Roshan Khayali

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:36AM Mon 15 Sep, 2025

 ’’اگر بروقت روک تھام نہ ہوئی، تو اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے دُنیا پھر دَور غارنشینی کی طرف لوٹ جائے گی، اور لوگ پھر غاروں اور کھوہوں کے اندر رہنا شروع کردیں گے‘‘۔
تہذیب وتمدن کے مستقبل کی یہ نقشہ کشی قدامت پرست مُدیر صدق کے قلم سے نہیں، جدت نواز وتجدد دوست مسٹر ایڈن کی زبان سے ہے، جو ابھی کل تک برطانیہ کے وزیرِ خارجہ تھے، اور آج بھی ان کا شمار ’’عقلاء‘‘ فرنگ میں ہے!……ایک اکیلے مسٹر ایڈن؟ چھوڑئیے اُنھیں۔ دیکھئے ، مشہور مفکر برطانیہ مسٹر سی، ایس ، ام جوڈ کیا کہتے ہیں؟ ’’اسی کا نام ترقی ہے؟ ‘‘اور اسی قبیل کے دوسرے عنوانات سے اُن کے مضامین مسلسل نکل رہے ہیں یا نہیں؟ جن میں معلوم ہوتاہے کہ وہ سرپکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں، اور ایک ایک سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر ہماری منزل مقصود ہے کیا؟ اور ہم گرتے پڑتے آکر کدھر چلے جارہے ہیں؟ ……انھیں بھی جانے دیجئے۔مشہور تر مفکّر، ایچ، جی، ویلز کے لئے کیا کہئے گا، جنھوں نے متفرق مضامین سے قطع نظر، مستقل کتاب ہی’’ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی ہے، جس کے لمبے لمبے اقتباسات سنڈے اسٹیٹسمین میں مسلسل نکل رہے ہیں، اور جس میں وہ پکار پکار کر اور گھبراگھبرا کر کہہ رہے ہیں، کہ زندگی مقصود ہے، تو خدا کے لئے موجودہ نظام معاشرت ومعیشت، اور اصول تہذیب وتمدن کو سرے سے بدلو!
اور نامور فلسفی برٹرینڈرسلؔ کی فریاد کیاہے؟ یہی نہ کہ مہذب انسان اپنے ہاتھوں خود کشی کررہاہے،۔ اور داستان تاریخ عالَم کے خاتمہ پر مانچسٹر کالج (آکسفرڈ) کا پرنسپل اور اُستاد فلسفہ، اور فلسفی رسالہ ’ہیرٹ جرنلؔ‘ کا اڈیٹر، لے، بی، جیکس کچھ ایسے ہی نتیجہ تک پہونچاہے یانہیں، کہ مہذب انسان کا قوائے فطرت پر قابو پالینا، اور خود اپنے نفس پر قابو نہ پانا، راہ خطرہ اور ہلاکت کی ہے؟ (یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ، جلد 8، ص: 5094)……اخلاقی اور روحانی زندگی کو چھوڑئیے، ٹھیٹھ دنیوی اور خالص مادی معیار کو سامنے رکھئے۔ واقعات ومشاہدات کو کوئی کہاں تک جھٹلائے گا، اور رائے قائم کیجئے، اُس تہذیب وتمدن سے متعلق جس نے آپ کی آنکھوں کے سامنے منظر دکھادیئے،
سارے یورپ وامریکہ کے،        1913ء تا 1918ء کے مشرق ومغرب میں۔
اٹلی کے،                1935ء کے حبشہ میں۔
روس اور اٹلی اور خود اسپین کے،        1937ء کے اسپین میں۔
جاپان کے،            1938ء کے چین میں۔
اور جو دکھارہاہے یوروپی اور بین الاقوامی منظر اس وقت بھی ستمبر 1939ء ہے!
یہی ہو فرنگستان ’’جنت نشان‘‘ کی تہذیب ہے، جس کی بابت اُنیسویں صدی کے وسط میں مکالےؔ نے فخر کے ساتھ اکڑ کر کہاتھا، کہ 
’’دنیا کی رُوشن خیالی کی تاریخ میں ہماری موجودہ نسل سے بڑھ کر روشن خیال اور کون گزرا ہے‘‘؟
اور اسی ’’تہذیب‘‘ اسی ’’تعلیم‘‘ انھیں ’’ترقیوں‘‘ پر بیچارے سرسید احمد خاں اور مہدی علی خاں ، محسن الملک اور انھیں کے سے بھولے بھالے، سیدھے سادے مسلمان ایسے لٹّو ہوئے، کہ بے تکان اپنی قوم وملت کو اسی راہ پر لگادیا، اور اپنے نزدیک بڑی مخلصانہ خدمت، اور گہری اصلاح امت کرتے رہے!……ارے خود فرنگیوں کی آنکھیں کھل چکیں، اُن کے فلسفیوں، حکیموں، مفکروں کی آنکھیں کھُل چلیں۔ لیکن ہمارے غلام درغلام’’روشن خیالوں‘‘ کی زبانوں پر وظیفہ بدستور وہی اب بھی جاری ہے، کہ اپنی خود داری پر لعنت بھیجو، اپنے قومی شعائر کی تحقیر پر تحقیر، تضحیک پر تضحیک کرتے جاؤ، اور بے غل وغش فرنگی اور فرنگن بن جاؤ۔ وہ اُلٹے سے سیدھی طرف لکھتے ہیں، تو تم بھی رومن رسم الخط اختیار کرلو۔ وہ بیویوں کو ، بہنوں کو ،بیٹیوں کو سربازار کھُلے مُنہ لاتے ہیں، گواتے ہیں، نچاتے ہیں، تم بھی پردہ کی قید توڑو، مخلوط تعلیم دلاؤ، سنیما اور تھیٹر کی رونق بڑھاؤ۔ اُن پر لاولدی اورقطع نسل کی لعنت مسلط ہوچکی ہے، تم بھی اپنے ہاں گلی گلی منع حمل کے ’’کلینک‘‘ اسپتال کھُلواؤ۔