Sachchi Batain 1932-10-14 - Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

03:27PM Sun 14 Jan, 2024

 ..سچی باتیں (۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۲ء) 

 تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ 

 

عن عمر بن الخطاب أن رجلًا علیٰ عہد النبی ﷺ کان اسمہ عبد اللہ و کان یلقب حمارًا وکان یضحک رسول اللہﷺ وکان رسول اللہﷺ قد جلدہ‘ فی الشراب فأتی بہ یومًا فأمر بہ فجلد فقال رجل من القوم اللہم ألعنہ بأکثر ما یؤتی بہ فقال النبیﷺ: لا تلعنوا فواللہ ما علمت الا أنہ یحب اللہ ورسولہ۔      (صحیح بخاری، کتاب الحدود)

حضرت عمرؓ سے روایت ہے ، کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں ایک صاحب عبد اللہ نامے تھے، جنھیں لوگ حمار کہا کرتے تھے، اور وہ حضورﷺ کو ہنسایا کرتے تھے۔ حضورﷺ انھیں شراب نوشی کی علت میں کوڑوں کی سزائیں دے چکے تھے ۔ اس کے بعد ایک روز وہ پھر حضورﷺ کے سامنے اسی جرم میں پیش ہوئے، اُس رو ز بھی حضورﷺ کے حکم سے اُن کو کوڑے پڑے۔ اس پر ایک شخص بول اُٹھے، کہ خدا کی لعنت ہو اس پر، کتنی دفعہ شراب پینے پر پٹ چکاہے ۔ حضورﷺ نے یہ سُن کر ارشاد فرمایا، کہ نہیں، اِس پر لعنت نہ کرو، خدا گواہ ہے، کہ میں نے تواِسے اللہ اور رسول سے محبت رکھنے والا ہی پایاہے۔

یہ روایت، حدیث کی معتبر ترین کتاب، بخاری کی ہے۔ دوسری روایات بھی اسی مفہوم کی اس کی تائید میں ملتی ہیں۔ اب ذرا غور ہو۔ شراب کی حرمت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں۔ اتنا کھلا ہوا اور سنگین جُرم، اور وہ بھی پہلی دفعہ نہیں، دوسری دفعہ کا بھی نہیں، باربار وہی جرم۔ ہلکا سا ہلکا جُرم بھی اصرار وتکرار کے بعد سخت ہوجاتاہے، چہ جائیکہ وہ جرم جو پہلے ہی سے اتنا شدید تھا ۔ ایک صحابی طبعًا غصہ میں آجاتے ہیں، اور سزائے شرعی کے علاوہ مجرم پر لعنت بھی کر بیٹھتے ہیں، حضورؐ معًا اس سے روکتے ہیں، لعنت کا مستحق ایسا کھلاہوا اور عادی مجرم بھی نہیں! اتنا ہی نہیں، بلکہ حضورؐ علانیہ وبرملا، اس کی محبتِ الٰہی ومحبتِ رسول کی بھی شہادت دیتے ہیں! اللہ اکبر! اس وسعتِ قلب کا کوئی ٹھکاناہے!……امام بخاری ؒ اپنی صحیح ؔکی اسی کتاب الحدود میں زری ہی سا آگے بڑھ کر ایک اور باب باندھتے ہیں، جس کا عنوان رکھتے ہیں، لعن السارق اذا لم یُسمّ۔ چور پر لعنت، جبکہ اس کانام نہ لیاجائے۔ چوری کا جُرم، جس درجہ کا ہے، ظاہر ہے، اس پر بھی چور کا نام لے کر، اُس پر لعنت کی اجازت نہیں، لعنت کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب اُس کا نام مخفی رکھاجائے،محض ایک مجمل وغیرمعیّن صورت میں!

آپ کے رسولؐ کا یہ ارشاد ، ایسے جرائم کے مجرموں سے متعلق تھا، جو بالکل واضح، صریح اور منصوص ہیں، جن میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اب ہمارا اور آپ کا طرز عمل، اپنے اُن ’’مجرموں‘‘ کے باب میں کیاہے، جن کا جرم صرف یہ ہے، کہ اُن کا اجتہاد ہم سے مختلف ، اُن کی بصیرت ہم سے الگ ہے؟ اگر ہم ’’طبقۂ احرار‘‘ میں داخل ہیں، ’’نیشنلسٹ‘‘ ہیں، کانگرس میں شریک ہیں، تو ہروہ مسلمان ، جو کانگرس کا مخالف ہے، ٹوڈی ہے، قوم فروش ہے، گورنمنٹ کا پِٹھوہے، اُس کی نماز، اور اُس کا روزہ، سب اُس کے عبث ولاحاصل ہیں، وہ قطعًا وحتمًا انگریزوں کا رشوت خوارہے، اور کوئی توجیہ، کوئی تاویل، اُس کے مخلص اور نیک نیت ہونے کے حق میں ہوہی نہیں سکتی! اگر ہم کانگرس کے مخالف ہیں، مسلم کانفرنس کے ہمنوا ہیں، تحفظ حقوق مسلمین کے دعویدار ہیں، تو ہر وہ مسلمان ، جو کانگرس کا کسی حیثیت سے بھی ہمدرد وہواخواہ ہے، جو کھدّر کی ٹوپی سرپر پہنتاہے، وہ قطعًا اور یقینا ہندوپرست ہے، فرقۂ گاندھوی میں شامل ہے، مشرکوں کا دوست وشریک ہے، کوئی گفتگو اس کے حُسن نیت اور اخلاص مندی کے باب میں سُنی ہی نہیں جاسکتی!