رہنمائے کتب۔۔۔ فن خطابت پر ایک نادر مقدمہ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

02:36PM Thu 7 Jul, 2022

کتاب: انداز بیان

مصنف: کوثر نیازی

ناشر : شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور

اشاعت اول: اگست ۱۹۷۵

صفحات:  ۶۹۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا کوثر نیازی مرحوم  نے سابق وزیر اعظم پاکستان ذو الفقار علی بھٹو کی کیبینٹ میں  وزیر اطلاعات کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ بھٹو مرحوم کے معتمد علیہ رہے، لیکن آپ کی پھانسی کے بعد آپ کی بیوہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر کے زمانے سے  فراموش کئے جاتے رہے، اب تو کہیں آپ کا تذکرہ سننے میں نہیں آتا۔

لیکن آپ کی شخصیت ایسی نہیں تھی کہ اس طرح انہیں فراموش کردیا جائے، وہ ایک چوٹی کےصحافی، ادیب ، شاعر و خطیب تھے، انہوں نے اپنے دور کے بڑے بڑوں کو بڑے قریب سے دیکھا تھا، ان کی اٹھان مجلس احرار سے ہوئی تھی، ۱۹۵۳ کی تحریک ختم نبوت کے دور میں امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور دوسرے بہت سے بڑو ں کے ساتھ پابند سلاسل بھی ہوئے تھے،  آپ کی کتاب( جنہیں میں نے دیکھا )  سے اس کا اندازہ ہوتا ہے، ایک زمانے میں آپ کے ہفت روزہ شہاب کا طوطی بولتا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں شہاب کے مقابل کوئی  ہفت روزہ تھا تووہ شورش کا چٹان تھا، ایک زمانے میں دونوں جگری دوست تھے،لیکن  بعد میں جانی دشمن بھی بن گئے تھے، ان کے درمیان امیر شریعت ؒ کے جانشین  مولانا احسان احمد شجاع آبادی مرحوم نے صلح کروائی تھی۔وہ ایک چوٹی کے شاعر تھے،  اورمولانا ذکی کیفی مرحوم کے طبقے کے شعراء میں شمار ہوتے تھے، احرار کے بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، اور بانی جماعت کے معتمد علیہ بن گئے، پھر جو ہوا اسے یہاں بتا نے کی ضرورت نہیں۔ بھٹو کے ساتھ شانہ بہ شانہ ہوکر جنہوں نے پیپلز پارٹی کی نیو اٹھائی تھی ان میں یہ بھی شامل تھے۔

وزارت ان کے ساتھ بدنامیاں بھی لے کر آئی، لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک علم دوست انسان تھے،

آپ کے دور وزارت میں دارالمصنفین کو کتابوں کی رائلٹی کے سلسلے میں حکومت پاکستان سے ایک خاطر خواہ مبلغ دلوانے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی، جس سے دارالمصنفین کو اس وقت کافی سہارا ملا تھا، حکومت پاکستان سے یہ رایلٹی دلانے میں اس وقت کے سول سرونٹ ، اور ادیب شاہ محی الحق بحری آبادی کی کوششیں بہت زیادہ تھیں۔

کوثر نیاز ی ، احراری خطیبوں کی آخری نسل سے تھے، یہ احراری خطیبوں کا امتیاز تھا کہ  مجمع  ان کی مٹھی میں رہتا تھا، اور وہ سامعین کو جہاں چاہے اپنے زور زبان سے ریوڑ کی طرح اپنے پیچھے لے جاسکتے تھے، لیکن ان خطیبوں  کےایسے  آثار اور نمونے  باقی نہیں رہے جو آئندہ نسلوں کی رہنمائی کرسکتے، ہماری نظر میں اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک ان میں چلّانے کا عنصرغالب تھا، اور دوسرے یہ کہ  اپنے زور خطابت میں یہ بگ ٹٹ گھوڑے کی طرح بھاگتے جاتے، کسی ایک موضوع پر نہ ٹہرتے، لہذا ایک سامع کے ذہن میں تقریر کے آخر میں یہ یا د نہیں رہتا کہ خطیب  نے اپنی تقریر میں کیا کہا تھا، کوثر نیازی اسی قبیل سے تھے، کہا جاتا ہے کہ جب وہ وزیر اطلاعات تھے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان کے ماتحت تھے تب بھی ان کی تقریریں ان پر نشر نہیں ہوسکیں ، کیونکہ ریڈیو اور ٹی وی میں آواز کی اونچائی کی جو مقدار مقرر ہوتی تھی، وہ ان اسے متجاوز ہوتی تھی، اور ان کی آہستہ سے آہستہ تقریربھی اس سے بلند ہوتی تھی، ہمیں ان کی کوئی معیاری تقریر سننے کا موقعہ نہیں ملا ، البتہ ان کی سرائیکی زبان میں تقریروں کے چند کیسٹوں سے  اس بات کی تصدیق ہوتی تھی۔

اردو زبان  خطابت کی زبان ہے، اس نے دنیا کو عظیم خطیب دئے ہیں، اس زبان میں  فن خطابت پر ،فن تقریر۔ مظاہر حسن،خطابت و تقریر۔ حکیم شمس الدین احمد،فن خطابت۔ سید کلب مصطفی،رموز خطابت۔ نذیر الدین احمد، فن خطابت ۔ مولانا عبد السلام ندوی، فن خطابت۔ محمد احتشام کٹونوی، فن خطابت۔ شورش کاشمیری، تقریر اور گفتگو کا فن ۔ ڈیل کارنیگی ، جیسی کئی ایک کتابیں  موجود ہیں، ایک بے زبان کو یہ کہنے کا  حق نہ ہونے کے باوجود  یہ کہنے میں حرج نہیں کہ معلومات کی حد تک کوثر نیازی مرحوم نے اپنی  تقریروں کے مجموعے انداز بیان میں (۹۵) صفحات پر مشتمل  اس موضوع پر جو مقدمہ لکھا ہے، یہ اس لٹریچر میں  بہترین ہے، اس  مقدمہ میں اس فن کی جو معلومات ملتی ہیں ، اردو کی دوسری کتابوں میں نہیں ملتیں۔

یہ کتاب  نیازی مرحوم کی (۱) مذہبی اور دینی تقاریر(۲) سیاسی اور عوامی تقاریر(۳) خطبات جمعہ (۳)پارلیمانی تقاریر، کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ کتاب کا مقدمہ اردو فن خطابت اور اس کی تاریخ اور اہم خطیبوں کے انداز تقریر پر نقد وتبصرہ پر مشتمل ہے اور یہ (۲۹) ابواب پر مشتمل ہے،

صفحہ نمبر(۱۰۱۔۱۱۴) پر فن خطابت پر عالمی چار کتابوں کی تلخیص پیش کی گئی ہے، جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

اس کتاب کے دوبارہ چھپنے کی ہمیں اطلاع نہیں ہے، اسی زمانے میں رشید اختر ندوی نے ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر کا ایسا  ہی خوبصورت ضخیم مجموعہ شائع کیا تھا، لیکن وہ بھی دوبارہ نظر نہیں آیا۔

افادہ عام کے لئے انداز بیان کے مقدمہ کی پی ڈی یف منسلک ہے۔

2022.07-03

https://t.me/ilmokitab/9709