Pro. Rasheed Kausar Faruqi (01)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

11:57PM Tue 17 Sep, 2024

پروفیسر رشید کوثر فاروقی ، سی کی وادی  تک کا سفر(قسط اول)

تحریر: عبد المتین منیری(بھٹکل)

 

گزشتہ دنوں  ہمارے ایک عزیز  محترم کے ذریعے انکشاف ہوا کہ  پروفیسر رشید کوثر فاروقی کا ایک نثر پارہ" ایک عشرہ سئی کی وادی میں" سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی سے   گذشتہ ماہ رمضان المبارک میں منظر عام پر آیا  ہے، یہ خبر ہمارے لئے بڑی دلچسپی کی تھی، کیونکہ ابتک ہم مرحوم کو ایک بلند پایہ خطیب اور شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے،ان کے دو مجموعہائے کلام  "زمزمہ" اور "جدید وجاوداں" کےمقدموں کے علاوہ نثر میں آپ کی کوئی چیز ہماری نظر سے نہیں گذری تھی۔

برصغیر کے اردو ادب میں ایسی مثالیں شاذ ونادر  ہی ملتی ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی میں تحریر وخطابت اور شاعری کے جوہر یکساں طور پر ودیعت کئے ہوں، بیسویں صدی کے آغاز میں ایسے دو چار نام سامنے آتے ہیں، ان میں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، شورش کاشمیری کا نام  سر فہرست ہیں، مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی تحریر وخطابت کے ساتھ شاعری کی ہے، اس فہرست کے آخر آخر میں مولانا کوثر نیازی کا بھی ذکر آتا ہے۔

فاروقی صاحب کی مختصر سی کتاب دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن ندویؒ  کی نظر سے آپ کی  نثر کیوں کرچھپی رہی ، اگر نظر سے گذری ہوتی  تو شاید  آج سے چالیس سال قبل کہے ہوئے آپ کے مقولے "رشید کی خطابت میں محمد علی جوہر اور کلام میں محمد اقبال کا پرتو نظر آتا ہے" میں کچھ رد وبدل ضرور ہوتا۔  

 کوثر فاروقی  کو دیکھنے اور جاننے والے اب شاذ ونادر ہی رہ گئے ہیں ،  آپ کے رفیقوں ،ساتھیوں اور شاگردوں  میں سے کسی نے آپ کی زندگی ، خطابت ، شاعری اور نثر نگاری پر کوئی تحریر لکھی ہو اس کا ہمیں علم نہیں۔حالانکہ آپ کی شخصیت ایسی نہیں تھی کہ انہیں اس طرح بھلا دیا جائے۔

مرحوم  ۱۹۷۵ء کے وسط میں جب  انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل سے بحیثیت صدر شعبہ انگریزی وابستہ ہوئے تھے، تو اس ناچیز کو انہیں قریب سے  دیکھنے  اور سننے کا موقعہ ملاتھا ، مرحوم مورخہ  ۲  /جنوری ۱۹۷۵ء  بھٹکل میں منعقدہ مشاعرے میں   پہلی مرتبہ بحیثت مہمان شاعر  تشریف لائے تھے، اور اس مشاعرے میں آپ کی رفاقت میں مولانا عامر عثمانی،حفیظ میرٹھی، قوی ٹونکی، شمسی مینائی، شعری بھوپالی جیسے شعراء نے اپنا کلام پیش کیا تھا،  جس میں مرحوم کی اس غزل سامعین کو متوجہ  کیا تھا۔

یہ قدم قدم تامل یہ تھکے تھکے ارادے

 کہو میر کارواں سے کہ حدی کی لے بڑھا دے

سر بزم اے مغنی مجھے تو نہ دے سکے گا

وہ سکوت کا ترنم جو ضمیر کو جگا دے

ابھی فتح آرزو ہے کہ شکست آرزو سے

 تگ و تاز آرزو کے نئے سلسلے ملادے

مرے ہم نشیں ، اگر تو مرا ہم سفر نہیں ہے

میں چلا خدا تجھے بھی دل درد آشنا دے

یہ کمال زندگی ہے کہ جب آفتاب ڈوبے

 تو فلک کو نور دے کے نئی انجمن سجادے

عجب امتحاں ہے کوثر یہ تمیز خیر و شر بھی

 وہی آگ دے اُجالا وہی بستیاں جلادے

اس مشاعرے میں شرکت کے لئے آپ  پونے (مہاراشٹرا)  سے آئے تھے جہاں آپ اس وقت برسر روزگار تھے،  جب مورخہ  ۲۵ جون ۱۹۷۵ء میں  ملک میں  ایمرجنسی لگنے کے بعد پونے میں آپ کے لئے زمین تنگ ہونے لگی  تو پونا کالج کے پرانے  ساتھی  اور دوست ڈاکٹر سید انورعلی ۔ پرنسپل انجمن آرٹس  اینڈ سائنس کالج  بھٹکل کی توجہات سے آپ کی بھٹکل میں تعیناتی ہوئی تھی،  ۱۹۷۹ء تک  تین ساڑھے تین سال آپ یہیں بھٹکل میں  رہے پھر ہمارے دوست صدیق محمد جعفری مرحوم کی دعوت پر آپ  دبی میں  الصدیق اسلامک اسکول  کی  نصاب کمیٹی سے منسلک ہوئے، اور نصابی کتاب ملکی وے کی ترتیب میں صفیہ اقبال  ورق والا مرحومہ کے ساتھ آپ بھی شریک ہوگئے، اور اس کے لئے انگریزی میں بچوں کی چند نظمیں بھی لکھیں۔ بھٹکل میں آپ کا قیام  امین الدین روڈ پر مسجد الہدی کے بالمقابل دارالمصباح کی پرانی عمارت  میں تھا ، اور اسی سڑک پر ایک دو فرلانگ کے فاصلہ  پر ہمارا مکان آتا تھا،اس وقت میں  مکتب جامعہ فاروقی مسجد میں تدریس سے وابستہ تھا، اور عصر بعد گھر لوٹتے ہوئے  راستے میں اپنی  سائیکل روک کر چند لمحات آپ کے ساتھ گزار کر ہی گھر پہنچتا تھا،  اس طرح  آپ کو قریب سے دیکھنے اور  استفادے کے خوب مواقع ملے، یہی دن تھے  جب حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ سے بیعت وارشاد  کا تعلق قائم کرنے کی نیت سے آپ نے ۱۷ /اپریل ۱۹۷۵ء تکیہ کلاں شاہ علم اللہ ، رائے بریلی کا سفر کیا تھا، مئی ۱۹۷۹ء میں تلاش معاش کے سلسلے جب میری  دبی حاضری ہوئی وہاں صدیق جعفری کے ساتھ  آپ کی بھی ملاقات ہوتی، اس زمانے میں ریکارڈ شدہ ایک مجلس ویڈیو پر اب بھی دستیاب ہے۔

کوثر فاروقی صاحب نے مورخہ  ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء  بسواں ( سیتاپور۔ یوپی) میں آنکھیں کھولی تھی، آپ کا پیدائشی نام رشید الحق تھا، اور آپ کے والد کا محمد سعید الحق فاروقی، آپ کا سلسلہ نسب حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمۃ سے جا ملتا تھا، گھر کا ماحول مذہبی تھا، والد ماجد عالم دین تھے، اور آپ کے  چچا سورت گجرات میں امامت کرتے تھے،  گھر میں تنگ دستی کا بسیرا تھا، اور حالات جس کسمپرسی میں گذر رہے  تھے،اس کی عکاسی مرحوم نے ان الفاظ میں کی ہے۔"ان(خاندان کے لوگوں ) میں جو مفلس تھے انھیں غیرت نے نہال ، اور جو متمول تھے انھیں فقر نے مالا مال کر رکھا تھا۔ میری والدہ کے پرنانا نے عالی حوصلگی اور افرنگ دشمنی کی بنا پر دولت اودھ سے "مولائی خان " کا خطاب پایا تھا، اور سقوط اودھ کے بعد اپنے مختصر ساز و برک اور معمولی سی فوج کے ساتھ بطور خود گوروں سے جنگ کرتے ہوئے قتل ہوئے تھے  ۔۔۔معیشت اور معاشرت کا کوئی پہلو ایسا نہیں رہا جس سے سکون تو کیا ، فریب سکوں ہی کی راہ نکل سکے(اٰیضا۔ ۱۵)۔۔۔ایک تو دیہات کا ماحول ، دوسرے مادی وسائل سے محرومی ، آپ نے تعلیم کےلئے لکھنو کا رخ کیا، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ لکھنو اور علی گڑھ وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں کیمونسٹ تحریک کا غلغلہ تھا،  اور حالات کا جبر بھی کچھ ایسا تھا کہ آپ کیمونسٹ تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے  اور بقول آپ کے" انیس سال کی عمر تھی کہ الحاد کی طرف میں مائل ہواپھر اشتراکیت سے کچھ فکری، کچھ عملی تعلق رہا۔ (ایضا)۔۔۔انہی دنوں آپ وقت کے عظیم خطیب اور رہنما مولانا آزاد سبحانی کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ مولانا آزاد سبحانی کی شخصیت اور آپ کی قوت خطابت کے سلسلے میں  مولانا رئیس احمد جعفری ندوی اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ:۔"مسجد کانپور کے حادثہ انہدام کے سلسلہ میں مولانا آزاد سبحانی شہرت کے اسٹیج پر نمایاں ہوئے ۔ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی برطرفی کے بعد کلکتہ کی امامت عید تک شہرت اور ناموری کے بہت سے مراحل خوبی و خوش اسلوبی کے ساتھ انہوں نے طے کر لیے، تقریر بڑی اچھی کرتے ہیں ، تقریر نہیں کرتے جادو کرتے ہیں، بہت بڑے فلسفی بھی ہیں، تقریر میں فلسفیانہ تخیل و تجزی کے کمالات اور دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ کے وہ جوہر دکھاتے ہیں کہ مخالف بھی داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔۔محمد علی ہوسٹل میں تقریر کا انتظام ہوا ، حاضرین مولانا کے انتظار میں چشم براہ بیٹھے تھے کہ وفعتا کھٹ کھٹ کھٹا کھٹ کھٹ کھٹ کھٹا کھٹ کی مسلسل آوازیں آنا شروع ہوئیں ، نظر اٹھائی تو مولانا کھٹ پٹی پہنے ہوئے خراماں خراماں مسکراتے ہوئے تشریف لارہے ہیں، گاڑھے کا ایک تہ بند زیب ہے ، تہ بند کا باقی حصہ رونق دوش و سر بال کمتر سیاہ زیادہ تر سفید، لیکن سفیدی دودھ کی سفیدی نہ تھی ، اس پر خاکساری کا رنگ غالب تھا، ہم میں سے بہتوں نے سمجھا مولانا کے لیے موزوں تر جگہ اسٹیج کے بجائے خانقاہ ہو سکتی تھی یا کسی مسجد کی کوٹھری شاید مولانا نے یہ بات بھانپ لی ، مسکراتے ہوئے اٹھے۔ اور تبسم کے ساتھ تقریر شروع فرمائی، یہ بے موقع تبسم بھی ناگوار گزر رہا تھا، جی چاہتا تھا اس تبسم کا جواب قہقہہ سے دیں ۔

اب مولانا کی تقریر شروع ہو چکی تھی ، ڈھلے ہوئے فقرے، موزوں اور مناسب الفاظ ، چست اور معنی خیز جملے ، صاف اور شیریں زبان، واضح اور دلنشین بیان خیالات زبان کے سانچے میں ڈھلے ہوئے، زبان خیال بلند پرواز کی بلندیوں پر روپوش دیکھا یہ تھا کہ جن کی زبان اچھی ہوتی ہے ان کے خیالات کی جھولی خالی ہوتی ہے ، جن کے خیالات گرانمایہ ہوتے ہیں وہ بے زبان ہوتے ہیں لیکن یہ شخص اقلیم خیال کا بھی فرمانروا تھااور شہرستان زبان کا بھی تاجدار ، کیا خدا کی قدرت ہے، صورت دیکھئے تو ہیچ میرز۔ باتیں سنئے تو معلوم ہو شاعر نے یہ شعر انہی کے لئے کہا ہے ہے

مہیں حقیر گدایان قوم را کمیں قوم

 شہان بے کرد خسروان بے کلہ اند

( دید و شنید۔ رئیس جعفری۔ ۵۸۔۵۹)

مولانا آزاد سبحانی سے تعلق اور پھر قطع تعلق کے بارے میں کوثر فاروقی لکھتے ہیں کہ" تقریبا سولہ سال کی عمر میں اشتراکیت سے متاثر ہوا، لیکن جلد ہی اس کا رد عمل ہوا اور اسلام کی طرف پلٹا۔۔۔حسن اتفاق سے مولانا آزاد سبحانی مل گئے اور تین سال ان کا ساتھ رہا اور خوب رہا، سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔۔۔۔ مولانا گو بہت شفقت فرماتے تھے تاہم ان سے مجھے ایسی محبت نہ ہوسکی جس کا قوام دیر میں بنا کرتا ہے۔۔۔مثلا عجمی تصوف کا سیاسی استعمال تاکہ امت کی ناجائز پیر پرستی سے جائز فائدہ اٹھایا جاسکے، کبھی جامعہ ربانیت کا فرضی قیام ، کبھی تعلیم محض پر اتنا زور کہ گویا واحد حل یہی ہے، اور کبھی روس سے ایک خفیہ معاہدے کی تجویز اور دلائل کے ساتھ اصرار کہ اسلام اور اشتراکیت میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔۔۔ میرے تعلق خاطر پر ان کے تلون سے شاید کوئی ناگوار اثر نہ پڑتا، لیکن اشتراکیت سے ان کا معاشقہ مجھے بہت برا لگا، میں اسی دور میں اس تحریک کو اس کی علمی وعملی دونوں شکلوں میں دیکھ کر بے زار ہوچکا تھا، اس لئے مدتوں رنجشیں رہیں اور آخر معاملہ الفراق بینی وبین پر ختم ہوا۔۔۔ ( ایک عشرہ سی کی وادی میں ۲۵)

ہمارے خیال ہے مولانا آزاد سبحانی سے شعوری طور پر قطع تعلق کے باوجود آپ کی شخصیت کے سحر سے آپ آخر تک آزاد نہ ہوسکے،ا۔ ان دنوں  آپ  کوثر بسوانی کے نام سے پہچانے جاتے تھے ،اور اپنے  دور کے عظیم لغت داں نقاد و شاعر  نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی مرحوم سے اپنےکلام میں اصلاح بھی لے رہے تھے۔