Sachchi Batain 1932-07-15
*سچی باتیں (۱۵؍جولائی ۱۹۳۲ء)۔۔۔ اپنے اور غیروں کا فرق۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*
ہندو دُنیا میں اس وقت دو شخص ایسے ہیں ، جو چینؔ وجاپانؔ ، مصرؔوایرانؔ، جرمنیؔ وانگلستانؔ ، امریکہؔ وفرانسؔ، سارے عالم میں معروف ومشہور ہیں۔ایک گاندھی جی ، دوسرے بنگال کے شاعر رابندر ناتھ ٹیگور۔ دونوں کے سیاسی خیالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ گاندھی جی ، مغربی تہذیب وتمدن کے نام سے دُور بھاگنے والے، ٹیگور اس کی عظمت ومرتبہ کے قدردان۔ گاندھی جی ترک کے دلدادہ ، ٹیگور وصل پر فریفتہ۔ ایک، مغرب سے تعلقات توڑنے کی فکر میں، دوسرا، اُنھیں جوڑنے کی دُھن میں۔ ایک کے خیال میں مغربی علوم وفنون کو دُور ہی سے سلام، دوسرے کے عقیدہ میں یہی علوم وفنون موجبِ نجات وفلاح۔ یہ اختلاف آج سے نہیں، ۲۰ء سے برابر ظاہر وواضح ہے۔ جس وقت تحریکِ ترک موالات کا عین شباب تھا، اُس وقت بھی گاندھی جی کی سخت کوشش کے باوجود، ٹیگور یہی نہیں، کہ اس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ اس کی مضرت ومخالفت پر دلائل قائم کئے! اورآج بھی یہ اختلاف جوں کا توں قائم ہے۔
ایک طرف دونوں کی یہ علٰیحدگی ہے، بیگانگی ہے، دوسری طرف، جب ایک پوچھنے والے نے ٹیگورؔ سے پوچھا کہ آپ گاندھی جی کی بابت کیا رائے رکھتے ہیں، تو شاعر کے سینہ سے گویا محبت وعقیدت کا چشمہ اُبل پڑا۔ اور مدح کے قصائد، جوش میں آکر او ر جھوم جھوم کر پڑھنے اور سنانے شروع کردئیے:-
’’مجھے یقین ہے ، بلکہ میرا یہ عقیدہ وایمان ہے کہ مہاتما جی ، عصر حاضر کے سب سے بڑے انسان ہیں۔ میرے اس بیان میں ذرا بھی شاعرانہ مبالغہ نہیں……وہ اتنی بڑی شخصیت کے مالک ہیں، کہ اُن کی عظمت کا تصور بھی دُور بیٹھے کرنا مشکل ہے…وہ پیکرِ شرافت ہیں، مجسمۂ ایثار ہیں، بے نفسی کا ایک سراپا ہیں!…اُن کی زندگی بچوں کی طرح معصومانہ ہے۔ سچائی کو اُن کے وجود پر ناز ہے، خدمتِ خلق اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کے رگ وریشہ میں سرایت کئے ہوئے ہے‘‘۔
(مسٹر بی ۔ کے ۔ رائے، ورلڈ لیڈر، مؤرخہ یکم؍جولائی ۳۲ء)
پورا مضمون ، اسی انداز میں ، کئی کالم میں ہے۔ یہاں نمونہ کے لئے چند سطریں نقل کردی گئیں۔
یہ ذِکر ہمسایوں کا تھا ۔ اپنوں کا، اپنوں سے متعلق کیاحال ہے؟ آخر آپ کی قوم میں بھی تو ماشاء اللہ لیڈر ہیں، اتنے مشہور نہ سہی، پھر بھی اپنی قوم کے اندر خاصی شہرت رکھنے والے، ان کی روش آپس میں کیاہے؟ ہندو لیڈروں میں تو ایک کی دوسرے کے ساتھ باوجود اختلاف خیال ومسلک، گرویدگی ، عقیدتمندی اور شیفتگی کا یہ عالم ہے، آپ کی قوم کے بھی کوئی لیڈر صاحب کسی دوسرے زندہ لیڈر کا ذِکر اس لب ولہجہ میں، یا اس کے قریب قریب بھی فرماتے ہیں؟ مختلف پارٹیوں کے نہ سہی، ایک ہی پارٹی کے دو لیڈروں کی زبان سے، ایک دوسرے کا ذِکر کبھی اس انداز میں، سننے میں آیاہے؟……اور اگر کہیں رائے یا مسلک میں اختلاف ہوگیا، تو بس پھر تو نہ پوچھئے، کہ ایک کی زبان، دوسرے کے حق میں کسی تیز اور کتنی بے قابو ہوجاتی ہے! اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ساری دنیا اگر کرتی ہے، تو کیاکرے، ذرا ’’نیشنلسٹ ‘‘مسلم پارٹی کے لیڈروں کے سامنے تو ان کاذکر کردیکھئے؟ مفتی کفایت اللہ صاحب کے علم وفضل کا قائل اگر ایک زمانہ ہے، تو ہواکرے، ذرااُن کا نام’’مسلم کانفرنس‘‘ کے کارکنوں کے سامنے تو کہئے! ہر مسلمان لیڈر ، دوسرے مسلمان لیڈر کی نظر میں منافق ہے، اور جاہ پرست ، غدّار ہے اوردشمنِ قوم۔ ملت فروش ہے اور رشوت خوار بددیانت ہے اور خائن، بے ایمان ہے اور دغاباز! سنتے ہیں، کبھی ہماری کتابیں بھی کف لسان کے فضائل سے لبریز رہتی تھیں، اور ہمارے بزرگوں نے راویانِ حدیث پر جرح ونقد تک کو داخل غیبت سمجھ لیاتھ، کیا ہم اُنھیں اسلاف کے نام لیواہیں؟
مولانا دریابادی کی تحریروں کو پابندی سے پڑھنے کے لئے جوئن کریں