق ایک بار اور ہوکر رہی۔
یہ 35ء ہے کل کی جدّت، آج کہنگی میں تبدیل ہوچکی تھی اور طرحداری، فرسودگی کے حکم میں داخل ہوگئی تھی۔ 15ء یا 10ء ہوتا تو آپ دیکھتے کیسے کیسے نوحے چھپتے، کہاں کہاں تعزیتی جلسے ہوتے، کس کس طرح ماتم ہوتا،مرنے والی نے، لکھنؤ کے ایک ویران اور دورافتادہ محلہ میں، مہینوں کی بیماری میں گھل گھل کر اور تڑپ تڑپ کر ، دم توڑے، مال روڈ اور حضرت گنج کی کوٹھیوں سے دور اور بنارسی باغ اور سکندر باغ کی تفریح گاہوں سے الگ! جب وہ وقت آیا کہ بندی کا معاملہ اپنے مالک سے پڑے، تو اردگرد نہ لیڈیز کلب، کے چہچہے تھے، نہ ویمنس ایسوسی ایشن کے قہقہے۔ البتہ کہتے ہیں، کہ ورد کلمۂ طیّبہ تھا اور تلاوت سورۂ یٰسین کی زبان کی ، زبان پر توحید کا اقرار تھا اور رسالتؐ کی شہادت اور رخ ادھر تھا جدھر جھک جھک کر نمازیں پڑھی تھیں، اور گرگر کر سجدے کئے تھے، وہ یتیموں دکھیاروں کے سرپر ہاتھ رکھنے والی تھی۔ اور بڑی بوڑھیوں کا ادب لحاظ کرنے والی اللہ کا نام…عقیدت اور احترام کے ساتھ سننے والی اور اس کے رسول پاکؐ کے ذکر خیر کی متوالی۔ کام صرف یہی چیزیں آئیں، اور توشہ صرف انھیں عادتوں کا ساتھ گیا!