Sabit Qadmi. By Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:01AM Wed 12 Jun, 2024

یا أیہا الذین آمنوا اذا لقیتم فئۃً فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرًا لعلکم تفلحون۔ (الانفال۔ع۶)

اے ایمان والو، جب تم سے اور کسی گروہ سے (میدان جنگ میں) مقابلہ پیش آجائے، تو ثابت قدم رہو، اورذکرِ الٰہی کثرت سے کرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح ہو۔

تذکرہ میدانِ جنگ اور معرکۂ جہاد کا ہورہاہے۔ اس موقع اور وقت کے خطرات ظاہر ہیں۔ قیاس یہ ہوتاہے کہ اُس وقت تو سارا زور خالص جنگی مشاغل پر ہوگا، اور حکم یہ ملے گا کہ جس طرح اور جس حد تک بھی ممکن ہو، اپنی ساری قوتون کا مرکز اسی کو بنائے رکھو۔ لیکن برعکس اس کے، ارشاد یہ ہوتاہے کہ فاثبتوا، ثابت قدم رہو۔ پَیر نہ ڈگمگانے پائیں، گویا پہلی چیز ثبات قدم ہوئی۔ لیکن قدم کا ثبات خود محتاج ہے قلب کے ثبات کا۔ اگر قلب ثابت وقائم نہیں، تو قدم کب ثابت وقائم رہ سکتاہے؟ اور ثباتِ قلب کا ذریعہ کیاہے؟ ذِکرِ الٰہی ، اس لئے معًا بعد ارشاد ہوتاہے کہ واذکروا اللہ کثیرًا۔ ذکرِ الٰہی کثرت سے کرتے رہو۔ ذکر الٰہی کی تاکید، اور وہ بھی کثرت کے ساتھ!……دُنیا کے کسی دوسرے لشکر کو اس طرح کا حکم ملاہے؟

یورپ آج تک دنگ ہے، کہ مٹھی بھر عربوں نے بغیر کسی اعلیٰ سازوسامان حرب کے، بغیر اعلیٰ آلات جنگ کے، بغیر اعلیٰ قواعد دانی کے، دیکھتے ہی دیکھتے، بڑی بڑی پُرقوت سلطنتوں اور پُرشکوت حکومتوں کو کس طرح شکست دے دی۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا، کہ کوئی دوسری سپاہ آج تک اِن اسلحہ سے بھی مسلح ہوکر میدانِ جنگ میں آئی ہے؟ اللہ کا نام لیتے ہوئے، اللہ کو زبان سے پکارتے ہوئے، اللہ کی یاد کو دل میں چھپائے ہوئے، اللہ کے دین کی خاطر، اللہ کے حکم کی تعمیل میں، اور کسی نے تلواریں چمکائی ہیں؟ کس نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ رکھ کرپیش کی ہیں؟ کس نے اپنی گردنیں کٹائی ہیں؟ انگریز جب لڑے گا، تو زیادہ سے زیادہ، انگلستان کی خاطر، جرمن جب اُٹھے گا ، تو بہت سے بہت’فادرلینڈ‘ اپنے وطن کے لئے، ہندوانتہائی عالی خیالی وحوصلہ مندی کے جوش میں بھر کر اٹھے گا، اور بھڑے گا، تو ’ماردِ ہند‘ کی خاطر، آریہ ورت کی خاطر، اپنے دیش اور جنم بھومی کی خاطر لیکن مسلمان کو حکم کیاملتاہے؟ مٹی کے گھروندوں کے لئے نہیں، زمینی حدود کے لئے نہیں، دریاؤں اور پہاڑوں کے لئے نہیں، ندیوں اور پہاڑیوں کے لئے نہیں، کھیتوں اور باغوں کے لئے نہیں، تجارت کی منڈیوں اور محلہ کے بازاروں کے لئے نہیں، بلکہ اُس کے لئے ، اور صرف اُس کے لئے لڑے، جو زمین نہ آسمان، آفتاب وماہتاب، یورپ وایشیا، امریکہ وافریقہ، سب کا خالق، سب کا مالک ہے، جو تمام مقصدوں کا منتہٰی ہے، اور جس کے آگے، نہ کوئی مقصد خیال میں آسکتاہے، نہ کوئی مطمح نظر!

اور پھر حُکم کے ساتھ حکمتِ حُکم بھی موجود۔ لعلکم تفلحلون۔ تاکہ فلاح پاؤ۔ گویا مقصود بالذات جنگ وقتال نہیں، مقصود تو وہی فوزوفلاح، دینی ودنیوی ہے، جہاد وقتال اپنے شرائط کے ساتھ، اس مقصود کا ایک ذریعہ ہے۔ لڑو، اورجانیں دو، لیکن یاد الٰہی سے اُس وقت بھی غفلت ہونا کیا معنی، اور اس کی کژت کا حکم ہے! کیا جن کے دل اللہ کی یاد سے، اللہ کے خوف سے ، معمور رہیں گے، اُن سے بھی ، دنیا کے عام لشکروں کی طرح، لوٹ مار، اور طرح طرح کے جرائم کا اندیشہ ہوسکتاہے؟ پھر جب کثرتِ ذِکر الٰہی سے عین معرکۂ جنگ کے وقت غفلت روانہین، تو ہم لوگ، جو پڑھنے لکھنے، ملازمت وتجارت وغیرہ کے معمولی بیانوں سے، نماز وغیرہ سے جی چرانے لگتے ہیں، یہ کسی طرح اور کسی حد تک بھی روا ہوسکتی ہے؟