Sachchi Batain 1932-10-07 . Raza Ilahi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

04:42PM Sun 7 Jan, 2024

*سچی باتیں (۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء۔۔۔ رضائے الہی*

*تحریر: مولانا عبد الماجد دردیابادیؒ*

 

﴿‌قَدْ ‌خَسِرَ ‌الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَاحَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ (٣١) وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (٣٢)﴾ [الأنعام: 31-32] 

جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلائے رکھا، وہ بڑے خسارہ میں آپڑے، یہاں تک کہ جب وہ وقت مقرر آپہونچا، تو کہنے لگے ہائے افسوس ہماری کوتاہیوں پر، جو اس کے بارہ میں ہم سے سرزد ہوتی رہیں! اور حال یہ ہوگا کہ وہ اپنے بار اپنی پشت پرلادے ہوں گے۔ اور کیسی بُری ہوگی وہ چیز جسے وہ اپنے اوپر لادے ہوں گے!اورعالَم آخرت جس کو وہ دنیوی مشاغل کے آگے بھولے ہوئے ہیں، اُس کے سامنے۔ یہ دنیوی زندگی تو کچھ ہے ہی نہیں۔ بجز لہو ولعب کے، اور جو لوگ تقویٰ سے کام لیتے ہیں، اُن کے لئے تو وہی دارِ آخرت ہے۔ پس اے منکرو، کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے؟

جن دنیوی ترقیوں پر آپ مٹے ہوئے ہیں، اُن کی کُل کائنات آپ نے خالقِ کائنات کی نظر میں دیکھ لی؟ وما الحیاۃ الدنیا الا لہو ولعب ، حیاتِ دنیوی، ساری کی ساری ، مع اپنی تمام فروع اور اپنے تمام متعلقات کے، اپنے سارے کمالات اور ساری ترقیات کے، کچھ وزن ہی نہیں رکھتی ، کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔محض ایک کھیل تماشہ ہے، محض لہو ولعب ہے۔ کالج اور یونیورسٹیاں، سائنس اور آرٹ ، بڑی سے بڑی ڈگریاں ، بڑے سے بڑے عہدے اور بہتر سے بہتر پیشے، کمشنری اور ججی، ہائیکورٹ کی ججی اور صوبہ کی منسٹری، وکالت اور بیرسٹری، انجینری اور ڈاکٹری، اونچے سے اونچے خطابات اور مناصب، نامور اخباروں کی ایڈیٹری اور قوم کی لیڈری، کونسلوں میں خوش تقریری اور پبلک جلسوں میں جوش خطابت، اِس انجمن کی نظامت اور اُس انجمن کی صدارت، ان سب کی ’’کَل‘‘ کیا وقت نظر آئے گی؟’’کَل‘‘ یہ سب ضائع اوربرباد، رائیگاں اور اکارت نظرآئیں گے، اگر ان کا تعلق رضائے الٰہی سے نہیں رہاہے، بلکہ یہ خود مقصود رہی ہیں۔

اصل اور پائدار شے جو کچھ ہے، وہ عالَمِ آخرت ہے۔ عقل وعاقبت اندیشی سے کام لیاجائے، تو ہر کوشش ، ہرجنبش قدم، ہرسعیِ عمل، وہیں صرف وہیں کے لئے ہونی چاہئے، وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا یعقلون۔ اگر یہ منزل مقصود پیش نظر نہیں، تو عملًا روزِ آخرت کی تکذیب کرناہے، عملًا لِقاء رب سے اِنکار کرناہے، اِس حال میں اگر ہمیں علوم وفنون میں ’’ڈاکٹر‘‘ ڈگری مل گئی تو، اور ہم علامۂ وقت تسلیم کرلئے گئے تو، سرکار دولتمدار کے خاص مقرّبین میں داخل ہوکر کسی صوبہ کے گورنر ہم مقرر ہوگئے تو، اور بڑے سے بڑے نیشنلسٹ لیڈر ہوکر سالہا سال کے لئے جیل میں چلے گئے تو، بہرحال وبہرصورت ہماری قسمت میں گھاٹا ہی گھاٹا، اور انجام میں خسارہ ہی خسارہ ہے، ‌قَدْ ‌خَسِرَ ‌الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَاحَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ ۔ رضائے حق، اگر پیش نظر نہیں، تو آج کی ساری ترقیاں اور ساری شہرتیں ، ساری ناموری اور ساری کامیابی، کل وبالِ جان اور عذابِ جان ہی بن کر رہیں گے۔ اللہم أحفظنا۔