مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۴)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:45PM Tue 5 Jan, 2021

مولانا عبد الحمید ندیؒ کی حکمت اور دانائی

جامعہ کا قیام کن مشکل حالات میں ہوا، اور اس وقت بھٹکل کے اجتماعی اور جماعتی صورت حال جس خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے، اور جماعتی اختلافات جس انتہائی عروج کو پہنچ گئے تھے، اس ماحول میں مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کون سی ایسی راہ اپنائی جس سے جامعہ کو ان اختلافات سے بلند ہوکر کام کرنے کا موقعہ مل گیا، مولانا اقبال صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں: (( آپ کو معلوم نہیں،۱۹۵۸ء میں بھٹکل میں جماعتی اختلافات کے نتیجے میں بھائی بھائی میں اختلاف پیدا ہوا جس کے نتیجے میں پولیس فائرنگ میں ایک شہادت بھی واقع ہوئی، جس نے آپسی دشمنی کو اور بڑھاوا دیا،لیکن ابھی دو چار سال بھی نہیں گزرے تھے کہ۱۹۶۲ ء میں جامعہ کے قیام کے بعد سب لوگ میز پرایک ساتھ آمنے سامنے بیٹھ گئے، یہ مولانا عبد الحمید ندویؒ کا عظیم کارنامہ ہے، اور اس کے لئے آپ نے یہ طریقہ نکالا کہ مولانا غزالی، مولانا صادق اور مجھ پر مشتمل درجہ کو آپ نے مولانا محمد اسماعیل اکرمی ؒ (دھاکلو بھاؤ خلفو) سابق قاضی خلیفہ جماعت المسلمیں کی خدمت میں فقہ شافعی پڑھنے کے لئے بھیجا۔ مولانا قاضی اسماعیل اکرمیؒ ایک سند یافتہ عالم دین تھے، مدراس کے علماء کے پاس رہے، دارالعلوم لطیفیہ ویلور سے فراغت حاصل کی، وہ بھٹکل کے ایک مخصوص طبقہ کے نزدیک نہایت ہی محبوب تھے، اور ایک دوسرے طبقے کے نزدیک نہایت ہی ناپسندیدہ، مولانا ندوی کو جہاں کئی ایک بزرگان دین سے تعلق تھا، وہیں آپ سے بھی گہرا تعلق تھا، اور ان کے آپس میں بے تکلفی سی تھی، مولانا نے آپ سے کہا کہ ان بچوں کو پڑھائیں، معلوم ہے اس کا کیا فائدہ ہوا؟ اس سے بھٹکل میں جامعہ کی تعلیم کو زبردست استحکام نصیب ہوا، اسے اعتماد اور استناد حاصل ہوا، اب اس حلقے کے لوگ بھی جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو کہتے ہیں، اقبال آپ یہ مسئلہ بیان کریں،یہ کیوں کر ہوا؟ انہیں اعتماد ہے کہ جامعہ کے یہ فارغین مولانا اسماعیل اکرمیؒ سے پڑھے ہوئے ہیں، اگر مولانا ندوی کی یہ دور اندیشی نہ ہوتی تو جامعہ میں فقہ کی تعلیم کا اعتبار ایک حلقے کے پاس ختم ہوگیا ہوتا، یہاں کے فتاوی کو متفقہ حیثیت حاصل نہ ہوتی ، اقبال، صادق، غزالی، محسن اور جلال کس کے پاس پڑھے ہوئے؟، اچھا مولانا اسماعیل اکرمیؒ کے پاس پڑھے ہوئے، تو ٹھیک ہے،اللہ بال بال مغفرت کرے، مولانا اسماعیل اکرمیؒ بھی عربی درجات کے ان طلبہ کے آنے پر بار بار اللہ کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔کہ انہیں ان طلبہ کو دارالعلوم لطیفیہ سے فراغت کے بیس سال بعد عربی درسیات پڑھانے کا موقعہ ملا، ورنہ وہ ابتک سید علی خلفو مرحوم وغیرہ کو ریاض النسوان، سرتاج وغیرہ فقہ شافعی کی اردو کتابیں پڑھا رہے تھے۔ (اقبال صاحب بیان کرتے تھے کہ جامعہ کے یہ طلبہ جب ان کے پاس عربی درسیات پڑھنے کے لئے حاضر ہوئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہ گئے، اور فرمایا کہ آج پہلی مرتبہ بھٹکل میں میری حقیقی قدردانی ہوئی ہے۔ ع۔م)۔ مولانا اسماعیل کے پاس لوگ روحانی علاج کے لئے ، پانی پر پڑھ کر پھونکنے کے لئے بوتلیں لاتے تھے، فجر کے بعد سے ان بوتلوں کا ایک تانتا بندھا رہتا تھا، آٹھ بجے تک یہ سلسلہ چلتا،صبح ناشتہ کرکے مشما محلہ میں اپنے مکان بیت الشیخ کے اندر جاتے، آٹھ بجے سے مولانا فقہ شافعی کا درس شروع کرتے، پھر ہم نے ان سے فارسی پڑھانے کی درخواست کی تو آپ نے گلستان پڑھانا شروع کیا، دس بجے درس سے فارغ ہوکر ناشتہ کے لئے جاتے، اس وقت تک وہ نہار منہ ہوتے تھے، ہم ان سے بے تکے سوالات بھی کیا کرتے تھے، مثلا کبھی پوچھ لیا کہ، دل بہ دست کہ حج اکبر ست، از ہزاراں کعبہ ایک دل بہتر است، کیوں ہے؟۔ پھر جب مولانا نے محسن اور جلال کو بھی آپ کے پاس بھیجا تو انہیں عصر بعد فقہ پڑھانے لگے۔ مولانا ندوی نے جامعہ کے آغاز ہی میں اس کی بنیاد مضبوط کرنے کے لئے بڑی محنت کی، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عربی درسیات کے لئے کوئی استاد میسر نہیں تھا، مولانا بعض دفعہ ایک ساتھ تین تین درجات کو پڑھاتے تھے، کبھی مولانا ہم پر بھی پڑھانے کی ذمہ داری ڈالتے، مولانا کے یہاں ہمارا عمل دخل بہت تھا، کبھی ہم اساتذہ کے درجات کی تبدیلی کا مشورہ دیتے تو بات مان جاتے۔ مولوی محسن ندوی ، مولوی شفیع اورمولوی ایوب برماور کے ساتھیوں میں تھے، میں نے ہی سفارش کرکے انہیں ایک درجہ بڑھا کر اگلے درجے میں داخل کروایا تھا۔ امتحان کی تیاری میں میرا طریقہ یہ تھا کہ پڑھنے کے ایام میں خوب محنت کرتا، لیکن یہاں امتحان کی تاریخ کا اعلان ہوا تو وہاں کتابیں بند، میں نے پوری تعلیمی زندگی میں صرف ادیب ماہر کا امتحان دیتے وقت رات کو ساڑھے دس بجے تک تیاری کی، آخری امتحان ادیب کامل کے موقعہ پر اتنی بھی محنت نہیں کی۔ جب ندوے میں پڑھ رہا تھام تو مولوی عبد المجید ملپا امتحان کے دنوں میں ٹائفائڈ کے شکار ہوئے، میں ان کی خدمت میں مصروف رہا، امتحان کی کوئی خاص تیاری نہیں کی، لیکن پاس ہوگیا۔ مولانا ندوی کا کمال تھا کہ وہ بیک وقت تین تین درجات کو سنبھالتے تھے، اور باوجود اس کے ہمیشہ تازہ دم رہتے تھے، صرف ونحو اس انداز سے پڑھاتے کہ پتھر کی لکیر بن جاتے، مولانا نے ہمیں درس کے اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی پڑھایا۔ آج جامعہ کو استحکام حاصل ہے، کوئی جامعہ کے خلاف پوسٹر بازی کرے بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اس دور میں ایک آدمی بھی کچھ خلاف بولتا تو بہت فرق پڑسکتا تھا۔ ہیڈ ماسٹر عثمان حسن صاحب نے اسکول میں عربی اور دینیات کے درجات کو تقویت دینی چاہی تو، مولانا نے کہا ٹھیک ہے، میں استاد فراہم کرتا ہوں، اور انہوں نے مکتب کے استاد قافشی احمد صاحب کو جو ندوے سے پڑھ کر آئے تھے، اور سلطانی مسجد کے امام اور مکتب کے استاد تھے، اسکول بھیجدیا، اسکول شروع ہونے سے پہلے آدھ گھنٹے کی کلاس لگتی، ساتویں کے لئے قافشی احمد، آٹھویں کے لئے مولانا غزالی، نویں کے لئے میں اور دسویں کے لئے یس یم سید جعفر ماسٹر(خاموش وکیل) پڑھانے لگے۔ اس زمانے کے میرے شاگردوں میں قادرمیراں پٹیل، محتشم منڈے سائب، ڈاکٹر ضرار اکیری، اور عبد القادر باشا محمد باپو شامل ہیں، اور مولانا کی ہوشیاری دیکھئے کہ ایسی رپورٹ لکھی کہ ان کاموں کی نسبت عثمان حسن ماسٹر کی طرف کردی اور لکھا کہ عثمان حسن نے یہ کہا اور یہ کہا، منیری صاحب یہ سب کرتے تو یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن مولانا ندوی نے بڑھاپے کے عالم میں یہ سب زبردست کام کئے))۔

انجمن و جامعہ: تحریک اصلاح معاشرہ کا آغاز وتکمیل

((انجمن کی تحریک جہاں تعلیمی تحریک تھی، وہیں وہ اصلاحی تحریک بھی تھی، انجمن نے اصلاحی میدان میں بھی بہت کام کیا ہے، قیام انجمن کے وقت صورت حال یہ تھی کہ شادی کے موقعہ پر دلہے کو ریشمی لباس پہنایا جاتا تھا، طوائف اور ناچنے والیوں کو بلا یا جاتا تھا، آج ہے کسی میں یہ کرنے کی ہمت؟، آج ایسا ہوتو سنگباری ہوگی، علماء کے احکامات کا انتظار بھی لوگ نہیں کریں گے، ڈاکٹر حنیف کولا مرحوم اس وقت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ انہوں نے خود د اپنی آنکھوں سے یکھا ہے، لوگوں کو عورتیں رکھیل رکھتے ہوئے، لوگوں کو علی الاعلان اس زمانے میں اس کا علم بھی رہتا تھا، کہ کس کے پاس کون ہے؟ ۔ انجمن نے معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کیا ہمارے گھروں میں بدعات وخرافات مدتوں تک رہیں، خود ہمارے رشتہ داروں میں غوث کے نام پر ہانڈی چڑھتی تھی، مجھ سے بھی اصرار ہوتا کہ فلان مولانا صاحب بھی فاتحہ دلائی ہوئی یہ دعوت اڑاتے ہیں، میں کہتا کہ میری اماں بھی اگر کہیں تو میں اسے نہیں کھاؤں گا، الحمد للہ جامعہ کے طفیل سبھوں نے مل کرکام کیا، اور اصلاح معاشرہ کا جو کام انجمن نے شروع کیا تھا، جامعہ کے قیام سے اس کی رفتار تیز تر ہوگئی، کہ اب ان حالات کا تذکرہ بھی جھوٹا سا لگتا ہے))۔