مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۸) ۔۔۔از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

02:27PM Mon 18 Jan, 2021

جامعہ کے بعد

اللہ کا کر م ہوا کہ جامعہ سے علحدگی کے فورا بعد، مسجد فاروقی میں امامت کی ذمہ داری آپ کو مل گئی،جہاں آپ نے زندگی کے آخر ی لمحے تک تقریبا چالیس سال یہ ذمہ داری سنبھالی، اس دوران آپ نے محلے کے نوجوانوں کی اصلاح اور انہیں منظم کرنے پر توجہ دی، اور اصلاح معاشرہ کی عظیم ذمہ داری انجام دی، اس دوران فاروقی مسجد میں آپ نے بلاناغہ ماہ رمضان المبارک میں اعتکاف کرنے کا اہتمام کیا، فراغت کے بعد جب آپ جامعہ سے وابستہ ہوئے تھے، تب ہی سے وہ دینی امور جن کی ادائیگی میں مخصوص مذہبی طبقے کا انتظار کیا جاتا تھا، اس کی ادائیگی کی تربیت نوجوانوں کو دینے شروع کردی تھی ، جس کے نتیجے میں عید الاضحی کے موقعہ پر جانور کے ذبح کرنے، میت کے کفن دفن،وغیرہ معاملات میں اپنے شاگردان اور نوجوانوں کی بڑی تعداد میں تربیت کی، یہ سلسلہ آپ نے جاری وہ ساری رکھا، اس سلسلے میں آپ کی خدمات بیان سے باہر ہیں، آپ نے بلا معاوضہ لاوارث اموات اور راہ پڑی لاشوں کی تکفین و تدفین کے لئے بڑی قربانیاں دیں، آپ سڑی گلی لاشوں کو بھی جن سے تعفن کی وجہ سے بدبو نکل رہی ہوتی تھی کفنانے اور عزت و احترام سے دفنانے کے لئے بھی آگے بڑھتے اور نوجوانوں کو آگے بڑھاتے، اس خدمت میں آپ کا ساتھ دینے والی نوجوانوں کی ایک نسل تیار ہوئی۔ آپ کو جب بھی کسی جنازے کی خبر پہنچتی وہاں ضرور جاتے، فاروقی مسجد سے وابستگی کے بعد اس خدمت کے دائرہ کار کو بڑھانے کا انہیں بڑا موقعہ ملا، اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کی ہی یہی ایک خدمت آپ کو جنت کے اعلی درجات تک پہنچانے کے لئے کافی ہوگی۔ شاید اسی خدمت کا صلہ اللہ نے آپ کو اس دنیا ہی میں یہ دے دیا کہ جب کورونا کا عذاب اپنی انتہاء پر تھا، اور لوک ڈون بہت ہی سخت تھا، اگر کوئی اس مرض سے بھٹکل سے باہر مرجاتا تو اسے یہاں لانا اور اعزا و اقربا کی موجودگی میں دفنانا سخت قانون کے شکنجے میں لانے والا عمل شمار ہوتا تھا، آپ نے زندگی کے آخری ایام اسی مرض میں منگلو ر کے ایک اسپتال کےآئی سی یو وارڈمیں گذارے، لیکن جس روز آپ کی وفات ہوئی اس صبح آپکی منفی رپورٹ آئی،یہ آپ کی کرامت تھی،اگر رپورٹ مثبت آتا تو منگلور سے جنازہ لانا ناممکنات میں ہوتا، آپ کاجنازہ بڑی شان سے بھٹکل میں اٹھا، اور اسی کی خاک میں آپ کے جسد خاکی کو جگہ ملی، اس ماحول میں آپ کی نماز جنازہ تین جگہوں پر پڑھائی گئی، اور آن لائن تعزیتی اجلاس جدہ، دبی اور بھٹکل وغیرہ مختلف شہروں میں منعقد ہوئے، اور جن میں سینکڑوں اشخاص نے شرکت کی۔ اور اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ۱۹۷۸ء میں آپ مدرسہ تحفیظ القرآن بھٹکل کے قیام میں کئی ایک احباب کے ساتھ شریک ہوئے تھے، یہ بھٹکل میں پہلے پہل بچیوں کے حفط قرآن کے لئے مخصوص قائم ادارہ شمار ہوتا ہے، یہاں آپ کی بچیوں نے بھی حافظات قرآن بننے کا شرف حاصل کیا۔ مولانا عبد الحمید ندوی ؒ بڑے جلالی انسان تھے، انہوں نے بھٹکل کے علماء کو عزت نفس، اور سرمایہ داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا سکھایا تھا، اس کے نتیجے میں یہاں کے معاشرے میں جامعہ سے فارغ علماء کی بڑی قدردانی ہوئی، اور درس و تدریس سے باہر بھی اجتماعی اور معاشرتی میدانوں میں ان کا وقار قائم ہوا، اور ان کی باتوں میں وزن محسوس کیا جانے لگا، مولانا ندوی کے جن شاگردوں نے آپ کی اس روایت کو آگے بڑھایا، ان میں مولانا اقبال سر فہرست ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جامعہ سے علحدگی کے بعد انہیں صرف فاروقی مسجد کی تنخواہ پر اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنا پڑا، اور اس امتحان کی گھڑی میں  قوت لایموت پر زندگی گزارنے کی آپ نے ایک مثال قائم کی، ابتدائی چار سال آپ پر بڑے بھاری گذرے، جنہیں جان کر ان کے شاگردان بہت ملول ہوتے تھے، لیکن وہ بھی کیا کرتے؟، مادی تعاون کی پیشکشی پر ناراضگی کے خوف سے مولانا سے بات کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی تھی۔بے مایگی کے باوجود عزت نفس کے ساتھ رہنے کی یہ عادت آپ کے خون میں رچی بسی تھی، وہ ہمیشہ خوش لباس رہتے، وہ بتاتے تھے اسکول کے زمانے میں ان کے ساتھی جن کے والد کا کاروبار بحرین میں جنگ عظیم سے پہلے سے جاری تھا، اور بھٹکل کے بڑے مالدار گھرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا، ایک مرتبہ انہیں آپ کی کسمپرسی کے حالات کا پتہ چلا تو حیرت زدہ ہوکر کہنے لگے کہ ابتک ہم آپکے لباس اور وضع قطع کو دیکھ کر سمجھ رہے تھے، کہ آپ کے بھی والد باہر کسی خلیجی ملک میں رہتے ہیں۔ جامعۃ الصالحات بھٹکل میں آپ کی معاشی تنگ حالی کو دیکھ کرآپ کے بعض احباب نے سعودی عرب سے آپ کو ویزا بھیجا، یہی زمانہ تھا کہ جب جامعۃ الصالحات کی منتقلی نشاط گارڈن سے، سلطان محلے کی نئی عمارت میں ہوئی تھی، اور بانی جامعہ محی الدین منیری ؒصاحب کو اس کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے ایک عالم وفائق شخص کی تلاش میں تھے، ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ان دونوں کے تعلقات میں کوئی خاص گرم جوشی نہیں رہی تھی، ایک تو منیری صاحب زیادہ تر ممبئی میں رہتے تھے، اس وقت تلاش معاش کے لئے میں دبی منتقل ہوچکا تھا، جب مولانا کو ویزا آنے کی خبر ملی، تو بھٹکل میں اس گہر بے مایہ کی ناقدر ی کا ہمیں بڑا افسوس ہوا، اور منیری صاحب سے رابطہ کرکے انہیں مولانا کو صالحات سنبھالنے کی دعوت دینے پر آمادہ کیا، اور یہاںسے تین چار سال کے وقفے کے بعد مولانا کے دوسرے سنہرے دور کا آغاز ہوا، یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اللہ تعالی نے اس وقت یہ بات ذہن میں ڈالدی۔ پھر مولانا کی جامعۃ الصالحات میں خدمات کا آغاز ہوا، یہ صالحات کا سنہرا دور تھا،جب مولانا نے یہاں پر تعلیم پانے والی بچیوں کو فقہ شافعی کی عربی کتابیں پڑھائیں، اور انہیں مستورات سے متعلق مسائل کی آگہی دی، آپ کے ہاتھوں تربیت پانے والی استانیوں نے بعد میں صالحات میں تدریسی خدمات کے سلسلے کو جاری رکھا، اور یہاں کے تعلیمی نظام کو استحکام بخشا۔جس کے نتیجے میں بھٹکل میں اصلاح معاشرہ کی کوششوں کو بڑی تقویت ملی۔

جامعہ کی مجلس شوری میں اس دوران۱۹۸۰ء میں ناظم جامعہ اور مجلس بانیان کے رکن جناب ڈی اے اسماعیل صاحب علیل ہوئے اور نظامت کی ذمہ داریا ں اٹھانے سے معذور ہوگئے،آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے، اس وقت آپ کو ناظم اعلی، اور منیری صاحب کو ناظم جامعہ منتخب کیا گیا، ا س دوران منیری صاحب صاحب کی دلچسپی سے دستوری ترمیم ہوئی جس کے تحت مجلس شوری کے ممبران کی تعداد پچاس سے بڑھ کر پینسٹھ کردی گئی، ۳۰۔محرم ۱۴۰۳ھ۔ مطابق ۱۷؍ نومبر۱۹۸۲ء کو مجلس انتظامیہ کا نیا انتخاب ہوا،اور ممبران کے دائرہ کار کو وسعت دی گئی، خلیجی ممالک میں مقیم کئی ایک ہمدردان جامعہ کو پہلی مرتبہ مجلس شوری میں داخلہ کا موقعہ ملا، اس انتخاب کا اہم پہلو یہ تھا، کہ جامعہ میں وہ افراد بھی اس میں شامل ہوگئے جو جامعہ میں تدریس و انتظام کے شعبوں سے پہلے وابستہ رہے تھے، لیکن مختلف وجوہات سے جامعہ سے الگ ہوگئے تھے، ان میں مولانا محمد اقبال ملا،مولانا محمد صادق اکرمی، جناب محمد شفیع شابندری، اور جناب عبد القادر دامدا ابو نمایاں تھے، (مولانا شہباز اصلاحی مرحوم نے ان حضرات کی علحدگی پر کہا تھا کہ جامعہ پچیس سال پیچھے چلا گیا)، اس طرح جامعہ کے بطن سے رستے ہوئے ایک گہرے زخم کو مندمل کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی، اور اللہ تعالی نے آئندہ دنوں میں ان افراد کے ہاتھوں جامعہ کی عظیم خدمت لی۔اس موقعہ پر مولانا اقبال صاحب دو دھاری تلوار میں پھنس گئے،جن بنیادوں پر وہ جامعہ سے علحدگی پر مجبور کئے گئے تھے، ان کے ازالے کے بغیر آپ کا جامعہ کی شوری میں آنا یا کوئی عہدہ قبول کرنا انکے لئے دشوار نظر آرہا تھا، لہذا انہوں نے ارادہ کیا کہ اس سلسلے میں سرپرست اعلی جامعہ حضرت مولانا ابرارالحق حقی رحمۃ اللہ علیہ سےرجوع کریں، کیونکہ یہ فیصلہ آپ کی سرپرستی میں ہوا تھا،شوری کی رکنیت کے سلسلے میں آپ نے اپنے ایک خیر خواہ جناب کولا حسن وڑاپا صاحب سے مشورہ کیا، تو وڑاپا صاحب نے رائے دی کہ اس صورت میں سرپرست اعلی جامعہ مولانا ابرار الحق ؒ کے پاس آپ کی عزت بڑھ جائے گی، لیکن اس سے آپ کے سامنے جامعہ کے ذمہ داران او ر شوری کی عزت گھٹ جائے گی، چونکہ جامعہ کی عزت انہیں اپنی جان سے عزیز تھی، لہذا انہوں نے وڑاپا صاحب کے مشورہ کو قبول کیا، جس کے دیرنیہ مثبت اثرات مترتب ہوئے۔ اپنے اسی موقف کے سلسلسے میں مولانا اقبال صاحب نے مورخہ ۸؍ مئی ۲۰۰۸ء میں ابنائے جامعہ کی ایک خصوصی نشست کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا کہ: ((یہ صفت خاص میری نہیں مولانا صادق یا شفیع ماسٹر کی نہیں، بلکہ ہمارے گاؤں والوں کی صفت ہے، ۱۹۷۷ء میں ہم لوگ جامعہ سے الگ ہوئے، یہ الگ ہونا انتظامی طور پر تھا،لیکن دل وجان سے الگ نہیں ہوئے تھے، یہ بڑی خوبی ہے، صرف ہماری ذاتی نہیں بلکہ یہ ہماری پوری قوم کی ہے، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں یہی وصف آپ میں رہنا چاہئے، ہم سے یہ وصف کسی وجہ سے بھی نکلنے نہ پائے، ہم الگ ہوئے، لیکن جامعہ پر ہمارا کوئی غصہ نہیں تھا، دو چار سال میں ہم شوری میں شامل ہوگئے، یہاں جو احباب موجود ہیں،ان میں جامعہ کے سابق مہتمم مولانا فاروق قاضی ندوی صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں، ان سمیت زیادہ تر احباب کو یہ سب معلوم ہی نہیں، مشکل سے دوتین افراد کو اس سلسلے کی چند ایک باتیں معلوم ہونگی۔ان حالات کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ مقدر میں یہی کچھ لکھا تھا، کوئی یہ نہیں چاہتا تھا، لیکن ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر ان میں سے کسی نے جامعہ سے ناطہ نہیں توڑا))۔ جاری۔۔۔ https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/