مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۶)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

06:43PM Mon 11 Jan, 2021

جامعہ میں تدریسی خدمات مولانا اقبال صاحب کاتعلق اسی تکیہ محلے سے تھا جہاں اس ناچیز نے بھی آنکھیں کھولی تھیں،ایک لحاظ سے وہ میرے عزیز بھی لگتے تھے، ان کی دادی اور میرے نانا دونوں کا حافظ خاندان سے تعلق تھا، وہ رشتے میں میرے نانا کی چچا زاد بہن تھیں، اس زمانے میں یہ رشتے بہت قریب لگتے تھے، جس حافظ منزل میں ہم رہتے تھے کبھی وہ آپ کا آبائی مکان تھا، اس ناطے مولانا کو ہم نے بچپن سے اس وقت دیکھا تھا جب کہ ابھی آپ کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، سوداگر بخار میں واقع مکتب جامعہ میں ۱۹۶۳ء میں جب باقاعدہ درجات لگنے شروع ہوئے، تواسی سال میرا بھی جامعہ میں داخلہ ہوا تھا، تو اس وقت وہ جامعہ کے سینیر طالب علم تھے، اس وقت آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الحمید ندوی کے علاوہ حافظ محمد اقبال ندوی شامل تھے، ایک دو سال بعد جب جامعہ اسلامیہ شہر کی جامع مسجد میں منتقل ہوا، تو وہ وہاں بھی پڑھتے رہیں، انہی دنوں مولانا حافظ رمضان ندوی جامعہ میں تقرری ہوئی تھی، اور ایک سال بعد آپ کو جامعہ کی کفالت پرحضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے پاس دورہ حدیث کے لئے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور بھیجا گیا، لیکن اتفاق سے اسی سال حضرت شیخ الحدیث ؒ نے تدریس سے سبکدوشی اختیار کی، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ سے دورہ حدیث مکمل کیا، ۔ ۱۹۶۷ء میں جب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے، اس وقت مولانا اقبال صاحب ندوۃ العلماء میں عالمیت کے آخری درجے میں تھے۔ اور جب ۱۹۶۸ء میں آپ فارغ ہوکر جامعہ سے وابستہ ہوئے تو جامعہ ایک بحران کی زد میں تھا، محسن قوم مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ جامعہ چھوڑ کر اپنے وطن جیسکھ پور واپس لوٹ چکے تھے،اس دوران مولانا یعقوب بیگ ندوی ؒ کا بحیثیت مہتمم تقرر ہوا، اس دور میں ایک عجیب واقعہ ہوا، ہمارے ایک رفیق درس جو اسکول میں ساتویں پڑھ کر ہمارے ساتھ پنجم جماعت میں شامل ہوئے تھے، وہ درجہ میں بہت فائق تھے، جب ہم درجہ ششم یا عربی اول میں داخل ہوئے تو یعقوب صاحب نے ہمارے اس ساتھی کو ترقی دے کر عربی دوم میں داخل کردیا، اس ترقی پر کئی ایک طلبہ نے احتجاج کیا، جس کے نتیجہ میں مہتمم صاحب نے سبھی درجات کے طلبہ کو ترقی دے کر اگلی جماعت میں بھیج دیا، لہذا ہماری قسمت میں بھی عربی اول کی تعلیم مکمل کئے بغیر عربی دوم میں جانا لکھ دیا گیا۔اور مہتمم صاحب بھی چھ ماہ مکمل کرکے روانہ ہوگئے،مرے کو مارے شاہ مدار، تعلیمی معیار کی جو حالت ہونی تھی، ہوکر رہی،پھر چار سال تک جب کہ مولانا ارشاد علی ندوی مرحوم نے اہتمام نہیں سنبھالا، قائم مقام مہتمم کی حیثیت سے قاضیا ابو الحسن ماسٹر مرحوم اور محی الدین ہاویری ماسٹر نے ذمہ دارایاں سنبھالیں، اول الذکر بڑی عمر کے اور دائم المرض تھے، اس دوران تجربہ کار عربی مواد کے اساتذہ کا بھی جامعہ میں کال پڑ گیا، نئے نئے فارغ التحصیل افراد میں سے مولانا عبد العلیم قاسمی، مولانا غزالی خطیبی، دو چار ماہ اور مولانا اویس مدنی صاحب نے ایک سال پڑھایا، یہی وقت تھا جب مولانا اقبال صاحب جامعہ میں تدریس سے منسلک ہوئے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ عربی نصاب پڑھانے کا سب سے زیادہ بوجھ آپ ہی پر پڑا، مولانا بھی تدریس میں بالکل نئے تھے، زیادہ بوجھ آپ پر پڑا، مولانا بھی تدریس میں بالکل نئے تھے، عربی نصاب پڑھانے کا انہیں بھی تجربہ نہیں تھا، لیکن حق تدریس ادا کرنے کے لئے آپ نے بے انتہا ء محنت کی، آپ کہتے تھے کہ:۔ ( متن الغایۃ والتقریب) جیسی ابتدائی کتابیں پڑھاتے وقت انہوں نے رات کو بارہ بارہ بجے تک محنت کی تھی۔ یہ کتاب اور اس کے بعد( عمدۃ السالک وعدۃ السالک) ہمیں آپ سے پڑھنے کا موقعہ ملا تھا، ا س وقت مولانا کی کوشش ہوتی تھی کہ طلبہ میں شوق پیدا کرنے اور موضوع سے مناسبت پیدا کرنے کے لئے تمام وسائل استعمال کریں، لہذا جب عمدۃ السالک میں کتاب الحج پڑھا رہے تھے، تو آپ نے شیخ بن باز کے امام نووی کی ایضاح المناسک کے کئے ہوئے خلاصہ کا اردو میں ترجمہ تیار کیا تھا، او رالبلاغ ممبئی میں مولانا مفتی شفیع رحمۃ اللہ کے میقات حج اور یلملم کی حیثیت کے بارے میں جو سلسلہ مضامین شروع ہوا تھا، انہیں اور بن باز کی کتاب کے ترجمہ کو طلبہ سے نقل کروایا۔ مولانا کو تاریخ و جغرافیہ سے بڑی دلچسپی تھی، اس ناطے آپ کو ارض مقدسہ، یہاں کے تاریخی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھے کرنے میں بڑی دلچسپی تھی، اسی ناطے وہ طلبہ سے اٹلس کی بنیاد پر ملکوں ملکوں کے نقشے بنواتے، لہذا جب وہ پہلی مرتبہ سفر حج پر روانہ ہوئے، تو وہاں پر برسہا برس سے مقیم اور عشروں سے پابندی سے فریضہ حج ادا کرنے والے ہمارے بعد عزیزوں کو ہم نے کہتے سنا کہ مولانا جب حج پر پہلی مرتبہ تشریف لائے تھے تو مکہ و مدینہ، مسجد حرام و مسجد نبوی سمیت حرمیں شریفین کا ہاتھ میں نقشہ لے کرچپہ چپہ چھان مارا تھا، اور جب یہاں کے قدیم باسیوں کو ان مقامات کی معلومات دیتے تو ایسا لگتا کہ مولانا نے سالہا سال یہاں گذارے ہیں ،ان کے سامنے ہم کورے نظر آتے۔ اسی طرح آپ نے دوران تدریس فقہ شافعی کے نوٹس تیار کئے تھے، جنہیں آپ کے بعض شاگردان نے بنیاد بنا کر فقہ پر کتاب تیار کی جو مقبول ہوئی، مولانا ہر فن مولا تھے، اور طلبہ میں ذوق شوق دلانے اور ہر باغ سے پھول چننے کے ماہر، آپ نے ہمیں اس زمانے میں ہندی کی کتاب ہماری پوتھی کا حصہ اول اس طرح پڑھایاتھا کہ ہمیں ہندی لکھنا پڑھنا آگیا تھا، اس زمانے میں ہفتہ وار کانتی دہلی میں ہندؤوں کی کتابوں میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیشین گوئیوں پر مبنی بنارس کے ایک پنڈت کا مضمون ((کلکی اوتار اور محمد صاحب)) چھپنا شروع ہوا تھا، تو مولانا نے ان مضامین کو طلبہ سے پڑھوایا، کتابوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب نان شبینہ کو محتاج تھے، تب بھی کتابیں خرید کر پڑھتے تھے، اس زمانے میں جب ابناء غلام رسول سورتی بمبئی سے کتاب الام، تحفۃ المحتاج، مرقاۃ المفاتیح، اور دیوبند سے تفسیر روح المعانی جیسی نادر کتابیں قسط وار چھپنے لگیں تو انہیں خریدنے اوردوسروں کو ان کی خرید پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں ، وہ البعث الاسلامی اور مختلف مجلات کے خریدار تھے، اور ان میں شائع ہونے والے سلسلسہ وار مضامین کو علحدہ کرکے کتابی شکل میں محفوظ کرتے تھے، ہمیں یاد ہے کہ آپ نے مولانا مسعود عالم ندوی ؒ کی نادر کتاب اشتراکیت اور اسلام کے عربی ترجمہ کو مجلہ سے علحدہ کرکے مجلد کتاب کی شکل میں ہمیں عطیہ کی تھا، مولانا عبد الحمید ندوی ؒ اور آپ کے اس شاگرد نے طلبہ کو درسیات اتنی محنت سے پڑھائیں، اور ان سے اتنی محنت لی کہ آئندہ اس فن کی کئی ایک کتابیں نہ پڑ ھ سکنے باوجود اس محنت نے کئی ایک کتابوں سے مستغنی کردیا تھا۔ مولانا کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی اہم شخصیت دنیا سے اٹھ جاتی تو، طلبہ کے سامنے ان کے حالات بتانے کا اہتمام کرتے،حضرت شاہ وصی اللہ خلیفہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اسباط صاحب شاگرد عین القضاۃ، محترمہ خیر النساء وغیرہ کی رحلت پر ان کے حالات زندگی آپ کی زبانی سننا ابتک یاد ہے۔ مولانا کے تفقہ کی دھاک ابتداہی میں بیٹھ گئی تھی، کیونکہ مولانا کے مزاج میں کسی مسئلہ میں گہرائی تک پہنچنے کے بعد واضح انداز سے اسے پیش کرنے کی عادت تھی، وہ مطالعہ بھی بڑی محنت سے کرتے تھے، اور غور خوض کے بعد اپنی بات حتمی انداز سے پیش کرتے تھے، لیت ولعل ان کے یہاں نہیں تھا، ۱۹۷۳ء میں بھٹکل کی ایک شخصیت عبد القادر جیلانی محتشم کٹک صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ سفر حج پر روانہ ہوئے تھے، حج شروع ہونے سے کچھ پہلے ریاض الجنۃ (مسجد نبوی) میں بحالت سجدہ رحلت واقع ہوئی، اب ان کے اہل وعیال پریشان تھے کہ ان کی اہلیہ کو اب سفر حج جاری رکھنا چاہئے یا عدت میں بیٹھ جانا چاہئے، مختلف علماء نے الگ الگ جوابات دئے، لیکن مولانا نے اس وقت فیصلہ کن انداز میں فتوی دیا کہ وہ حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرکے واپس آئیں۔ اس فتوے کی بڑی شہرت ہوئی، اس سے مرحوم کے عزیزوں کو اطمئنان قلب حاصل ہوا، یہ گویا مولانا کے فتاوی پر عامۃ الناس کے اعتماد کا آغاز تھا۔مولانا کہا کرتے تھے کہ ((عامۃ الناس جب کوئی مسئلہ پوچھنے آئیں، تو انہیں حتمی رائے دے کر مطمئن کریں، گول مول،شاید وغیرہ کہ کر انہیں شش وپنج میں نہ ڈالیں،مسئلہ اگر معلوم نہیں ہو تو صراحت سے کہ دیں کہ مجھے معلوم نہیں دیکھ کر بتلاتا ہوں))، اس سلسلے میں وہ ندوے میں اپنے استاد مولانا بشیر حسین کا تذکرہ کیا کرتے تھے، مولانا بڑے اساتذہ میں شمار ہوتےتھے، صحیح بخاری کے علاوہ انہوں نے سبھی حدیث کی بڑی کتابیں پڑھائی تھیں، وہ ہمیں موطا امام مالک پڑھاتے تھے، وہ فرقانیہ لکھنو میں بھی استاد رہے تھے، لیکن جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو کہتے شاید ایسا ہے، شاید امام ابو حنیفہؒ کے پاس ایسا ہے، شاید امام مالک کے پاس ایسا ہے، پھر مجھ سے دریافت کرتے کہ شافعیہ کے یہاں کیا ہے؟۔ غالبا مولانا علی میاں رحمۃ اللہ کو آپ کی کوئی شکایت پہنچی، ہمارے درجے میں تفتیش کے لئے آکر بیٹھے، اور دوسرے روز انہیں منتقل کردیا، ان کے جانے سے طلبہ کے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے،یہ کہنے میں شاید مبالغہ نہ ہو کہ مولانا عبد الحمید ندوی ؒ کے بعد آپ انعام خداوندی بن کر آئے، اور مشکل ترین حالات میں جامعہ میں دینی تعلیمی نظام کو سنبھالا دیا، اور جامعہ کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے بڑی قربانیاں دیں، لہذا آئندہ آنے والی جامعہ کے طلبہ وفارغین کی نسلیں آپ کی مرہون منت رہیں گی۔ https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/