sachchi Batain

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

11:55PM Fri 3 Nov, 2023

فرانسؔ کی ایک مشہور بحری کمپنی کا مشہور ترین تجارتی جہاز جارج فلپرؔ، خوشنمائی وصناعی کا ایک نمونہ ہے۔ آسائش اور آرائش کے تازہ سے تازہ او ربہتر سے بہتر لوازم سے آراستہ۔ ۱۷ہزار ٹن کا وزن ہے۔ احتیاط کی اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیروں، اور حفاظت کے اعلیٰ سے اعلیٰ آلات سے مسلح۔بنے ہوئے بھی ابھی کچھ دن نہیں ہوئے، ایک ہی آدھ سال ہواہے۔ کہنا چاہئے کہ بالکل نیا ہے۔ اور چلے ہوئے تو چند مہینے بھی مشکل سے ہوئے ہیں۔ پہلی باراسی فروری میں چلتاہے۔ جاپان تک جاتاہے، واپسی میں پانچ چھہ مسافر سوار ہیں۔ سفر قریب ختم ہے، وطن کا ساحل نزدیک آگیاہے، اور جہاز افریقہ کے مشرقی حصہ کے سامنے سے، عدنؔ سے ۲۴ گھنٹے کی مسافت پر، گزر رہاہے۔ دوبجے شب کا وقت ہے۔ جہاز کی گوری مخلوق، اس وقت خوابِ راحت میں مصروف نہیں۔ یورپ میں، رات کی دلچسپیاں دن سے کہیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں، اوریہی حکم اُ ن کے جہازوں کا ہے۔ یہ وقت چہل پہل کے عین شباب کاہے۔ ہر طرف ناچ رنگ، اور خوشوقتیوں کا محفل آراستہ ہے، دور پر دَور چل رہے ہیں، رات کا سناٹا گانوں اور قہقہوں کے شور میں غائب ، حُسن کی جگمگاہٹ ، اور ہنسی کی کھلکھلاہٹ نے سب کی نیند ، اور خدامعلوم کتنوں کے ہوش اڑا رکھے ہیں!

عین اس وقت جہاز میں آگ لگتی ہے۔ خطرہ کی گھنٹی زور زور بجائی جاتی ہے، لیکن گانے بجانے کے ’’نقار خانہ‘‘ میں اِس ’’طوطی‘‘ کی آواز پر کون کان دھرتاہے؟ کئی منٹ تک کسی کو اُس کی آواز بھی نہیں سنائی پڑتی۔ بالآخر رفتہ رفتہ جب مدہوش اور سرشار مسافروں کو ہوش آتاہے، تو نہنگِ اجل مُنہ کھولے ہوئے سامنے !آگ بجھانے کا سامان ہر جہاز پر موجود رہتاہے، خصوصًا بعض کیمیاوی مرکبات۔ اِس ذخیرہ کی تلاش فورًا شروع ہوئی، معلوم ہوا کہ مقدار ناکافی ہے! متعدد کشتیاں ، ایسے ہی نازک موقعوں کے لئے ساتھ ہوتی ہیں، ملّاح اُنھیں کھولنے دوڑے، تو معلوم ہوا کہ ان کے پہونچنے سے قبل آگ اُن تک پہونچ چکی ہے! بڑا سہارا آلۂ لاسلکی(بے تار کی تار برقی) ہوتاہے، جس سے معًا دوسرے جہازوں کو امداد کے لئے بُلایا جاسکتاہے، اُس پر نظر گئی، تو پتہ چلا، کہ وہ سب سب پہلے ہی، آگ کے شعلوں کی نذر ہوچکاہے! غرض عقل وذہن کے جن جن سہاروں پر تکیہ تھا، او انسان کی سوچی سمجھی ہوئی جن جن تدبیروں کا بھروسہ تھا، وہ سب ایک ایک کرکے یوں دغا دے گئے! اب جہاز تھا، اور خدا کی ذات۔ جہاز کے بھونپو نے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ چیخنا شروع کیا، اور گھنٹوں چیختارہا، تاآنکہ دوسرے جہاز اس کی چیخ سُن سُن کر مدد کو دوڑے۔ ذرا اس منظر کا تصور کیجئے۔ وہ پچھلی رات کا سناٹا، وہ ہر طرف آگ کی لپٹ ہی لپٹ، وہ دم گھونٹ دینے والا دھواں اور وہ لپکتے ہوئے شعلے! اور اُس میں جہاز کے بھونپو کی بھیانک چیخ! جس عرشۂ جہاز کو چند ہی منٹ قبل، زندہ دل یاران بزم ، ’’جنت گاہ‘‘ و ’’فردوس گوش‘‘ سمجھے ہوئے تھے ، وہ یوں دفعتہ تختۂ موت وجہنم عذاب میں تبدیل ہوکر رہ گیا!

کل جہاں پر شگوفۂ و گل تھے

 

آج دیکھا تو خار بالکل تھے

شاعر نے تو اپنی خیالی دنیا میں جو بھی ’’کل‘‘ او ر’’آج‘‘ کا امتیاز قائم رکھاہو، یہاں واقعات کے عالَم میں اتنی بھی مہلت نہ ملی!

شوہر، بیویوں سے چھوٹے، بیویاں شوہروں سے بچھڑیں، جوان اولاد بوڑھے ماںباپ کو نہ بچاسکی، اور ماں باپ نے اپنی آنکھوں سے، اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو، اپنے کلیجہ کے ٹکڑوں کو، آگ میں جھلستے او ربھسم ہوتے، اور سمندر میں کود کود کر ڈوبتے ہوئے دیکھا! سب سے زیادہ مصیبت فرسٹ کلاس والوں کے حصے میں آئی، اپنے اپنے کمرہ (کیبن) کے اندر بند کے بند رہ گئے! ایک لندنی اخبار کا بیان ہے، کہ جنگ کے زمانہ کو چھوڑ کر زمانۂ امن میں اتنا بڑا او رایسا دردناک کوئی بحری حادثہ ، اس بیس سال کے عرصہ میں نہیں پیش آیاہے! ابراہیم خلیلؑ پر دہکتے ہوئے تنور کا گلزار بن جانا تو شاید ایک ہی بار ہواتھا، اس کے برعکس لہلہاتے ہوئے گلزار کا دہکتے ہوئے تنور بن جانا ، روزمرہ کا مشاہدہ ہے، اور غافل ومدہوش انسان پھر بھی عبرت نہیں حاصل کرتا!