Sachchi Batain 1932-07-08

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:35AM Tue 14 Nov, 2023

 سچی باتیں (۸؍جولائی ۱۹۳۲ء)۔۔۔۔ وقت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ 

 

میر اکبر حسین ؒ الہ آبادی نرے شاعر نہ تھے، مصلح، معلّم، اور مربّی بھی تھے۔ ان کے ایک نہایت ہونہار صاحبزادے ہاشم نامی تھے، لڑکپن ہی میں انتقال کرگئے۔ حضرت اکبرؔ ان سے نہایت درجہ مانوس تھے، اور بہت زائد چاہتے تھے۔ ایک روز ان سے پوچھا، میاں یہ تو بتاؤ، کہ یہ وقت جو چلاجاتاہے، آخر کہاں جاتاہے؟ روز کہاکرتے ہوکہ وقت گزرگیا، چلاگیا، وہ زمانہ رخصت ہوگیا، دُنیا میں جو چیز جاتی ہے، آخر کہیں نہ کہیں ہی جاتی ہے، اُس کے جانے کا کوئی مقام بھی ہوتاہے، یہ وقت جو جاتاہے، یہ آخر کہاں جاتاہے؟ سوال کرکے پھر خود ہی بتایا، کہ وقت اللہ میاں کے پاس چلاجاتاہے، اور وہیں جمع ہوتاچلاجاتاہے، آج جمعہ گیا، کل سنیچر جائے گا، اور پرسوں اتوار۔یہ سب اسی طرح اللہ میاں کے پاس جمع ہوتے رہیں گے۔ قیامت کے دن اللہ میاں وقت کو حکم دیں گے، کہ پھر سے آجا۔ بس یہ سارا وقت جوجمع ہوتا رہاہے، باہر نکل آئے گا۔ اور جب وقت باہر نکل آئے گا ، توجو کچھ وقت کے اندر کیاگیاہے، وہ سب آپ ہی آپ اُس کے ساتھ باہر نکل آئے گا۔

خوب غور کرکے دیکھئے۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں، سب وقت ہی کے اندر تو کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں پیتے ہیں، چلتے ہیں ، سوتے ہیں، بولتے ہیں، ہنستے ہیں، روتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، لڑتے ہیں، سب کچھ وقت کے اندر ہی تو ہوتاہے، یا اس سے کہیں باہر؟ چھوٹی یا بڑی، کوئی سی بھی حرکت زندگی کی ایسی ہے، جو وقت وزماں کے اندر نہ ہو؟ وقت نام ہی انھیں واقعات کے تسلسل کا ہے۔ اگروقت کے اندر، واقعات کا گزرنا نہ ہو، تو خود وقت کے گزرجانے کے کوئی معنی ہی نہ رہ جائیں، پس وقت کا اعادہ جب کبھی بھی ہوگا، تو مع اجزائے وقت کے ہوگا، او رانھیں کا نام واقعات ہے۔ جمعہ جب واپس آئے گا، تو جمع جمعہ کی نماز اور خطبہ ہی کے آئے گا۔ اکبرؔ نے جو بات، بچہ کے سمجھانے کے لئے کہی تھی، وہ بوڑھے ، اور بچّے، جوان اورادھیڑ ، ہمارے آپ کے سب ہی کے سمجھنے کی ہے۔

اب ذرا حشر کے دِن کا تصور کیجئے۔آج کا دن، وہاں پیش ہواہے، اور آج کے دن کی پیشی کے ساتھ ہی، ہماری ساری تباہ کاریاں ، جو ہم نے آج کے دن میں کی تھیں، وہاں بھرے مجمع میں، دوست دشمن ، سب کے سامنے پیش ہوگئی ہیں !فلاں کی غیبت کی، فلاں پر زبان درازی کی، فلاں پر ہاتھ چلابیٹھے، فلاں سے فلاں معاملہ میں جھوٹ بولے، فلاں مزدور کی مزدوری مارلی، فلاں وقت کی نماز ٹال گئے، فلاں مصیبت زدہ کو دیکھا اور باوجود قدرت واستطاعت ، اُس کی کچھ مدد نہ کی، فلانا عزیز بیماری میں تڑپتارہا، اور اُس کی خدمت نہ کی، فلاں پڑوسی بھوک سے لوٹتارہا، اور اس کی ذرا غمخواری نہ کی، فلاں فلاں کی یوں دل آزاری کی، فلاں فلاں حرکتیں اس طرح چُرا چھپاکرکیں، کہ نوکروں چاکروں، بیوی بچوں تک کسی کو پتہ نہ چلنے دیا۔……یہ ساری زندگی، جسے ہم اپنے ذہن سے مدت ہوئی نکال چکے تھے، از سر نو بالکل تازہ ہوکر ہمارے سامنے آگئی ہے، کسی کا بیان اور کسی کی روایت نہیں ہے، خود ہم اپنے تئیں ٹھیک وہی حرکتیں کرتے ہوئے پارہے ہیں ، جہنّم کی سختیوں کو چھوڑئیے، شدائدِ یوم حشر کا ذِکر نہیں، فرشتوں کا عذاب الگ رہا، تنہا یہی ایک شے، محض یہی بے نقابی، برسرعام ، کوئی تھوڑا عذاب ہوگی؟ آج اپنی خود داری وعزتِ نفس کا وظیفہ دن رات ورد زباں رہتاہے، کل کی اس عالمگیر رسوائی سے کون پناہ دے سکے گا؟