مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۹) ۔۔۔از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:31PM Wed 20 Jan, 2021

بین الجماعتی کانفرنس میں صلاحیتوں کا ظہور

فروری ۱۹۸۹ء میں کالیکٹ میں تنظیم کے زیر سرپرستی اور محی الدین منیری صاحب کی کنوینر شپ میں تاریخی بین الجماعتی کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں مولانا اقبال صاحب اور دیگر فارغین جامعہ کی صلاحیتوں کو خوب ابھر نے کا موقعہ ملا، اور جس سے معاشرے پر علماء کرام کی گرفت مضبوط ہوئی، اور جامعہ کی قدر منزلت بڑھی، کانفرنس میں منظور شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک نگران کونسل تشکیل دی گئی، مولانا اقبال صاحب کو اس باوقار کونسل کا کنوینر منتخب کیا گیا، جس کو کامیاب بنانے کے لئے آپ نے بڑا فعال کردا ادا کیا۔ اس موقعہ پر بنائی گئی نہی المنکر کمیٹی میں بھی آپ متحرک رہے۔ مولانا نے جامعۃ الصالحات میں۱۹۹۰ء تک ایک عشرہ خدمات انجام دیں۔اس کے بعد پھر معاشی حالات ۱۹۷۷ء کی ڈگر پر لوٹ گئے۔ بلکہ اس سے مزید بد تر ہوگئے ، اس دوران آپ کی چھ بچیاں بھی سیانی ہورہی تھیں، اور اہل وعیال کی ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی تھیں، جنہیں آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا، اور کہیں بھی عزت نفس کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا، یہ ایسے حالات نہیں تھے کہ ان کا آپ کی صحت پر اثر نہیں پڑتا، لہذا بلڈ پریشر، شوگر اور دوسری بیماریوں نے جسم میں ٹھکانا بنادیا، جن سے آپ کی آنکھیں بھی متاثر ہوئیں، لیکن آپ نے اپنے اصول اور معمولات ترک نہیں کیا، استاد الاساتذہ مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ کے بھٹکل والوں پر بڑے احسانات ہیں، لیکن ان میں آپ کا یہ احسان ہی انہیں دلوں میں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں پر علمائے دین کے لئے خلفو کا لقب رائج تھا، اور سرمایہ دارانہ ماحول میں انہیں چند مذہبی رسومات اور جھاڑ پھونک تک محدود کرکے معاشی طور پر بدحال اور قلاش کردیا گیا تھا، آپ نے آنے والے علماء کی نسل میں عزت نفس پیدا کی، مولانا ندوی یوں تو بھٹکل کے نہیں تھے، وہ باہر سے آئے تھے، لیکن ان کے جاہ وجلال اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے سرمایہ دار ان سے آنکھیں ملا تے ہوئے گھبراتے تھے، مولانا نے اپنے شاگردوں کے خون میں یہی صفت کوٹ کوٹ کربھردی تھیں، جس کے نتیجے میں یہاں کی معاشرت میں علماء کو جو مقام ملا، اس کی مثالیں وطن عزیز میں شاذ ونادر ہی ملتی ہیں۔

کتب خانہ جامعہ

۔۱۹۸۲ء میں جب منیری صاحب دوبارہ ناظم منتخب ہوئے تو آپ کو جامعہ آباد میں ایک لائبریری کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی،اوراس دور میں۔۔کتب خانے کی عالیشان عمارت کھڑی ہوگئی، اس وقت اس ناچیز کی مجلس شوری میں بحیثیت رکن شمولیت ہوچکی تھی، منیری صاحب۱۹۸۴ء میں جب دبی آئے تو انہوں نے ایک سرپرست کی حیثیت سے اس ناچیز کو ہدایت کی کہ اتنی بڑی لائبریری کی عمارت میں صرف دو تین کتابوں کی الماریاں ہیں، جو بہت معیوب لگتی ہیں، اللہ نے تمہیں کتابوں کا ذوق دیا ہے ، یہ تمہارا میدان ہے، ضروری کتابوں سے کتب خانے کو مزین کرنے کی یہ ایک ذمہ داری اپنے سر پر لے لو، اپنے محسن اور سرپرست کی ہدایت کو اس ناچیز نے سر آنکھو ں پر لینا باعث عزت سمجھا، اللہ نے بھی توفیق دی، انہی دنوں شارجہ بک فیر کا سلسلہ شروع ہوا تھا، ابتدائی ایک دوسال برادری کے چند افراد سے کچھ تعاون ملا، پھر کچھ اپنے محدود وسائل اور کچھ مخصوص احباب کے تعاون سے یہ سلسلہ چل نکلا۔جامعہ کے آغاز میں گوائی منزل، سوداگر بخار اور جامع مسجد میں مستقل کتب خانے کے لئے جگہ میسر نہیں تھی، اس زمانے میں ابو محل،بستی روڈ کے پیچھے مکان میں جہاں مولانا عبد الحمید ندوی ؒ قیام پذیر تھے، ایک دو الماریاں رکھی ہوتی تھیں، جن میں سید میراں خلفو کی متروکہ الصراح جیسی چند کتابیں، اور دارالمصنفین کی کئی ایک کتابیں موجود تھیں، اس زمانے میں مختار احمد جاوید مرحوم مکہ مکرمہ میں رہتے تھے ، جامعہ سے آپ کا دیرینہ تعلق تھا،وہ سعودیہ سے بھٹکل کے عازمین حج سے جمع کرکے چند ایک کتابیں بھیجنے کا اہتمام کرتے تھے، لیکن ۱۹۷۶ء میں جب جامعہ سے ان کا ربط وتعلق ویسا نہیں رہا تو پھر یہ سلسلہ بھی رک گیا، پھر اس کے بعد جامعہ بحرانی کیفیت کا شکار ہوا، اور جامعہ کے کتب خانے میں کتابوں کی فراہمی پر خاطر خواہ توجہ نہیں ہوسکی، اورچند سال کے اندر چند ایک کتابیں جو بچیں تھیں وہ بھی بدنظمی سے خراب اور برباد ہوکر کام کی کتابیں چند ایک ہی باقی رہ گئیں تھیں، ابتدا میں جب کتب خانے کی عمارت تعمیر کی جارہی تھی، تو اس میں مہمان خانے کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھا گیا تھا، حالات اور وسائل کی حالت ہی کچھ ایسی پتلی تھی۔ مولانا جب تدریس سے وابستہ تھے تو طلبہ میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنے میں بڑی دلچسپی لیتے تھے، وہ پیٹ کاٹ کر کتاب خریدنے کے عادی تھے، لیکن ابتدا میں ان کا مزاج کتابیں جمع کرنے کا نہیں تھا، وہ اپنی کتابیں طلبہ پر تقسیم کیا کرتے تھے، وہ کتابیں ابتدا تا آخر پڑھنے کے بجائے جستہ جستہ پڑھنے کے عادی تھے، ۱۹۶۶ء میں میرے پھوپھا مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی، قاضی شہر بھٹکل کا انتقال ہوا، کتاب دوستی میں ان کا اور ان کے برادر خورد مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ؒ کا ثانی بھٹکل ہی میں نہیں دور دور تک نظر نہیں آتا، شریف اکرمی نے اپنے بعد قیمتی اور نادر کتابوں کا وسیع ذخیرہ چھوڑا، پتہ نہیں ناسمجھی کی عمر میں کیسے اس ناچیز کو آپ کی رحلت کے بعد ان کتابوں دیکھ ریکھ کرنے اور ان سے کیڑے مکوڑے صاف کرنے کا شوق چرًایا، میں درجے میں مولانا اقبال کو اکرمی منزل میں ں دیکھی ہوئی کتابوں کے نام سنواتا، اس زمانے میں فتح الباری، المجموع شرح المہذب، فتح الملہم ، ارشاد الساری جیسی بہت ساری کتابیں پڑھنے کو کیا، دیکھنے کو بھی لوگ ترستے تھے، کبھی کبھی مولانا ان کتابوں کو اکرمی صاحب کے ذخیرے سے لانے کو کہتے، اور طلبہ کے سامنے ان کا تعارف کیا کرتے، جب کتب خانے میں ضروری مراجع اور کتابوں کی فراہمی کا زیادہ تر کام اللہ تعالی نے اس ناچیز سے لیا، تو جن شخصیات نے اس کام میں سب سے زیادہ دلچسپی لی، اور ہمت بڑھا ئی، ان میں آپ سر فہرست تھے، اس کے بعد مولانا نے اپنی ذاتی کتابیں جمع کرنے پر توجہ دینی شروع کی ، اور کتابوں کا ایک منتخب اور قیمتی ذخیرہ جمع کیا۔ مولانا کو جدید ایجادات اور وسائل کی معلومات حاصل کرنے میں ہمیشہ دل چسپی رہی ،اس دلچسپی سے انہوں نے اس طالب علم کو محروم نہیں کیا ، جب ہم نے نادر کیسٹوں کے جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو اہتمام سے ان کی معلومات حاصل کرنے کی فکر کرتے رہے،ذاتی طور پر وہ معاشرے میں فوٹو کے انتشار اور جلسوں وغیرہ میں اس کے ذریعہ خلل اندازی پر بہت ناراض ہوتے تھے، باوجو د اس کے وہ ہم سے نادر ویڈیو ز کے بارے میں معلومات لیتے رہتے تھے، اور ان کی کاپیاں بھی طلب کرتے تھے، آج سے بیس سال قبل جب بھٹکلیس ڈاٹ کام کا آغاز کیا گیا، اور اس میں آڈیوز، اور ویڈیوز کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اس کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتے رہے، اوراس دوران ہمارے قلم سے جو تحریریں نکلیں ان میں سے شاید ہی کوئی تحریر ان کی نظر سے بچی ہو، اور جسے آپ نے حرف بہ حرف پڑھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہ کیا ہو، یہ ان کا بڑکپن تھا،اور ہم جیسوں کو کچھ لکھنے پر آمادہ کرنے کا ایک سبب۔ گذشتہ بیس سال کے دوران جب الکٹرونک کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس میں انہوں نے بڑی دلچسپی لی، اور بڑی پابندی سے مجھ سے الکٹرونک لائبریریاں طلب کرتے رہے، اورمیرے ارکائیوز سے الکٹرونک لائبریری سے وابستہ کوئی ایک چیز ایسی نہیں چھوڑی ، جسے انہوں نے نہ لیا ہو، اس سلسلے میں ان کے ساتھ کبھی ہمارے مکان پر کبھی ان کے یہاں رات کے بارہ ایک بجے تک ساتھ بیٹھنا ہوتا، میرے سفرسے واپسی کی شب عموما دیر گئے تک اس سلسلے میں وہ ہمارے گھر پر ہوتے تھے، میری والدہ رشتے میں ان کی عزیزہ تھیں، انہوں نے اس رشتہ داری کو خوب نبھایا، میرے ماموں قاسم حافظ بھی ان کے خاصان خاص لوگوں میں تھے۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/