مولوی عبد الودود اکرمی۔۔۔ ابھی جانے کی عمر نہیں تھی۔۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:51PM Wed 10 Aug, 2022

 کل باہر سفر پر تھا کہ خبر آئی کہ نوجوان عالم دین مولوی عبد الودود صادق اکرمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔

دل پر اس خبر نے غم والم  کی عجیب کیفیت طاری کی، کیوں کہ اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے اس نوجوان کو نوازا تھا، اور ہم جیسے لوگ ان سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ اور امید کررہے تھے کہ آپ کے ذریعہ اس علاقے میں علم وتحقیق کا ایک نیا ماحول پیدا ہوگا، اور ان میدانوں میں ہمارا معاشرہ مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ لیکن اللہ کی ذات علیم وحکیم ہے، وہ بہتر جانتی ہے کہ کس کو کب اس جہان فانی سے بلوانا ہے، اور کس سے کب تک بار امانت اٹھوانا ہے؟۔

وفات کی اس خبر پرآج سے بارہ سال قبل کا وہ منظر ہمارے ذہن میں تازہ ہوگیا جب ہم مولانا عبد الباری ندوی مرحوم سابق مہتمم جامعہ کے دفتر میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھےکہ ایک نوجوان آپ کے دفتر میں داخل ہوا، انداز بڑاہی مودبانہ اور مہذب تھا،باتوں میں نیاز مندی پھوٹ رہی تھی، اسے پہچاننے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی، کیونکہ آپ کے والد ماجد محمد صادق اکرمی سے ہماری پرانی شناسائی تھی، آپ کے تین چچا جب ہم ۱۹۶۹ء میں جامعہ اسلامیہ کے شمس الدین سرکل پر واقع جوکاکو مینشن میں پڑھتے تھے تو یہ بھی وہاں داخل تھے۔  

یہ نوجوان اس وقت مہتمم جامعہ اور یہاں پر اپنے اساتذہ کو مدینہ یونیورسٹی میں اپنے داخلہ کی منظور کی خوشخبری سنانے اور ان سے دعائیں لینے آیا تھا، مہتمم جامعہ کی باتوں سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتے ہیں، اور اس کے اخلاق واطوار سے بہت متاثر ہیں،لہذا آپ اس نوجوان کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔

مرحوم کی ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ہوئی تھی، عربی سوم تک پہنچنے کے بعد آپ کے والد کی ایما پر آپ نے جامعہ دارالسلام عمرآباد میں داخلہ لیا تھا، یہاں سے فراغت کے بعد آپ کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوا، جہاں آپ آپ نے  لیسانس  (بی۔اے) مکمل ہونے کے بعد خوش نصیبی سے  ماجستیر ( یم۔ فل ) میں داخلہ لے کر امتیاز سے یہ ڈگری حاصل کی۔ اس کے لئے آپ کا تحقیقی مقالہ امام نووی کی کتاب المجموع میں امام شافعی کے تفردات کے موضوع پر تھا۔

ہمارے برصغیر سے جو بہترین طلبہ مدینہ یونیورسٹی کے لئے عموما منتخب ہوتے ہیں، لیکن چونکہ ان کا داخلہ بی اے میں ہوتا ہے، اوروہ وطن ہی میں  لیسانس کے معیار سے کہیں زیادہ علم حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں، لہذا زیادہ تر طلبہ اپنے کورس کو آسان سمجھ کر محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اور سستی اور کاہلی کے عادی ہوجاتے ہیں، لیکن ان میں سے جو خوش قسمت محنت کرکے  ماجستر اور دکتوراہ میں داخلہ لیتے ہیں، تو پھر ان کی صلاحیتوں کو سان پر گھسنے کا عمل شروع ہوتا ہے، ماجستیر جسے ہم یم اے کے برابر سمجھتے ہیں،ہندوستان کا یم اے معیار اور محنت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا کرتا ، ماجستیر اور دکتوراہ دراصل تصنیف وتحقیق کے میدان میں تربیت کے لئے ہوتا ہے، اور اس کے لئے سعودیہ وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں خاص کر باہر کے لوگوں کو خوب تپایا جاتا ہے، اور جب یہ اس کی سند حاصل کرتے ہیں تو بہتر محقق اور مصنف بن کے نکلتے ہیں، جن کے پاس اہل زبان کی طرح لکھنے اور بولنے کی زبان ہوتی ہے۔ جن افراد نے سعودیہ سے ماجستیر اور ڈاکٹریٹ کی سند پاکر علم وتحقیق کے میدان کو اپنایا ہے انہوں نے ان میدانوں میں بڑا نام کمایا ہے، لیکن ایسوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، جسے ہم بدنصیبی ہی کہ سکتے ہیں۔  

بھٹکل کے کئی ایک افراد کے حصے میں مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کی سعادت آئی ہے، لیکن ماجستیر کے حصول کے بعد وطن عزیز میں علم دین کی خدمت لکھی گئی ان میں  مرحوم منفرد شخص تھے۔

ہماری دلی تمنا تھی کہ فقہ شافعی میں مدینہ یونیورسٹی جیسی یونیورسٹی سے ماجستیر کی سند پانے کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو آپ کی خدمات حاصل ہوں، اس کے لئے ہم نے ذاتی طور پر بھی آپ کی فراغت کے فورا بعد رابطہ قائم کیا تھا، لیکن اس وقت آپ کی خواہش ملیشیا سے ڈاکٹریٹ کرنے کی تھی، اور حالات نےانہیں اس کے بجائے والد کا کاروبار سنبھالنے پر مجبور کردیا، اس سلسلے میں جامعہ کے بعض ذمہ داران نے بھی کوششیں کیں، لیکن قسمت میں کچھ اور تھا،بھٹکل کے نولیج انٹرنیشنل اسکول کی قسمت میں آپ سے فیض اٹھانا لکھا تھا۔ گزشتہ تین سال کا عرصہ آپ نے تجارت کے ساتھ اس اسکول کی خدمت میں گذارا۔

جب بھی ہمارا وطن آنا ہوتا تو آپ سے ملاقات ضرور ہوتی ، وہ ہمارا کیا سب کے ساتھ احترام کا معاملہ کرتے تھے، آپ نے اپنے حلقے میں دعوتی ودینی دروس کا سلسلہ بھی جاری رکھا،

چند ماہ قبل آپ کے ایک شاگرد سے زید میں ملاقات ہوئی تو یہ جان کر دلی صدمہ پہنچا کہ آپ کو سرطان کا مرض لاحق ہوگیا ہے، اور یہ مرض آخری اسٹیج پر ہے، اس وقت ہم نے آپ سے رابطہ کیا اور فون پر بات کی، ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس بیماری میں بھی ان میں زندگی جینے کا عزم موجود تھا، ان کی باتوں سے احساس نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کوئی خطرناک بیماری لاحق ہے، شکر اور راضی بہ رضا ہونے کا جذبہ ان کی زبان سے پھوٹ رہا تھا، پھر معلوم ہوا کہ وہ کیمو کرنے تنہا منگلور تک کا ڈھائی گھنٹے کا سفر تنہا کیا کرتے ہیں۔ چند دن قبل ہمارا وطن آنا ہوا تو ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی، لیکن معلوم ہوا کہ وہ منگلور اسپتال میں داخل ہیں، اور ان سے ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔

آج جب آپ کے انتقال کی خبر سنی ہے توکھلنے سے پہلے مرجھانے والے اس پھول کا چہرہ سامنے آرہا ہے، کتنا پیارا تھا یہ چہرہ، کتنی مٹھاس تھی اس زبان میں۔

آج آپ کی قبر پر تین مشت مٹی ڈالنے سے محرومی کے احساس کے ساتھ مولوی اطہر افریقہ ندوی صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی، موصوف کی بڑی دختر آپ سے بیاہی تھی، آپ صبراور راضی بہ رضا کی صورت بنے تھے، سامنے مرحوم کے تین یتیموں پر نظرپڑی جن میں سے بڑا شاید چھ سات سال کی عمر تک پہنچا ہو، دل میں ایک ہوک اٹھی، جانے والا ان سے بہت دور جاچکا تھا، شاید اپنے نانا کی سرپرستی میں اپنے ابا کے چھوڑے ہوئے منصوبوں کی تکمیل ان کے نصیب میں لکھی ہو، عمر کے چالیسویں سال تک پہنچنے میں ابھی دو تین سال باقی تھے، اللہ تعالی نے انہیں ہمارے درمیان سے اٹھا لیا، اسی طرح ہر ایک کو اس بلاوے پر کسی شش وپنچ کے بغیر جانا ہے، وہ خوش قسمت ہے جواس کی رضا کو اپنی زندگی کا مشن بنائے، اس میں شک نہیں مرحوم کی زندگی اس کی تعبیر تھی، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔

2022-08-10