رہنمائے کتب: کتب لغت کا لسانی اور تحقیقی جائزہ(جلد چہارم اور پنجم)فرہنگ اثر (۱۔۳)۔۔۔ عبد المتین منیری (بھٹکل)

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Books Introduction

07:35AM Sun 15 Jan, 2023

رہنمائے کتب

نام کتاب: کتب لغت کا لسانی اور تحقیقی جائزہ (جلد چہارم اور پنجم). فرہنگ اثر ( ۱۔۳)

مصنف: نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی

صفحات:  ۵۸۰+ ۶۶۸

ناشر: مقتدرہ قومی زبان۔ اسلام آباد

سنہ اشاعت: ۱۹۹۲ء

تعارف نگار: عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔ کرناٹک

------------------------------------------------------------------------------------------

کتب لغت کے لسانی اور تحقیقی جائزے کے سلسلے کی یہ چوتھی اور پانچویں کتاب ہے، اور یہ جلال لکھنوی کی تحفہ سخنوراں یا سرمایہ زبان اردو اور نور الحسن نیر لکھنوی کی نور اللغات کے تعاقب میں نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی کی فرہنگ اثر کے نام سے تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

اردو کتب لغت میں ایک اہم نام تحفہ سخنوران یا سرمایہ زبان اردو  کاہے، یہ پہلی مرتبہ آج سے  (۱۴۰ ) سال قبل سنہ۱۳۰۴ھ میں شائع ہوئی تھی ، یہ حکیم سید ضامن جلال لکھنوی ( ۱۸۲۸ء۔ ۱۹۰۶ء) کی ترتیب کردہ لغت ہے ، جلال زبان وادب کے ایک جید عالم تھے، آپ کے والد حکیم سید اصغر علی ، داستان گوئی میں شہرت رکھتے تھے، اسی فن کی بدولت انہوں نے دربار رامپور میں بار پایا، طلسم ہوشربا کی آخری تین جلدوں کے مصنف احمد حسین قمر انہی اصغر علی کے شاگرد تھے،اس لحاظ سے جلال لکھنوی کا رامپور میں قیام بڑی اہمیت رکھتا ہے، آرزو لکھنوی کے مطابق "اس دوران آپ نے رامپور کے کتب خانےکی شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو پڑھ نہ ڈالی ہو"۔ جلال لکھنوی کے بقول آپ نے اپنی کتاب سرمایہ زبان اردو میں:

۱۔ جملہ محاوروں اور کنایوں اور اصطلاحوں اور مثلوں کے معانی اور محل استعمال لکھ دئے ہیں، اور بیشتر کے اسناد ونظائر ، کلام نظم شعرائے نامور ومعتبر اردو زبان سے اخذ کرکے تحت میں معنی و مقامات استعمال درج کردئے ہیں۔

۲۔ اس امر کا اظہار کردیا کہ کون محاورہ عورتوں سے مختص ہے اور کون مردوزن مین مشترک ہے۔

۲۔ محاورات خواص ومحاورات عوام کے فرق سے بھی آگاہ کردیا،

نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی نے اس لغت کا محاسبہ اپنی کتاب فرہنگ اثر کے حصہ اول میں کیا ہے، ان کا اس لغت کے بارے میں کہنا ہے کہ:

اول تو یہ ادعا کہ جملہ محاورے وغیرہ درج کردئے گئے ہیں مبالغے پر مبنی  ہیں۔ مروجہ محاورات وضرب الامثال کا عشر عشیر بھی کتاب میں شامل نہیں ہے، علاوہ بریں کتاب کے مطالعے کے وقت محسوس ہوا کہ اردو کے اکثر الفاظ ومحاورے جو اج کل مستعمل ہیں، وہ حضرت مولف کے تحریر کردہ محاوروں سے صورت یا معنی میں مختلف ہیں، بعض مواقع پر یہ بھی گمان ہوا کہ حضرت مولف سے شعر کا مطلب سمجھنے میں تسامح ہوا، جس کی وجہ سے محاورے کا مفہوم بھی غلط ہوگیا۔

کتاب کا دوسرا  اور تیسرا حصہ اردو کی ایک اور لغت نور اللغات کے ناقدانہ جائزہ پر ہے ۔اس  سلسلے میں مصنف کا کہنا ہے کہ"یہ ایسے الفاظ ومحاورات کا مجموعہ ہے جو نور اللغات میں درج نہیں،یا جن کے متعلق راقم الحروف کو حضرت مولف سے کسی قسم کا اختلاف ہے، بکثرت ایسے الفاظ کو نظر انداز کردیا گیا ہے جو غیر معروف ہیں، اور جن سے بحث کرنا مفید نہیں معلوم ہوا۔ فاضل مولف نے جو مہتمم بالشان کام تنہا کمال مشقت ودیدہ ریزی و تجسس وتفحص سے سرانجام دیا، مستحق ہزار تحسین و آٖفرین ہے، میری خامہ فرسائی کو جسے کسی طرح مکمل نہیں کہا جاسکتا نور اللغات کاضمیمہ تصور کرنا چاہئے، ہرچند برسوں کی محنت ہے"

نوراللغات کے مولف مولوی نور الحسن نیر کاکوروی ، حسان الھند مولوی محسن کاکوروی کے بڑے صاحبزادے تھے،آپ کی وفات مئی ۱۹۳۶کو ہوئی۔ جس زمانے میں آپ نےیہ لغت ترتیب دی اس زمانے میں فرہنگ آصفیہ کے علاوہ کوئی مستند اور کار آمد لغت شائع نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ نور اللغات کی ترتیب  اور تدوین آپ کی تنہا کوششوں کا نتیجہ ہے۔۔۔ اس کے لئے آپ نے وکالت چھوڑدی اور مستقلا لکھنو آگئے،نوراللغات کی طباعت کے لئے اپنا ذاتی مطبع نیر پریس کے نام سے لکھنو میں قائم کیا تھا، نور اللغات کی چاروں جلدیں انتہائی مسند تسلیم کی گئیں۔۔۔اس سلسلے میں  وارث سرہندی کا کہنا ہے کہ " فرہنگ آصفیہ اگر دہلوی دبستان لسانیات کے لئے موجب افتخار ہے تو نور اللغات لکھنوی دبستان لسانیات کے لئے باعث فخر ومباہات ہے"۔

جلال لکھنوی اور نیر کاکوروی کی غلطیوں کا محاسبہ کرنےکی جرات کرنے والی نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی کی شخصیت اور ان کا مقام جاننے کے لئے آپ کی رحلت پر مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مدیر معارف اعظم گڑھ اک شذرہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

          افسوس ہے کہ ۶ جون کو نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی نے انتقال کیا، وہ اس دور کے استاد فن شاعر اور اردو زبان و ادب کے نامور محقق تھے، اس کے جملہ متعلقات پر ان کی نظر بڑی گہری اور محققانہ تھی، اور اس میں ان کا قول سند کی حیثیت رکھتا تھا، ان کی ذات لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی اور قدیم شرافت و وضعداری کا نمونہ تھی، ان کی زندگی کا بڑا حصہ سرکاری ملازمت میں گذرا، کلکٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے لیکن تصنیف و تالیف و تلاش و تحقیق کا مشغلہ ہمیشہ جاری رہا اور انھوں نے اردو زبان و ادب کے مختلف پہلوؤں پر محققانہ مضامین اور مستقل کتابیں لکھیں، ان کا سب سے بڑا کارنامہ فرہنگ اثر ہے جس کی پہلی جلد شائع ہوچکی ہے، ان کی وفات سے اردو زبان کا ایک بڑا محقق اٹھ گیا، اور قدیم تہذیب کی ایک اہم یادگار مٹ گئی، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔                                        (’’م‘‘، جون ۱۹۶۷ء)

ہمارےمشفق پروفیسر رشید کوثر فاروقی مرحوم  ترنگ میں ہوتے تو فرماتے کہ میں اپنے وقت میں اردو زبان کے سب سے مستند عالم کا شاگرد ہوں، وہ ہمیں فرہنگ اثر خاص طور پر پڑھنے کے لئے کہتے تھے، لیکن اس زمانے میں یہ کتاب نایاب تھی، اور جیب میں بھی اسے خریدنے کی طاقت نہیں تھی۔

فرہنگ اثر کی تیسری جلد کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ [صاحب نور اللغات مولوی نور الحسن نیر سے جہاں کوئی فرد گذاشت ہوئی ہے موصوف نے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے دل نشین انداز میں اس کی نشان دہی کی ہے۔ فرہنگ اثر اسی محاکمے اور زبان دانی کی روداد ہے۔ یہ ایک بڑا کام تھا جسے حضرت اثرلکھنوی کے قدوقامت کا عالم زبان ہی خلوص اور لگن کے ساتھ انجام دے سکتا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو فرہنگ اثر کی حیثیت نور اللغات کے ضمیمے یا تتمے کی ہے۔ کوئی بھی اہل علم اس لغت کے مطالعے سے بے نیازنہیں رہ سکتا۔

فرهنگ اثر کا نمایاں وصف اس کا محققانہ دل نشین انداز بیان ہے ۔ ہر بات کو سند اور دلیل کے ذریعے اعتبار کا درجہ دیا گیا ہے ۔ تلفظ پر ان کی پوری توجہ مرکوز ہے ۔ جا بجا بیگماتی لہجے، عام بول چال کے تلفظ اور لغوی تلفظ کے مقابلے میں فصحا کے محاورے کو ترجیح دی گئی ہے ۔ فرہنگ اثر کا یہ وہ پہلو ہے جس سے اُردو کے اکثر لغات عاری ہیں]۔

فرہنگ اثر کی یہ جلدیں علم وکتاب ٹیلگرام چینل کی مندرجہ ذیل لنک پر دستیاب ہیں۔

https://t.me/ilmokitab/10748

https://t.me/ilmokitab/10749