Nay Dour Ka Hasraria

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:01AM Mon 22 Sep, 2025

سچی باتیں (18؍نومبر 1940ء)۔۔ نئے دور کا ہسٹیریا

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

 

بھوت ، پریت، خبیث، آسیب، چڑیل، کے آپ قائل ہوں یا نہ ہوں، واقف توبہرحال ان کے ناموں سے اور کارناموں سے ہوں گے۔ فلاں پر ’’شیخ سدّو‘‘ آگئے، اور وہ کھیلنے لگا۔ فلاں پر ’’لونا چماری‘‘ کا اثر ہوگیا۔ فلاں کو’’ کلوابیر‘‘ نے دبالیا۔ فلاں کو آسیبی خلل ہوگیا۔ فلاں پر جنّات آگئے، فلاں پر پریوں کا سایہ ہوگیا۔ یہ چیزیں کس کے علم میں نہیں؟کون ان سے باخبر نہیں؟ اس کے بعد وہ انسان اپنے آپ میں کہاں۔ اب وہ چیزہی کوئی اور۔ اچھا خاصہ، بھلا چنگا انسان، اور جہاں اُس پر کوئی آنے لگا، اُس کے سرپر کوئی سوار ہوگیا، بس وہ اپنے قابو میں نہیں۔ اَول فَول بکے گا، دیوانوں کی طرح دوڑے گا،مارے گا، آنکھیں نکالے گا، دانت پیسے گا، بے وجہ روئے گا، بلاوجہ ہنسے گا، اور جب تک یہ جنون کا دَورہ طاری رہے گا، وہ اپنے آپ میں نہ رہے گا ۔ ہوگا کچھ اور نظرآئے گا کچھ……اسباب طبّی وطبیعی جو کچھ بھی ہوں، علامات وآثار کا خلاصہ بس یہی ہے۔

جن اور بھوت، آسیب وخبیث کے افسانے پارینہ ہوچکے۔ اصطلاحیں پُرانی ہوگئیں۔

اس دَور میں جام اور ہے مے اور ہے جم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور۔

اب ’’آسیبی خلل‘‘ نئے نئے ناموں سے پڑنے لگے۔ لوگوں کے دماغ ، فیشن ایبل اصطلاحوں کے ماتحت بگڑنے لگے۔ بدحواسیاں، خود فراموشیاں، خود بیزاریاں سب وہی۔ لیبل، سب پر نئی جگمگاتی روشنی کے لگے ہوئے۔ٹھپّے سب کے جھلجھلاتے ہوئے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ ’’ترقی‘‘ ہم مسلمان جبھی کرسکتے ہیں، جب بے تکلف سودی کاروبار شروع کردیں، اور بینک کھولنے لگیں۔ دوسرے فرماتے ہیں، کہ جب تک ہم اپنی عورتوں کا مردوں کے دوش بدوش، سینہ بسینہ لاکھڑا نہ کریں گے، ترقی کے دَور میں کسی قوم سے بازی لے ہی نہیں جاسکتے۔ تیسرے صاحب کا ارشاد ہے کہ اصل چیز دولت کی صحیح تقسیم ہے، جب تک سوشلزم کی بنیاد پر ملت کی ازسرِ نوتنظیم نہیں کرتے، ہم مسلمان پنپ نہیں سکتے۔چوتھی سمت سے صدابلند ہوتے ہے کہ قومی فلاں کا راز’’منع حمل‘‘ ہے، سلسلۂ توالد بند کرو، اور اپنی عورتوں کو آزادی کا سانس لینے کا موقع دو۔ ایک اور صاحب کی تبلیغ ہے کہ زندہ رہنا ہے ،تو زندہ قوموں کا رسم الخط اختیار کرو، اپنے نستعلیق ونسخ پر خط نسخ کھینچ دو، اور لاطینی حروف بائیں سے داہنی طرف لکھنے شروع شروع کردو۔ ایک اور بزرگ کا وعظ ہے کہ ہمیں روایاتِ حدیث نے تباہ کرڈالا، مسلمان بنے رہنا اور اسلام پر قائم رہناہے، تو بخاری اور مسلم کے دفتروں کو آگ لگادو!……یہ سب اگر طبّی اصطلاح میں ’’ہسٹیریا‘‘ نہیں تو اور کیاہے؟ خوش اعتقادوں کی زبان میں اگر آسیب زدگی نہیں تو اور کیاہے؟

یہ ملؔ اور مالتھنؔ،مزدکؔ، اور مارکسؔ، دَورِ نو کے نئے عفریت جس طرح افراد کے سرپر آجاتے ہیں، اُسی آسانی کے ساتھ قوموں اور جماعتوں کو بھی پچھاڑ دیتے ہیں۔ اور ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’تجدد نوازی‘‘ ’’سوشلزم‘‘ اور ’’کمیونزم‘‘ کی بیماریاں جس طرح افراد واشخاص کو توڑدیتی ہیں، اسی طرح یہ وبائیں پوری آباد یوں کی آبادیوں میں بھی پھوٹ پڑتی ہیں، اور دیکھتے دیکھتے قوم کی قوم کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ترکیہ ان بَلاؤں کا شکار ہوچکا، مصر ان کے آگے جھک گیا، ایرانؔ ان میں مبتلا ہوچکا، عراقؔ، شامؔ، فلسطینؔ، سب میں ان کے قدم جم چکے، ہندوستانؔ اُن کی زد سے کب تک باہر رہ سکتاتھا۔اس پر ان کے دھاوے ہوئے، باربار ہوئے، اور ہورہے ہیں، ہر بار پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ، پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ، اور ان حملوں اور پیش قدمیوں کے نقیب آج کون کون ہیں؟ کوئی اور نہیں، آپ ہی کے بڑے بڑے اخبارات ورسائل، آپ ہی کی قوم کے فلاں لیڈر، اور ایڈیٹر۔ پریس، اور ریڈیو اور سنیما۔