رہنمائے کتب: دشمنان صحابہؓ کے منہ پر خوبصورت طمانچہ ۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

01:31AM Sun 1 Oct, 2023

کتاب: البرھان في تبرئۃ ابی ھریرۃ من البھتان

مصنف: عبداللہ بن عبدالعزیز بن علی الناصر

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تک خدا کا دین اپنی اصلی شکل میں جو پہنچا ہے یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احسان ہے۔ انہوں نے اس دین کو حضور اکرم سے بالمشافہ حاصل کیا اور من و عن اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کیا۔ دین اسلام کی مستند ہونے کی واحد کڑی یہی صحابہ کرامؓ ہیں، اگر انہیں درمیان سے نکال دیا جائے، ان کی ذات میں مین میخ نکالی جائے تو پھر ہمارے پاس دین کا ایسا کوئی حصہ نہیں بچتا جس کی سچائی پر یقین کیا جائے، یہی وہ نکتہ ہے جسے ملحوظ نظر رکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ سے محبت کو ہمارے ائمہ کرام نے جزء ایمان قرار دیا۔

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ سے محبت سنت نبوی ہے، ان کے لئے دعا مانگنا اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے، ان کی اقتدا اللہ سے نزدیکی کا وسیلہ ہے اور ان کی رایوں کو قبول کرنا خوبی کی بات ہے۔

امام طحاویؒ کاقول ہے: صحابہ کرام سے محبت دین ایمان و احسان ہے، ان سے بغض کرنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔

امام ابوزرعہؒ کا فرمان ہے: کسی شخص کو صحابہ کرامؓ کی شان گھٹاتے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ ملحد ہے، کیونکہ رسول اکرم برحق ہیں، قرآن پاک برحق ہے، اور ہم تک قرآن و سنت صحابہ کرامؓ نے پہنچایا ہے، صحابہ کرامؓ کی نکتہ چینی کرنے والے یہ لوگ دراصل ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اس طرح کتاب و سنت باطل ٹہریں، یہ ملحد ٹھکرائے جانے کے زیادہ حقدار ہیں۔

جن لوگوں نے قرآن و حدیث کی سچائی کا کھل کر انکار کیا فی الحال ہمیں ان سے بحث نہیں، ان کا کفر تو کھلا ہوا ہے، لیکن اسلام کے نام لیواوں میں ایسا بھی ایک گروہ پایا جاتا ہے، جسے کھلم کھلا قرآن و حدیث پر وار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، لیکن ان کے دل ان کی دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں، انہوں نے براہ راست حدیث رسول کا انکار کرنے کے بجائے یہ ضروری سمجھا کہ اس کے سوتوں پر وار کیا جائے، اس مقصد کی برآوری کے لئے انہوں نے خصوصیت کے ساتھ ان دو طریقوں کو اپنایا:

 ( ۱) دین اسلام و سنت رسول کے سب سے بڑے محافظ و نگہبان صحابہ کرامؓ پر کفر کی تہمت جوڑ کر انہیں غیر معتبر ٹہرایا جائے، اس طرح دشمنان اسلام کو حضور پر یہ کہہ کر طعن و تشنیع کرنے کا موقعہ مل جائے گا کہ دیکھو ۲۳ سالہ دور نبوت میں محمد کی آنکھ بند ہوتے ہی انہوں نے اپنا ایمان تج دیا، اس گروہ کے ایک نمائندہ نوراللہ شوشتری (مدفون آگرہ) نے اپنی کتاب احقاق الحق میں لکھا ہے کہ جس طرح حضرت موسیؑ لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے بنی اسرائیل وغیرہ کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھوں پر ہدایت پائی، اور پھر آپ کی زندگی ہی میں سبھی مرتد ہوگئے، حضرت ہارونؑ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا اپنے ایمان پر باقی نہ رہا، اسی طرح محمد آئے، بہتوں نے ہدایت پائی لیکن آپ کی وفات کے بعد یہ لوگ دین سے پھر مرتد ہوگئے۔

 (۲ )حضور اکرم کے صحبت یافتہ صحابہؓ کے واسطوں سے حدیث رسول لینا ناجائز ٹہرایا جائے، اور یہ پخ لگائی جائے کہ صرف اہل بیت کے واسطوں سے آئی ہوئی حدیثوں کو لیا جائے، اہل بیت کی خود ساختہ اصطلاح میں حضور اکرم کو خلوت و جلوت میں دیکھنے والی امھات المؤمنین کا شمار نہ ہو، بلکہ اس سے مراد صرف اپنے بارہ امام لیے جائیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ صحابہ کرامؓ کے طبقہ میں سب سے زیادہ احادیث کی روایت کرنے والے صحابی حضرت ابوہریرۃؓ اپنی بدباطنی کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصیت کے ساتھ طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے جائیں۔

اسی مذموم مقصد کی برآوری کے لئے گزشتہ سالوں میں تین کتابوں کو بڑی شہرت دی گئی:

 (۱ ) عبدالحسین شرف الدین کی کتاب : ابوھریرۃ

 (۲ )محمد ابوریہ کی کتاب: ابوھریرۃ شیخ المضیرۃ

 ( ۳)محمد التیحانی کی کتاب: اتقواﷲ

ان میں اول الذکر بنیادی کتاب ہے اور آخری دو اس کی بازگشت۔

حدیث نبوی کے دفاع اور ان تینوں مؤلفین کی افترا پردازیوں کے توڑ میں ڈاکٹر مصطفی سباعی کی السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی ڈاکٹر عجاج الخطیب کی کتاب ابوھریرۃ راویۃ الاسلام اور شیخ عبدالمنعم صالح العلی کی کتاب دفاع عن ابی ھریرۃ شائع ہوکر قبولیت عامہ حاصل کرچکی ہیں۔

لیکن جب یہ کتابیں لکھی گئی تھیں اس وقت ان دشمنان صحابہ کی معتبر کتابیں دستیاب نہیں تھی، لہذا عبداللہ بن عبدالعزیز بن علی الناصر کی زیر تبصرہ کتاب بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے، کتاب کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے دشمنان صحابہؓ کی مستند کتابوں کے ہزاروں صفحات کا حرف بحرف مطالعہ کیا ہے اور اس صحابی جلیل کے دفاع میں ان مجرموں کو عدالت کے کٹھرے میں ننگا کردیا ہے۔

مصنف نے کتاب کے پہلے باب ص: ۶ تا ۱۶ پر حضرت ابوہریرہ کے حالات فضائل و مناقب بیان کئے ہیں۔

باب دوم ص ۱۷ تا ۱۴۷ پر آپ کی روایت حدیث کے فنی پہلووں کو اجاگر کیا ہے، اس سے متعلق آپ پر ہوئے اعتراض کا توڑ کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ کے جملہ ۵۲۷۶ احادیث کو نقل کرنے پر ان ظالموں نے آپ پر افراط کا الزام لگایا اور یہ بھول گئے کہ ان کے راوی ابان بن ثعلب نے امام جعفر صادق سے ۳۰ ہزار، محمد بن مسلم بن رباح نے ۳۰ ہزار، جابر بن یزید جعفی نے ایک لاکھ چالیس ہزار حدیثیں نقل ہیں۔

ان کے راویان حدیث عوف العقیلی، محمد بن ابی عباد، حفص بن البختری، حماد بن عیسی، ابوحمزہ الشمالی، علی بن ابی حمزہ البطائینی، عبداللہ بن ابی یعفور، ابوہریرہ البزار، السید الحمیری، زبن اعین، یزید بن معاویہ العجلی، لیث البختری، ابو بصیر، ھشام بن الحکم، ھشام بن سالم الجوالیقی، شیطان الطاق جن سے الکافی جیسی کتابیں پٹی پڑی ہیں، ان کے بارے میں خود امام جعفر صادقؒ اور ان کے مذہب کے معتبر مراجع میں تکذیب و تخریج نقل کی گئی۔

ص: ۶۹ تا ۱۴۶ صحابہ کرام و امھات المؤمنین کی شان میں شیعوں کی گستاخی، اسلام میں ان حضرات کا مرتبہ و مقام، حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ اور حضرت اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کی دختر ام فروۃ فاطمہ سے امام باقرؒ کا نکاح اور ان کے بطن سے امام جعفر صادق کی ولادت کے بعد امام جعفرصادق اپنے جد امجد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہیں ناممکنات میں سے ہے، شیعوں کی قدیم کتابوں میں حضرت ابوہریرہ کی توثیق، مجلسی، کلیبی، صدوق، طوسی وغیرہ کی کتابوں میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایتوں کا پایا جانا، ائمہ شیعہ کا افراط اور حیات طیبہ و بعد کے ادوار میں حضرت ابوہریرہؓ کی پاکیزگی کا بیان ہے۔

ص: ۱۴۶ تا ۲۸۲

حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت کردہ جن ۴۲ حدیثوں کو عبدالحسین شرف الدین  نے مذاق کا نشانہ بناکر ان کا انکار کیا ہے ایک ایک روایت سے بحث کی گئی ہے اور ہر ایک کے شواہد شیعوں کے مستند مراجع سے بیان کیے گئے ہیں۔

ص: ۲۸۳ تا ۳۳۰

ابوریہ نے عبدالحسین سے ہٹ کر مزید جن ۲۳ حدیثوں کا انکار کیا ہے ان کا دفاع اور کتب شیعہ سے شواہد پر مشتمل ہیں۔

ص: ۳۳۱ تا ۳۴۱

تیجانی کے ہفوات کا رد کیا گیا ہے۔

ص: ۳۴۲ تا ۳۴۶

حضرت ابوہریرۃؓ کی شان میں قصائد و منقبت پر مشتمل ہیں۔

اس کتاب کی تصنیف کے وقت شیعوں کی ۹۷ کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جن میں سے بعض کتابیں سو سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہیں، اسے دارالنصر للطباعۃ والنشر القاھرہ نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔