رحمت للعالمین ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

07:16PM Fri 29 Sep, 2023

(یہ تقریر دل پذیر حضرت محمد مصطفیکی ولادت باسعادت کے موقع پر ۱۳جنوری ۱۹۴۹ء کو نشرہوئی۔اس میں دنیاکے کامل ترین انسان افضل البشر رحمۃ اللعالمین کی سیرت مبارکہ کی چندجھلکیاں بڑے دل آویزپیرایہ میں پیش کی گئی ہیں۔)

 ’’میں شہادت دیتاہوں کہ انسان انسان بھائی ہیں۔‘‘۱؎

جس کے منہ سے یہ سندر بول نکلے تھے آج اسی کی پیدائش کادن ہے۔ اُسی نے آکردنیاکویہ پیغام دیاتھابتایاتھاکہ نسل کی جلدکی رنگ کی یاوطنی تقسیم کی بناپرکسی سے جنگ کرنایاکسی کوحقیروذلیل سمجھنا حماقت ہے۔ یہ ساری چیزیں غیراختیاری ہیں۔ انسان کے کردارکا اس کے شرف وعظمت کاان سے کیاسروکار۔ اوراسی نے آکریہ منادی کی تھی کہ الخلق عیال اللہ ۲؎ (مخلوق تو ساری اللہ کاکنبہ ہے) فاحبّ الی اللہ من احسن الیٰ عیالہٖ۳؎(تومخلوق میں اللہ کی نظر میں محبوب ترین وہی ہے جواس کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک سے پیش آئے۔)مہرومحبت کے اس پیامبرکو شفقت والفت ہمدردی وانسانیت کے اس سچے پیام رساں کو’رحمت عالم‘نہ کہیے توآخرکہیے کیا؟

آج اس کی پیدائش کادن ہے، جس نے اپنے پَیروئوں کوہدایت کی تھی کہ حکمت و دانش توتمھاری ہی کھوئی ہوئی چیزہے، توتم جہاں کہیں بھی پائو اپنی ہی چیز سمجھ کر حاصل کرلو اور اس وہم میں نہ پڑے رہوکہ یہ غیروں کی ہے، اسے ہم ہاتھ کیسے لگائیں۔ اورہاں اُسی نے یہ ہدایت بھی توکی ہے کہ علم ودانش کی تحصیل سے غافل نہ رہو، چاہے اس کے لیے چین ہی کا سفرکیوں نہ کرناپڑے۔۴؎ چین کالفظ اس وقت کے عربی محاورہ کے مطابق انتہائی فاصلہ ظاہر کرنے کوہے۔ مطلب یہ ہواکہ علم حاصل کرنے کی راہ میں کوئی اوربھی ملکی یاقومی تعصب حائل نہ ہونے پائے۔ یہ ہدایتیں آج بھی ایک دینی پیشوا کی زبان سے ایک حدتک نئی معلوم ہوتی ہیں ،اورپھرچھٹی صدی عیسوی میں جبکہ دنیامختلف چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی تھی،اورایک دوسرے کے خلاف نسلی اوروطنی تعصبات کی سنگین دیواریں اٹھی ہوئی تھیں، اس وقت عام رواداری اورعالم گیر انسانیت کی تعلیم عرب کے ایک امی کی زبان سے بجائے خودایک معجزہ تھی۔

آج اُس نبی رحمت کی یادمنانے کادن ہے ،جس کافرمان ہے مَن لّا یَرْحَمْ لایُرْحَمْ ۵؎جودوسروں پررحم نہیں کرتا وہ خود رحم سے محروم رہے گا۔ شفقت ومہربانی کایہ حکم کسی قبیلہ یاقوم کے ساتھ محدود نہیں، بلکہ نوع انسان کے لیے ہے، اورنوع انسان بھی کیوں کہیے، یوں کہیے کہ ساری مخلوق خداکے لیے ہے۔ جس میں چرندے اورپرندے، گھوڑ ے گدھے ،کتے اوربلی، کبوتر اورمرغی سبھی شامل ہیں۔ اور بعض حدیثوں میں تونام لے لے کر بعض بے زبان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پربشارتیں آئی ہیں۔ عمل اس تعلیم پر ہوجائے توآج ضرورت نہ کسی ’’انجمن براے انسدادبے رحمی برحیوانات‘‘ کی رہ جائے ،اور نہ کسی گھوڑے کی چابکوں سے چھلی ہوئی پیٹھ دیکھنے ہی کومل پائے۔

آج اس رحمت عالم کایوم میلادہے، جس کی لائی ہوئی آسمانی کتاب کاپہلاسبق یہ کہ خداکاتعلق ربوبیت سارے ہی عالم ومافی العالم سے ہے۔ وہ خداپروردگار قریشی کا نہیں، قوم عرب کانہیں، گوروں کانہیں، کالوں کانہیں، مشرقیوں مغربیوں کانہیں، بلکہ نیکوں اور بدوں، بڑوں اورچھوٹوں ،سرداروں اورزیردستوں ، شہزادوں اور کمزوروں ،انسانوں اور جانوروں سب ہی کاپرودگار ہے۔ ننھی سے ننھی بے حقیقت مخلوق پتھرکے کیڑے تک کی پرورش کرنے والا، اس کواس کے کمالات کی طرف چلانے والا وہی ایک ہے۔ اُخوّت انسانی بلکہ ساری نظام کائناتی کی وحدت کی تعلیم اس سے زیادہ مؤثر ودل نشین اندازمیں اور کیاہوگی؟

اُس نورنبوت نے جب اُجالا شروع کیاہے تودنیاطرح طرح کی تاریکیوں اور گہرے گہرے اندھیروں میں لپٹی ہوئی تھی۔ جہالت نے ایک خداکی خدائی میں ساجھے دار خدامعلوم کتنوں کوبنادیاتھا۔ اورمصلح برحق نے اپنی عظیم الشان اصلاحوں کاسنگِ بنیادہی اسی عقیدئہ توحیدکورکھا۔ اس نے بندہ اوراُس کے خالق کے درمیان ربط براہ راست قائم کردیا، درمیانی واسطوں کومٹایااور دلوں اور دماغوں کاسہاراماسواکی طرف سے چھڑایا۔ اورعقیدہ کی ان بنیادی اصلاحوں کے معاً بعدوہ عملی زندگی کے سنوارنے اورسدھارنے میں لگ گیا ۔اور وہ قانون اورضابطے اس نے اپنے اللہ کے حکم سے پیش کیے جوایک طرف فردکوسدھارتے گئے تودوسری طرف سوسائٹی یا معاشرہ یاسماج کااخلاق بھی نکھارتے گئے۔ شراب عرب سوسائٹی کاجزواعظم تھی ۔ ان کے اونچے طبقہ کے خیال میں بھی نہیں آسکتاتھا کہ دوستوں کی مجلس میں برادری کی کسی دعوت میں خاندان کی کسی تقریب میں پیمانہ کی گردش اورجام کے دورکے بغیربھی زندہ دلی باقی رہ سکتی ہے۔ اسی مصلح اعظم نے آکریہ عادت چھڑائی اور جو ابھی کل تک شرابی اوربلانوش تھے انھیں دم کے دم میں پاکباز، محتاط، تہجد گزار بنادیا۔ جنگ جوئی ،خونریزی ،نبردآزمائی گویاعرب کے خمیرمیں داخل تھی۔ برسوں سے نہیں صدیوں سے قبائلی اورخاندانی رقابتیں چلی آتی تھیں،اورعداوتیں وراثت میں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ رحمت عالم نے آتے ہی اس کینہ کو ہرسینہ سے دھو دیا۔ اورجہاں بغض ونفرت کی بھٹیاں دہک رہی تھیں وہاں میل اورمحبت کے پھول کھلا دیے۔ یہ معجزہ تنہاعرب ہی کے لیے نہیں ہوا، عدل خداترسی اورادائے حقوق کے قانون ایسے تعلیم کردیے کہ ان پر عمل ہوتوآج بھی ساراعالم آتش کدہ سے گلزار میں تبدیل ہوجائے۔

سوددرسودکے چکرسے دنیاجن مصیبتوں میں گرفتارچلی آرہی ہے وہ سب پر روشن ہیں۔ غریبوں کاخون چوسنا اوراپنے اندربجائے ہمدردی وشفقت کے سنگ دلی اور بے دردی کے جذبات کوپرورش کرتے رہنا سودخوار غریب کی قسمت کانوشتہ ہے، اورپھر دنیا میں جوبڑی بڑی خونریز لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں سوچ کردیکھیے کہ اگربڑے بڑے سودی قرضے نہ ملتے رہتے تویہ ہولناک اور انسانیت سوز جنگیں کبھی واقع بھی ہوسکتی تھیں؟ دنیاکے اس سچے رہبر اوردین حق کے پیمبرؐنے انسانیت کی اس دکھتی ہوئی رگ کوپکڑا اوراپنی شریعت کے ذریعے اس کاپورا قلع قمع ہی کرکے چھوڑا۔ یہ شرح سودہلکی ہویابھاری،سودی معاملات کی ہرشکل اورہردرجہ کواس نے حرام ہی قراردے دیاکہ بغیراس حرمت کلی کے اس عذاب سے نجات پاناممکن ہی نہ تھا۔

فحش وبدکاری کی وبابھی دنیاپر ہمیشہ مسلط رہی ہے ۔ مصر، یونان ،روما کے بڑے بڑے حکیم اورفلسفی اس سے پیش نہ پاسکے۔ بلکہ بہت سے توخودہی اس کے شکارہوگئے۔ گندی شاعری، گندی مصوری، گندی نقاشی ،گندے ناچ رنگ یہ سب اس کے لوازم طرح طرح کی دل کشی اوررغبت افزاناموں کے ساتھ رہے ہیں۔ محمدؐابن عبداللہ کی لائی ہوئی شریعت نے ان ساری سڑی ہوئی لاشوں کے چہروںسے رنگین وخوشنما نقاب نوچ نوچ کر الگ کردیے، اورہرگندگی کی بیخ کنی بقدر اس کے مفسدہ کے کردی۔

ان پیمبرؐمیں اوروصف جوتھے وہ توتھے ہی، ہزاروں کمالوں کاکمال یہ تھاکہ آپ حقیقت پسند(Realist) اعلیٰ درجہ کے بلکہ بے نظیرتھے،آپ کی نظرِ عرفان ہمیشہ حقائق ہی پررہتی تھی۔ اورآپ کی شریعت نے احکام جتنے بھی دیے ہیں وہ نہ شاعرانہ خیالی سبزباغ ہیں اورنہ فلسفیانہ وہمی نظریے ہیں،بلکہ تمام ترانسان کے کام آنے والی حال ومستقبل دونوں میں عملی ہدایتیں ہیں۔

عورت کے حق میں دنیاعموماً افراط وتفریط ہی سے کام لیتی آئی ہے، کبھی وہ گھٹائی گئی تواتنی کہ جیسے اس کاشمارہی دائرئہ انسانیت میں نہیں،اورکبھی بڑھائی گئی تو ایسی کہ جیسے مرداس کے محکوم اورتابع ہیں۔ اس رسول کریمؐ نے آکر اس کاصحیح مرتبہ قائم کیااوربتایاکہ عورت کسی حال میں مردکی باندی نہیں بلکہ اس کی ماں ہے، بہن ہے ،بیٹی ہے، بیوی ہے اور ہررشتہ میں اپنے اپنے خاص خاص حقو ق رکھتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ذمہ خاص خاص فرائض بھی باپ کے، بھائی کے، بیٹے کے ،شوہرکے لیے ہیں۔

غلاموں کوایک دنیاذلیل سمجھتی آرہی تھی۔ لفظ غلامی ذلت وپستی کامرادف بن گیاتھا۔ اس نبیؐ نے آکراس لعنت کوبھی دورکیا اورغلاموں کوانسانی حقوق ہی میں شریک نہیں کرایابلکہ عملاً غلاموں اورآقائوں کوبھائی بھائی بنادیا۔ چنانچہ ان نام کے غلاموں کی اگر فہرست تیارکی جائے توان میں نہ صرف امیرووزیر ، سپہ سالار اوربہادرشاہ تک نظرآئیں گے،بلکہ بہت سے نام دینی پیشوائوں فقہ و حدیث اورتفسیر کے عالموں کے بھی مل جائیںگے۔

ضعیفوں ،مسکینوں، اپاہجوں، یتیموں ،بیماروں کے ساتھ حسنِ سلوک اورمدارات کی جوہدایتیں اس ہادیؐ کی لائی ہوئی کتاب اور خوداس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں ملتی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ جمع کی جائیں توخودایک دفترتیار ہوجائے۔ نمونہ کے طورپر اس وقت ایک حدیث مبارک کاخلاصہ سُن لیجیے۔ قیامت کے دن خداپنے بندے سے ارشادکرے گاکہ میں بیمار ہواتم نے میری خبرنہ لی۔ میں بھوکارہاتم نے مجھے کھانانہ کھلایا۔ بندہ حیرت سے عرض کرے گاکہ الٰہ العالمین یہ کیونکر؟ تیری ذات پاک توہربیماری اوربھوک سے بالاترہے۔ ارشادہوگاکہ فلاں بیمارکو تودیکھتاہوا چلاگیاتھا۔ وہ ہم ہی تھے، فلاں بھوکا تیرے علم میں آیاتھاوہ ہم ہی تھے۔۷؎حق یہ ہے کہ آپ کی نبوت پر اورجتنے دلائل ہیں بالفرض وہ سب معدوم ہوجائیں اورآپ کی شریعت کے صرف وہی حصے باقی رہ جائیں جوعام خلائق اوراس کے مختلف طبقوں کے ساتھ ہمدردی محبت اورسلوک پرمشتمل ہیں توتنہا یہی چیز آپؐ کی نبوت کے اعجاز کے لیے کافی دلیل بن سکتی ہے۔

اس رسول ؐنے جنگ کوسرے سے حرام نہیں قراردیا، بلکہ اسے بعض حالات میں جائز اوربعض حالات میں واجب بھی بنادیا۔ البتہ اس پرقیدیں بڑی بڑی سخت لگادی ہیں۔ اور جہاد کو بجائے نفس پرستی یاستم رانی کے ایک اعلیٰ درجہ کامجاہدہ نفس اور بہترین آلہ دفعِ ظلم کا بنادیا۔ اسی طرح اس نے دنیاجہاں کے مجرموں ،چوروں، ڈاکوئوں، خونیوں، شرابیوں ، جواریوں کے ہاتھ میں عفوعام کاپروانہ نہیں تھما دیا، بلکہ اس نے اپنے وہی (Realist) یا مصلح اکبرہونے کی رعایت سے، ہرپھوڑے پھنسی کے لیے الگ الگ نشتر، الگ الگ آپریشن بھی تجویز کردیے۔البتہ ثبوتِ جرم کا معیاربہت اونچا کردیا۔یہ نہیں کہ ادھر شبہ پیدا ہوااورسزاٹھونک دی گئی۔ فطرت بشری جب تک اپنی موجودہ کمزوریوں کے ساتھ قائم ہے اورانسان کے خون فاسد میں گردش کررہی ہے مہرکے ساتھ قہرکی اورشاباش کی تسلیوں کے ساتھ تادیب کی گوش مالیوںکی حکیمانہ آمیزش لازمی ہی نہیں عین رحمت وشفقت ہی کے مطالبہ کا پوراکرناہے۔ جس پاک ذات اورپاک صفات ہستی نے نہ صرف اپنی ان تعلیمات کے ذریعے سے دنیاکونمونۂ جنت بنادیناچاہا، بلکہ ۲۲،۲۳سال کے حیرت انگیز حدتک قلیل وقفہ میں ان کی عملی جھلک بھی اپنے وطن میں دکھادی تھی، اورکئی لاکھ مربع میل پر عدل وفضل، مہروشفقت کی عمل داری دوست دشمن سب کی آنکھوں کے سامنے قائم کرادی تھی۔ آج تاریخ روایتِ مشہورکے مطابق اسی کی پیدائش کی ہے۔ لیکن اگر قرآن نے نہ بھی کہاہوتا جب بھی ان کارناموں سے واقف ہوجانے کے بعد عقل سلیم خودہی سوال کرتی ہے کہ اگر اسے رحمۃ للعالمین نہ کہے توآخر کیا کہہ کرپکاریے ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔

٭٭٭