Pro. Rasheed Kausar Faruqi
جن دنوں آپ لکھنو یونیورسٹی میں گریجویشن کررہے تھے، یہاں پر تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوان ادیبوں کا ایک حلقہ ترقی پسندوں اور کمیونسٹ افکار وخیال رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے خلاف اور اسلامی ادب کا علم بلند کئے ہوئے تھا، ان میں م نسیم اعظمی،شاہ طیب عثمانی، ڈاکٹر سید عبد الباری (شبنم سبحانی)، اصغر علی عابدی، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ، ابو المجاہد زاہد جیسے افراد بھی شامل تھے، جو بعد میں آسمان ادب پر آفتاب وماہتاب بن کر ابھرے، کوثر صاحب اس قافلہ میں شامل ہوگئے، بہت ممکن ہے کیمونزم اور الحاد کا ڈنک ان کے ذہن وفکر کی تہوں سے نکالنے میں ان حضرات کی رفاقت کا بھی اثر رہا ہو، یہ ادیب و دانشور لکھنو سے نئی نسلیں کے نام سے جو اسلامی ادب کا ترجمان مجلہ نکالتے تھے، اس کی مجلس ادارت میں کوثر فاروقی بھی شامل تھے، اور ۱۹۵۵ء میں جب آپ یم اے اول کے طالب علم تھے تو آپ منتظم کی حیثت سے مجلہ کے انتظامی بورڈ میں ایک ذمہ دار کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں شبنم سبحانی وغیرہ کے ساتھ دو سال آپ نے جماعت اسلامی کے مرکز میں بھی گذارے تھے۔
سنہ ۱۹۵۶ء میں جب آپ لکھنو ہی میں تھے تو آپ کو حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی علیہ الرحمۃ کی امارت میں تبلیغی جماعت میں جانے کا موقعہ نصیب ہوا، اور اس زمانے میں آپکو حضرت مولانا کے برادر بزرگ ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی علیہ الرحمۃ سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا، ان شخصیات نے تو آپ کو متاثر ضرور کیا ، لیکن تبلیغی جماعت میں آپ کو کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ ہوسکی۔
ابھی تک آپ کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اقتصادی بد حالی نے آپ کو یم اے کی ڈگری بھی مکمل کرنے نہیں دی، اور آپ ۱۹۵۹ء میں مدرسۃ الاصلاح میں انگریزی زبان کے مدرس کی حیثیت سے وابستہ ہوئے، یہاں آپ نے ناظم مدرسہ مولانا بدر الدین اصلاحی اور دوسرے اساتذہ سے استفادہ کیا اور عربی زبان سیکھی (زمزمہ ۲۲ )۔سنہ ۱۹۶۶ء میں آپ شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج اعظم گڑھ سے اور پھر ۱۹۶۹ ء میں آپ ے انجمن خیر الاسلام کے ماتحت مہاراشٹر ا کالج ممبئی میں، اور پھر یہاں سے آپ پونا کالج پونے منتقل ہوئے، اور انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل سے وابستگی تک یہاں تدریس سے وابستہ رہے، جہاں آپ نے اپنی خطابت اور شاعری کے زور پر اپنا ایک وسیع حلقہ بنالیا، یہاں آپ نے صالح نوجوانوں کو منظم کرنے کی غرض سے الشبان المسلموں کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی، جس کے جوانوں نے آخر تک آپ کا ساتھ دیا۔
بھٹکل کے قیام میں آپ کی زندگی بڑی متحرک گذری، دینی فکر رکھنے والے طلبہ کا ایک بڑا حلقہ آپ سے جڑ گیا، یہ انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج کا سنہرا دور تھا، کالج پرنسپل ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کی قیادت میں دینی فکر رکھنے والے اساتذہ وپروفیسر حضرات کی ایک قابل تدریسی ٹیم یہاں کام کررہی تھی،یہ دور بھٹکل میں ادبی نقطہ نظر سے ایک ایسا سنہرا دور تھا، جیسا دور نہ پہلے آیا نہ بعد میں، بھٹکل میں اردو شعر لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے اچھے خاصے نوجوانوں کی تعدا د کو اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ ملا، آپ کی بھٹکل موجودگی میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کی آمد ہوتی تو مولانا اہتمام سے آپ کو بلاکر آپ سے کلام سنتے، ایک شاعر کا بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک واقعہ سے متاثر ہوکر کوئی کلام لکھتا ہے، مگر اس کلام کی حیثیت آفاقی ہوجاتی ہے، اسی نوعیت کی آپ کی ایک نظم جو اتفاق سے ایمرجنسی کے زمانے میں لکھی گئی تھی لیکن اس کا پس منظر کچھ اور تھا ،اور جس کا مصرعہ تھا:
صنم صنم کو تقاضا ہمیں خدا کہئے
کمال جہل کو دانش کی انتہا کہئے
قلم کو حکم کہ بجلی کو چاندنی لکھیے
زبان پہ جبر کے پتھر کو آئینہ کہئے
پندرہ روزہ داعی ممبئی میں جب یہ شائع ہوئی ، اور اس پر مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کی نظر پڑی تو آپنے کوثر صاحب کو مبارکباد دی اور لکھا کہ ایمرجنسی کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کسی او رنے نہیں کی ہے۔
۳۱ مارچ ۱۹۷۷ کو انجمن اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول کے مخلص و دردمند قوم ہیڈ ماسٹر عثمان حسن جوباپو کی ڈیوٹی پر اچانک موت واقع ہوئی تو قوم ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئی، اس موقعہ پر آپ نے ایک معرکۃ آراء نظم لکھی، جس کا عنوان تھا " مرثیہ مگر کس کا"۔ جس کے چند بند ہیں:
بلندیوں سے گریزاں ہیں، پست قوم ہیں
ہمیں ہے فخر کہ مردہ پرست قوم ہیں ہم
ہمیں حضرت عثمان کو شہید کیا
ہمیں نے ان سے جو قاتل نہ تھے قصاص لیا
۔۔۔۔۔۔۔
یہ قوم وہ ہے جو زندوں کی جان لیتی ہے
یہ قوم وہ ہے جو مردوں پہ جان دیتی ہے
یہ قوم تودہ خاکی کے بت بناتی ہے
یہ قوم قبر کی مٹی بھی بیچ کھاتی ہے
مرحوم خود اہل زبان تھے، اور آپ کا مطالعہ بھی وسیع تھا، اور محسوس ہوتا تھا کہ اس عمر میں بھی کچھ سیکھنے کا داعیہ موجود ہے ،آپ اس زمانے میں جامعہ کے ایک استاد مولانا ارشاد علی ندوی مرحوم سے عربی زبان کی صلاحیت میں اضافہ کی کوشش جاری رکھے ہوئے تھے، وہ اس زمانے میں آپ اس ناچیز سے مصر وعالم عرب کے عربی مجلات مطالعہ کے لئے لیا کرتے تھے۔
بھٹکل سے دبی ہوتے ہوئے آپ کا اگلا پڑاؤ بیجاپور تھا ، جہاں آپ نے بیجاپور کالج میں چند سال تدریسی خدمات انجام دیں، لیکن شاید اب مسافر اپنے سفر کی منزلین بدلتے ہوئے تھک ہار چکا تھا، لہذا پونے میں آپ کے نیازمندوں نے آپ سے گذارش کی کہ ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہنے کے بجائے پونے ہی کو اپنی مستقل آماجگاہ بنائیں، اس طرح آپ نے وہاں پر اصلاح وارشاد کا سلسلہ جاری کیا ، آخری دنوں میں آپ اپنے مادر وطن لوٹ گئے تھے جہاں ۲۵/ مارچ ۲۰۰۷ کو آپ کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔
اور ایک ایسا شخص جو دہکتے ہوئے سورج کی مانند تھا، اور جسے اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا، اور پتہ بھی نہ چلا کہ کتنی صلاحیتوں سے بھرپور شخصیت سے یہ دنیا اب خالی ہوگئی ہے، معلوم نہیں کہ اس وقت کسی اخبار نے آپ کے وفات کی دوسطری خبر بھی دی تھی یا نہیں۔
پروفیسر رشید کوثر فاروقی کی کتاب" ایک عشرہ سئی کی وادی میں" یوں تو مختصر سی ہے کتاب کل (۱۲۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ عرض ناشر میں مولانا نفیس خان ندوی نے اس کتاب کے بارے میں سچ لکھا ہے کہ " اس سفر نامہ کا اصل موضوع( دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں) کے شب و روز اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی مقناطیسی شخصیت ہے، انھوں نے صرف وہی نقوش پیش کیے ہیں جو انھیں دس دن کی محدود رفاقت اور ذاتی تجربات و احساسات کے طور پر حاصل ہوئے ہیں جن کا خلاصہ اسوہ رسول بھی اللہ کی عملی مثالیں ہیں جو حضرت مولانا کی زندگی کا حاصل اور سرمایہ حیات تھا، پوری کتاب مختلف ملاقاتوں کے ذکر، مختلف جگہوں پر قیام و برکات کے احساسات سے مملو ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ سب عشق رسول صلی اللہ کےمتن کی تشریح ہیں جو کہیں جلی کہیں خفی ہے! دریائے سٹی کے کنارے آباد دائرہ شاہ علم اللہ کی عظیم تاریخ حضرت شاہ علم اللہ حسنی کا اتباع سنت کا جذبہ امیر المؤمنین سید احمد شہید کے سفر جہاد کا تذکرہ ، اہل قلوب کی آہ نیم می افغان سحر گاہی اس سفر کی روشن قندیلیں ہیں اور منزل مقصود مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ذات بابرکات ہے، حضرت مولانا کے شب وروز کے معمولات کیا تھے، مہمانوں اور مسترشدین کی اصلاح و تربیت کا انداز کیا تھا، کیسے کیسے لوگوں سے حضرت کی ملاقاتیں رہیں، کیسے کیسے علاقوں میں حضرت تشریف لے گئے اور کیسی کیسی حکمت و موعظت کی باتیں حضرت نے بیان فرمائیں سب کا تذکرہ بڑی گرم جوشی اور البیلے انداز میں کیا گیا ہے"۔
آپ نے سچ لکھا ہے کہ" پروفیسر صاحب کا بے ساختگی شگفتگی اور بے تکلفی سے بات کہہ دینے کا انداز بالکل منفرد ہے، ان کی تحریر میں بھر پور خلوص ہے، شوخی ہے، زندگی ہے، بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فوارہ کی سی روانی ہے اور وہ اپنے خیالات کا اظہار بڑی تیزی اور روانی سے کر رہے ہیں اور اس روانی میں کہیں آپ بیتی کا تذکرہ ہے، کہیں مختلف جماعتوں اور شخصیات کا محاسبہ ہے، کہیں تصوف کی عقدہ کشائی ہے تو کہیں حالات کا محاسبہ ! البتہ کتاب کے ایک ایک ورق میں حضرت مولانا کبھی بنفس نفیس اور کبھی بذریعہ تحریر مصنف کے ساتھ نظر آتے ہیں، گویا ایک خارجی سفر کے اندر کئی داخلی سفر ہیں اور داخلیت و خارجیت کا ایسا خوبصورت توازن ہے جس میں مصنف کے اسلوب اور اس کے مزاج نے انفرادیت کا رنگ بھر دیا ہے۔ اس سفر نامہ میں کیمرے سے صرف تصویر ہی نہیں لی گئی ہے بلکہ حضرت مولانا سے ملنے والوں کی دھڑکن اور ضمیر کی سرگوشی بھی رکارڈ کی گئی ہے"۔
اور مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی دریابادی نے حدیث رندانہ کے تحت خوب لکھا ہے کہ " لکھنے والا جس سرمستی و سرشاری کے عالم میں ہے وہاں محبت و عقیدت فدائیت اور فنائیت کے سارے مقامات اس طرح ایک دوسرے میں سما جاتے ہیں جہاں من و تو اپنے درمیان حرف عطف کی موجودگی بھی گوارا نہیں کرتے ، جہاں عالم بے خودی میں کوچۂ دلدار میں بے تابانہ پھرنے والا اپنی اداؤں سے بس یہی کہتا نظر آتا ہے کہ محبت جب خون میں تحلیل ہو جاتی ہے ، رگ رگ میں سما جاتی ہے تو وہ جزو مزاج ہی نہیں اصل مزاج کا مقام پالیتی ہے، تکیہ شاہ علم اللہ کی زمین کتنی ہی محدود ہو، اس کے قدموں تلے سیندی کے دونوں پاٹوں میں فاصلے کتنے ہی کم ہوں لیکن خاک و آب کے اس من سے جو گلستان تیار ہوا اس کو فاروقی قلم نے ایسے گلستان محبت سے تعبیر کیا جوصدر شرک گلستان کہلاتا ہے"۔
آپ نے مزید لکھا ہے کہ " اس کتاب میں سطر سطر نظروں کو رک کر ٹھہرنے کا حکم دیتی ہے، جیسے یہ الفاظ کہ مولانا کی عظمت حقیقی ہے، اضافی نہیں ، وہ چھوٹوں میں اس لیے آتے ہیں تاکہ انہیں بھی بڑا بنادیں، وہ قیادت کے تاجر نہیں ، نہ احساس برتری نہ احساس کمتری ، وہ ایسی آگ ہیں جس سے بپتسمہ لینے سے نئی زندگی ملتی اور جو حیات جاوداں کی سرخیاں بھی رقم کرتی ہے، وہ انسان ہیں، کبھی کبھی سخت اذیت پہنچتی ہو گی لیکن وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ لاکر اس کا امالہ کر دیتے ہیں “
یہ کتاب مصنف جسمانی اور روحانی سفر کی ایک داستان ہے، جووادی سئی میں آکر ختم ہوگئی، اس میں بے تاب روح کی ترپ حرف حرف میں محسوس ہوتی ہے۔
حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کی زندگی پر مسلسل کتابیں اور مقالات آرہے ہیں، کئی ایک کانفرنسیں بھی منعقد ہوگئی ہیں، لیکن مولانا کی زندگی پر ایسی خوبصورت تحریریں شاذ ونادر ہی نظر میں آئی ہے۔دیکھئے کوثر فاروقی نے کس خوبصورت انداز سے مولانا کی زندگی کے ایک رخ کو پیش کیا ہے" ایک دن مولانا نے فرمایا کہ کتب خانہ کی کتابیں دیکھ لیں ، اب آئیے اپنی تصانیف بھی دکھادوں ، دکھانے کے بعد مولانا نے ہنس کر کہا کہ جب کوئی کسی اور طرح یا کسی اور بات سے مرعوب نہیں ہوتا تو اسے یہ الماری دکھا دیتا ہوں، ایک اور جگہ بڑے کام کی ہے جہاں مولانا ابوالکلام آزاد سے حضرت مولانا کا جزوی موازنہ کیا گیا ہے، مثلاً مولانا آزاد میں تجلی طور کی جھلک تھی ، بصارت کو معطل کرنے والی مگر بصیرت کو فعال بنا دینے والی ، مولانا ندوی میں ید بیضا کا پرتو ہے جس سے غشی طاری نہیں ہوتی بلکہ کرامت کے ظہور سے روشنی حاصل کر لی جاتی ہے، مولانا سے قربت بڑھی تو ان کے وجود کے خمیر پر نظر پڑی ، معلوم ہوا کہ یہ شے کچھ اور نہیں صرف ”تڑپ" ہے۔اور مولانا سے محبت کےجذبہ کو کس طرح بیان کیا ہے کہ" محبت حادثہ نہیں ہوا کرتی اور حادثہ ہو تو محبت نہیں ہوتی ۔ یہ بجلی نہیں کہ گرے اورحواس کو اچک لے جائے یا نمو کی طاقت سلب کرلے۔ یہ چنگاری ہے جو چپکے سے اڑ کر آجاتی ہے اور معمورۂ دل کے خس و خاشاک کو سلگاتی رہتی ہے اور سلگتی رہتی ہے۔ آخر آخر کوئی راکھ بن کر اڑ جاتا ہے، کوئی کندن بن کر نکھر آتا ہے، اپنی اپنی توفیق ہے۔ تدریج کے مراحل سے گذرتی ہوئی محبت کو یا خون میں تحلیل ہو جاتی ہے، رگ رگ میں سما جاتی ہے اور جزو مزاج بلکہ مزاج بن جاتی ہے۔ اکثر تو اس محبت کا احساس بھی نہیں ہوتا، ایک میلان یا رجحان سا ہوتا ہے۔ ذہن اس کی تاویلیں کرتا رہتا ہے، مگر دل پر اس کی گرفت اور مضبوط اور مضبوط ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ایک دن شعور پکار اٹھتا ہے کہ توجیہ و تاویل کے پردے گرا دو، احساس خودی کی سپر ڈال دو اور ہوش و خرد سے کہو: سرتسلیم جھکا دیں کہ محبت نے کشور وجود پر قبضہ کر لیا ہے"۔ اور پھر ایک جگہ لکھتے ہیں" پہلی نظر میں ٹوٹ پڑنے والی محبت محبت نہیں، دشمنی ہے، محبوب سے بھی اور اپنے آپ سے بھی۔ یہ ایک خطر ناک غلط فہمی ہے جو بہت جلد غلطی بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ایسی غلطی جس کا اعتراف نہیں کیا جاتا یا تدارک کر لیا جاتا ہے یا شر ما شرمیں نباہ کا روپ دے دیا جاتا ہے، جیسے محبت نہ ہو آفت ناگزیر ہو۔ یہ جھاگ کی طرح اٹھتی ہے اور جھاگ ہی کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ پیش قدمی میں بھی تیز پسپائی میں بھی تیز - معلوم نہیں شیکسپیئر جیسا بالغ نظر نگاہ اولیس کی محبت کا قائل کیوں کر ہوا ؟! شاید اس لیے کہ محبوب کو پانے میں ناکام رہا اور چونکہ ناکام رہا اس لیے احساس ناکامی ہی کو تمام عمر محبت سمجھتا رہا۔ اسے محبوب کو برتنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے زندگی بھر صورت ہی کے تصور میں کھویا رہا۔ سیرت کے پہلو سامنے آتے اور محبت کو زندگی بننے کا مرحلہ پیش آتا تو غالبا رائے بدل دیتا۔ اور خدا معلوم انگریزی میں یہ مقولہ کیوں کر رواج پا گیا کہ پہلا تاثر آخری تاثر ہے۔ انسانی شخصیت اتنی کثیر العناصر اتنی متنوع ہوتی ہے کہ معتبر سے معتبر وجدان بھی بیک وقت یا به یک نظر کسی کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ایک وقت میں ایک ہی پہلو نظر آئے گا۔ پھر کسی جزوی تاثر پر کل کا انحصار نہیں ہو سکتا ، مثلاً : آپ نے کسی کو حالت غضب میں۔ دیکھا تو عین ممکن ہے کہ آپ یک رخی رائے قائم کر لیں اور اگر محرکات غضب کی شدت یا بے شدتی آپ کے سامنے نہیں آئی تو آپ کی رائے اور بھی غلط ہو گی ۔ آپ اس سے وحشت کریں گے اور آپ کو خبر بھی نہ ہوگی کہ عام حالات میں وہ کتنا پیار آدمی ہے اور اس کی شخصیت کتنی دل آویز ہے۔ یہی حال نظریہ کا بھی ہے۔ اگر آپ نے نظریہ کو صرف میدان جنگ میں دیکھا ہے تو آپ اسے خوں ریز قرار دیں گے"۔
حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمۃ کی بارگاہ تک پہنچنے کا داعیہ کیسے پیدا ہوا تو اس سلسلے میں فاروقی صاحب کے جذبات دیکھئے" بڑے سے بڑا باغی کسی نہ کسی کو بے تنقید ضرور مانتا ہے ۔ حتی کہ صحابہ کرام پر تنقید کو ضروری سمجھنے والے بھی اپنے رہ نما پر تنقید کرتے یا سنتے نہیں دیکھے جاتے ، گو نظری طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ رہ نما معصوم نہیں ہے۔ ہے، یوں کہ خالص تنقیدی مزاج تقلیدی ہو نہیں ہو سکتا اور تقلید کے بغیر راہ طے کی نہیں جاسکتی۔ چنانچہ اگر ایسا روحانی رہنما مل جائے جو غیر معمولی انسانی کمزوریوں سے پاک ہو تو جادہ اتباع مل سکتا ہے اور جذبہ اتباع تسکین پا سکتا ہے۔۔۔۔ اہل اللہ کے ہاتھ پر بیعت سب سے زیادہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو ذہین وفطین اور تعلیم یافتہ ہیں یا اپنے کو ذہین و فطین اور تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ ۔۔۔
تصوف کے سلسلے میں مصنف کے جذبات ذرہ ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں کہ " تصوف کا استعمال غلط ہوا ہے تو صحیح کر کے دکھا دیا جائے تا کہ غلط فہمیاں زائل ہو جائیں اور تصوف ہی پر کیا منحصر ہے، ہر بھلائی ہر نیکی کا غلط استعمال ہوا ہے، کیونکہ فطرت انسانی فتنے کو فتنہ اور شرارت کو شرارت جان کر قبول ہی نہیں کر سکتی۔ فتنے کو حق اور شرارت کو شرافت کا بہروپ رچا کر آنا ہی پڑتا ہے۔ جھوٹے صوفی ہی نہیں، جھوٹے دوست، جھوٹے رہ نما حتی کہ جھوٹے نبی بھی ہوتے ہیں لیکن کسی ہوش مند نے دوستی، رہ نمائی اور نبوت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا ہے۔ ہر جھوٹا، جھوٹ بولتے وقت یہی چاہتا ہے کہ اسے سچا سمجھا جائے اور اکثریت بھی جھوٹوں ہی کی ہوتی ہے۔ تو کیا سچائی پر حکم امتناعی نافذ کر دیا جائے؟ آیات قرآنی کو شمن قلیل پر بیچنے والوں کی بھیڑ ہے تو پھر کیا قرآن کو بے قیمت سمجھ لیا جائے؟ ریا ہمیشہ خلوص ہی کا سوانگ بھرتی ہے تو کیا خلوص کی بساط لپیٹ دی جائے؟ برتن کا پانی گندہ ہو گیا ہے تو کیا پانی کے ساتھ برتن کو بھی پھینک دیا جائے؟ کامیاب زندگی کار از "خذ ما صفا ودع ما کدر ہی میں مضمر ہے۔…(45)۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور فکر کو اجاگر کرنے والے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں، لیکن ہماری ناقص رائے میں یہ کتابچہ اس میدان میں ایک اہم اضافہ ہے، امید ہے کہ قارئین میں بڑی دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔
2024-08-25