Sachchi Batain 1931-09-14 . Lah o Laib

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

07:30PM Sun 24 Dec, 2023

سچی باتیں (۱۶؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ لہو ولعب

 تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

انَّا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ

کلام پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذِکر آتاہے، کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں، اور جب ان سے سوال کیاجاتاہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں، تو جواب میں کہتے ہیں، کہ کچھ نہیں، ہم تو یوں ہی بطور مشغلہ وحکایت ، ہنسی اور تفریح کی باتیں کررہے تھے، کچھ ہمیں انکار تھوڑے ہی مقصود تھا!

ولئن سألتہم لیقولنّ انّما کنا نخوض ونلعب۔

اگر تم اُن سے پوچھو، تو یہ کہہ دیں گے، کہ ہم تو بس مشغلہ اور دل لگی کی باتیں کررہے تھے۔

سبحان اللہ! کیا معقول جواب دیتے ہیں! ارے بدبختو، تمہیں مذاق اور تفریح، ہنسی اور دل لگی کے لئے وہی موضوع رہ گیاہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے! وہی آیات الٰہی، وہی اللہ کے بھیجے ہوئے اور رسول کے لائے ہوئے دین کی تعلیمات!

قل اَبِاللہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن۔

کہہ دو ، کہ کیا تم اللہ کے ساتھ اور اُس کی آیتوں کے ساتھ اور اُس کے رسول کے ساتھ تمسخر کررہے تھے؟

’لعب‘ کے معنی کھیل تماشہ کے کھُلے ہوئے ہیں۔ ’خوض‘ کا لفظ جب گفتگو کے لئے آتاہے، تو مراد ایسے کلام سے ہوتی ہے، جس میں سنجیدگی اور واقعیت کے بجائے جھوٹ اور لغویت ہو۔ الخوض من الکلام ما فیہ الکذب والباطل (لسان العرب) ۔ آج جس نوع کلام کے لئے ، فرنگیوں نے لائٹ لٹریچر، اور ’فکشن‘ کی اصطلاحیں گڑھ رکھی ہیں، یعنی افسانے اور قصّے ، گب شپ، حکایتیں اور کہانیاں ، جنھیں واقعیت اور اصلیت سے علاقہ نہ ہو، محض دل بہلاؤ، اور نشاطِ خاطر مقصود ہو، یہ سب اس کی تحت میں آجاتاہے، منافقوں کا کہنا یہی تھا، کہ اب کیا ہنسنا بولنا بھی منع ہے؟ ہم تو آپس میں ہنس بول رہے تھے، افسانہ خوانی وحکایت طرازی کررہے تھے، محض انبساطِ ونشاط مقصود تھا۔ مذہب پر سنجیدگی سے کوئی اعتراض ہم کب کررہے تھے؟ اس کے جواب میں ارشاد ہواہے، کہ تمہاری عقلیں کیسی غارت گئی ہیں، ہنسی کے لئے انتخاب کیا، تواُسی ایک چیز کا، جو کسی طرح اور کسی درجہ میں بھی ہنسی کے قابل نہ تھی!

اگلے منافقوں نے جو کچھ کیا، اور جو کچھ کہا، اُسے چھوڑئیے۔ قرآن مجید، تاریخ کا رجسٹر نہیں۔ ہدایت وحکمت کا درس ہے۔ یہ دیکھئے، کہ آج آپ کے اِردگِرد کیا ہورہاہے؟ جنت کے تخیل پر مضحکہ علانیہ ہوتاہے، جہنم اور عذاب جہنم کے تصور پر ٹھٹھے لگائے جاتے ہیں۔ حوروں پر شہدوں کی زبان میں پھبتیاں کہی جاتی ہیں۔ مالک ورضوان کے نام لے لے کر قہقہے بلند ہوتے ہیہں۔ ملائکہ پر تالیاں پٹتی ہیں، انبیاء کرام پر طرح طرح کے آوازے کسے جارہے ہیں، نماز اور روزہ، طاعت وعبادت پر تمسخر کھلّم کھلّا جاری ہے، خود حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی شان میں ہر طرح کی گستاخی اور دریدہ دہنی کھُلے خزانے ہورہی ہے، اور جب کوئی اللہ کا بندہ روک ٹوک شروع کرتاہے، تو جواب کیا ملتاہے، وہی انَّما کُنّا نَخُوضُ ونَلعَبُ ۔ یہ مضامین تو محض افسانہ کے رنگ میں لکھے گئے تھے، محض تخئیل تھے، محض شاعرانہ خیال بندی تھی، ان کی گرفت کرنا کیسی خشک ملامت ہے، کیسی ناقابلِ برداشت دقیانوسیت ہے………سوچئے اور غور کیجئے، کہ منافق کی نفسیت، منافق کی ذہنیت، منافق کی سرشت وفطرت، اِس ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں کچھ بدلی ہے؟