Sab Say Bada Dushman by Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:06AM Mon 5 Feb, 2024

سچی باتیں (۴؍نومبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ سب سے بڑا دشمن

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

 

بچپن میں جب چلتے چلتے ، رات میں اینٹ کی، پتھرکی، کرسی کے پایہ کی، کسی چیز کی ٹھوکر لگ جاتی تھی، اورآپ گرپڑتے تھے، تو بے اختیار غصہ اُسی چیز پر آجاتاتھا، یا نہیں؟ اورآپ اسی کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے، بلکہ کبھی کبھی مار بھی بیٹھتے تھے، یا نہیں؟ اسے خوب یادکرلیجئے، اور اگر اپنا بچپن کا زمانہ نہ یادآئے ، تو اس وقت اس کا مشاہدہ اپنے بچوں یا دوسروں کے بچوں میں کرلیجئے۔ اب آپ ذرا اور بڑے ہوگئے۔ لکھنے میں پنسل اگر ٹوٹ گئی، توجی چاہنے لگا، کہ اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کرڈالیں ، رکھنے میں دوات کہیں اُلٹ گئی، تو طبیعت یہ جھنجلائی ، کہ اسے اُٹھاکر زمین پر دے پٹکیں۔ غرض بات بات پر دوسروں پر یہاں تک کہ بے جان اور بے ارادہ چیزوں پر بگڑنا، اُن سے روٹھ جانا، ان پر اپنا غصہ اُتارنے لگنا، اور خود اپنا قصور کبھی نہ ماننا، یہ روزمرہ تھا۔ آج آپ عاقل وبالغ ہوکر اس کیفیت پر ہنستے ہیں، اور اپنے تئیں سمجھتے ہیں، کہ اس منزل کو کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

لیکن عمل میں خود آج تک آپ کا کیا حال ہے؟ اگرامتحان میں آپ پاس نہیں ہوئے ، تو اس میں قصور آپ کی بدشوقی یا کم محنتی کا نہیں، بلکہ ممتحن ہی ایسا سخت تھا، ظالم تھا، متعصب تھا، سنگدل تھا، بے رحم تھا! اگر ملازمت باوجود کوشش نہیں ملی، تو قصور محض’’قسمت‘‘ کاہے!اگر مقدمہ میں آپ ہارگئے، تو کہیں یہ بات تھوڑے ہی تھی، کہ آپ کا دعویٰ غلط، یا آپ کا ثبوت کمزور تھا، بلکہ کھُلی ہوئی وجہ یہ تھی، کہ عدالت نے بے ایمانی کی، دوسرے فریق سے رشوت لے لی، فلاں فلاں ذرائع سے دوسرے فریق نے اپنا اثر اُس پر ڈال دیا!اگر تجارت آپ نے کی، اور ناکام رہے، تو اس میں آپ کا کیا قصور، جو ملازم آپ نے رکھے تھے، اُنھوں نے خیانت کی، جوجو آپ کے شریک کارتھے، انھیں نے دغابازی کی، جن پر آپ نے بھروسہ کیاتھا، وہی غدّار ثابت ہوئے!اگرآپ حکیم یا ڈاکٹر ہیں، اورآپ کا زیر علاج مریض اچھا نہیں ہوا، تو بھلا آپ کی تشخیص پر اس سے کیا حرف آسکتاہے، اُسی نالائق نے بدپرہیزی کرلی، آپ کی فرمائی ہوئی تدبیروں پر عمل نہ کیا، آپ کے احکام کی خلاف ورزی کی!اگرآپ مصنّف ہیں، اور آپ کی کتابوں کو خاطر خواہ مقبولیت نہیں حاصل ہوتی، توپبلک عجب بدمذاق اور کوڑھ مغز ہے، یہ تو کنکر پتھر چاہتی ہے، لعل وجواہر کی اسے قدر ہی کہاں ہے، اور یہ ریویونگار کمبخت تو سب کے سب حاسد واقع ہوئے ہیں، حسد سے جلے جاتے ہیں، ہمیشہ جھوٹے ہی جھوٹے عیب گڑھ گڑھ کر نکالاکرتے ہیں۔ اگر محلّہ اور شہر میں آپ کے کچھ دشمن ہیں، تو محض اس لئے کہ آپ سے جلتے ہیں، آپ سے بغض وحسد رکھتے ہیں۔ آپ کے حسن سلوک میں کیا شبہ، مگر یہی لوگ بدنفس ہیں، مُحسن کش ہیں، احسان ناشناس ہیں، موذی وخبیث ہیں!

بچپن کی جس ذہنیت پرآپ ہنستے ہیں، اس میں اور اس ذہنیت میں کچھ بھی فرق ہے؟ وہاں بھی اپنی بے قصوری اور دوسروں کی قصورواری کا زعم تھا۔ اور یہاں بھی یہی ہے!دونوں میں فرق ہی کیاہوا؟ وہی دوسروں سے سوء ظن، اور اپنے سے حُسن ظن! وہی دوسروں پر الزام، اور اپنی صفائی ! بزرگوں نے کہاتھا، کہ اپنا سب سے بڑا دشمن خود اپنے نفس کو سمجھو، اور بدگمانی اگر رکھو، تو اپنے ہی آپ سے !ہم نے اپنے عمل میں اسے اُلٹ دیا۔ ہم بدگمان اگر ہیں تو ساری دنیا سے، اور کسی کو عیب وقصور سے بری، ہر اعتراض والزام سے پاک ومنزّہ ، صاف اور ستھرا اگر سمجھ رہے ہیں، تو اپنے نفس نفیس کو!