Ohda Qaza Ki Zimmeh Dari

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

04:39PM Sun 1 Dec, 2024

عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال من جعل قاضیًا بین الناس فقد ذبح بغیر سِکّین۔ (ترمذی وابن ماجہ )

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ جو شخص لوگوں پر قاضی (حاکم) بنایاگیا، وہ بغیر چھری کے ذبح کردیاگیا۔

قاضی( مجسٹریٹ اور جج)کا عہدہ،اسلامی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ ہے۔ اسی منصب کی ذمہ داریوں کا گویا پورا نقشہ، زبان نبوت نے ان مختصر ، جامع، وبلیغ لفظوں میں کھینچ کردکھادیاہے۔ اس کے پیش نظر ہوجانے کے بعد کسی صاحبِ ایمان کو اس کی ہوس باقی رہے گی؟ کوئی ، رسول کی بات پر یقین رکھنے والا، اب اس کی جانب از خود لپکے گا؟ شارحین کہتے ہیں، کہ معناہ التحذیر من طلب القضاء والحری علیہ اس سے مقصود لوگوں کو عہدۂ قضاء کی حرص اور طلب سے روکناہے۔ ایک دوسری حدیث میںمضمون اس سے بھی زیادہ صاف وواضح ہے،

عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ ﷺ من سأل القضاء وکل علی نفسہ ومن جبر علیہ نزل الیہ ملک فسددہ۔ (ایضًا)

حضرت انسؓ بن مالک رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، کہ جو شخص عہدۂ قضاء خود طلب کرکے لیتاہے، وہ بس اپنے ہی اوپر چھوڑدیاجاتاہے۔ اورجسے بلاطلب، زبردستی اسی عہدہ پر فائز کردیاجاتاہے، اس کی امداد واعانت کے لئے ایک فرشتہ نازل کردیاجاتاہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بڑے پایہ کے صحابی تھے۔ احتیاط وخشیت میں ممتاز ومشہور۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ میں انھیں قاضی مقرر کرناچاہا، صاف معذرت کردی، اور کہاکہ امیر المومنین، میرے اوپر رحم فرمائیے، اور اس خدمت سے مجھے معاف ہی رکھئے۔ حضرت سلمان ؓ فارسی اور حضرت ابودرداءؓ سے متعلق بھی،عہدۂ قضا سے ایساہی خوف منقول ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ، کمال واحتیاط ورتقویٰ کے لحاظ سے، پھر بہت اونچاتھا۔ صدیوں بعد کے فقہاء کو لیجئے۔ ان کے ہاں بھی تصریحات موجود ہیں ، کہ قاضی ایسے شخص کو بنایاجائے، جو عہدۂ قضا کی خواہش نہ دل میں رکھتاہو،

لایطلب القضاء بقلبہ ولا یسألہ بلسانہ۔ (درمختارؔ)

اور نہ زبان سے اس عُہدے کی طلب کرے!

ولا ینبغی أن یطلب الولایۃ ولا یسألہا ۔ (ہدایہؔ، فتح القدیرؔ، وغیرہا)

نہ چاہئے کہ عہدہ کی خواہش کرے، اور اس کے لئے درخواست کرے۔

فقہ کا تعلق اصلاح باطن سے نہیں، محض احکام ظاہر سے ہے۔ مگر یہ ’’خشک‘‘ فقہاء تک لکھ گئے ہیں، کہ عہدہ کے لئے سعی وطلب، دوڑدھوپ کرنا، سفارشیں اُٹھوانا، درخواستیں دینا، الحاح وزاری کرنا، اپنے حقوق پیش کرنا، ……جائز نہیں! اہل باطن کا تو ذِکر ہی نہ کیجئے۔

ایک عالَم یہ تھا۔ خیالی نہیں، عملی۔ لفظی نہیں، تجربی، موہوم نہیں، موجود فی الخارج۔ فقیہوں کے سرور وسرتاج، ابو حنیفہؒ کو بادشاہ اسلام خُود بلاکر قضاء ت اعلیٰ کا عہدہ سپرد کررہاہے، وہ انکار کرتے ہیں، بادشاہ انکار سے ناراض ہوجاتاہے، سختیاں کرتاہے، قیدخانہ میں ڈلوادیتاہے۔ یہ سب گوارا، پر اس ذمہ داری کا اُٹھانا گوارا نہیں!ایک عالَم یہ تھا، ایک دنیا آج کی ہے، ہماری آپ کی ہے، لندنؔ اور پیرسؔ کی ہے، برلنؔ اور ویاناؔ کی ہے! کوئی ایک عہدہ خالی ہو، تواُس پر سیکڑوں مل کر ٹوٹ پڑئیے! اپنی ’’قابلیت‘‘ اور اپنے ’’کارنامے‘‘ اپنی زبان سے، خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیجئے، اپنے مناقب کی قصیدہ خوانی خود کیجئے، دوسروں کو نالائق محض، اور اپنے کو قابل ترین،ثابت کیجئے! اسمبلی میں، کونسل میں، منوسپل بورڈمیں، ڈسٹرکٹ بورڈ میں، کوئی جگہ خالی ہو، تو اپنے حق میں اعلان چھاپئے، ’’مینفسٹو‘‘ شائع کیجئے، لکچر دیجئے۔ ’’کمترین‘‘ اور ’’خاکسار‘‘ خدانخواستہ آپ کیوں ہونے لگیں، یہ ہوں گے آپ کے دشمن۔ آپ تو ماشاء اللہ خود اپنے ممدوح ، خود اپنے قدرداں، خود اپنے قصیدہ خواں، اور بڑے سے بڑے منصب، بڑے سے بڑے مرتبے، بڑی سے بڑی جاہ کے مستحق ہیں!……دونوں عالَموں میں کوئی مناسبت ہے؟