مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(آخری قسط)۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:47PM Tue 26 Jan, 2021

بحیثیت چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل

بھٹکل کو جو فقہ شافعی کے نمایاں مرکز کی جو حیثیت حاصل ہوگئی ہے، اس میں مولانا کی کوششوں کا بھی کلیدی کردار رہا ہے، آپ اپنے دور کے عظیم فقیہ تھے،مولانا کا احساس ذمہ داری اور قوت مشاہدہ بہت تیز تھے، جس کی ایک قاضی کو ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اس کا انداز ہ اس بات سے لگائیں کہ دبی میں مولانا کے مخلصین کی مدت سے خواہش تھی کہ آپ ایک مرتبہ یہاں کا دورہ کریں، لیکن مولانا نے اپنے پہلے سفر حج کے بعد پاسپورٹ کی تجدید ہی نہیں کی تھی، ان کا ارادہ نئے پاسپورٹ پر صرف حرمین شریفیں کی زیارت کا تھا،لیکن دبی کی جماعت نے طے کیا کہ اس کے ماتحت مرکز تحفیظ القرآن کے طلبہ کا ایک پروگرام رکھا جائے ، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے آپ کو دعوت دی جائے، لیکن مولانا کچھ نہ کچھ بہانے کرکے اسے ٹالتے رہے، ہم لوگ اس ٹوہ میں تھے کہ مولانا کا پاسپورٹ کب آتا ہے؟ یہاں خبر ملی وہیں مولانا کے گھر ایک فرد کو بھیجا کہ مولانا کا ویزا نکالنا ہے، پاسپورٹ کی کاپی کی ضرورت ہے، مولانا کو پاسپورٹ آنے کی شاید ابھی اطلاع بھی نہیں تھی، خوش قسمتی سے اسی روز ویزا منظور ہوگیا، اب اطلاع ملنے پر مولانا نے بہت عذر کئے، اور ہمیں احساس دلایا کہ وہ فاروقی مسجد میں ملازم ہیں، ان کی وہاں پر بہت چھٹیاں ہوچکی ہیں، لہذا مسجد والے کوئی ایک چھٹی دیں گے، عمرہ کی یا دبی کی، اس وقت عبد المطلب شینگیری مرحوم مسجد کے سکریٹری تھے، انہیں بتایا گیا کہ جماعت کی دعوت پر ہم مولانا کو بلانا چاہتے ہیں، اور مولا نا عذر کررہے ہیں، عبد المطلب صاحب نے مولانا سے با ت کی اور مئی ۲۰۰۸ء میں مولانا نے دبی کا سفر کیا ، لوگوں نے ہم سے کہا کہ مولانا شہر کے ذمہ دار دینی شخصیت ہیں ، انہیں الٹی سیدھی چیزیں اور مقامات نہ دکھائے جائیں، لیکن ہم نے مولانا کو یہاں کے جملہ مقامات دکھائے، جس پر مولانا نے تبصرہ کیا کہ کوئی دس سال قبل ان کا جدہ جانا ہوا تھا، وہاں انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی ایک کلومیٹر دور کوئی خاتون سیڑھی سے تنہا اترتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہے، اجنبی نگاہیں ، حجاب میں بھی انہیں تکتی رہتی ہیں، حالانکہ وہاں کے قوانین بہت سخت ہیں، اس کے مقابلے یہا ں پر ننگ ڈھرنگی عورتیں گھوم پھر رہی ہیں ، لیکن یہاں پر ان پر نظر یں اٹکائے ہوئے لوگ نظر نہیں آتے، عورتیں یہاں خوف محسوس نہیں کرتیں، مولانا نے پہلے کبھی اپنا جبہ اور لنگی نہیں چھوڑا تھا، یہاں انہیں پہلی مرتبہ عربی لباس (کندورہ) پہننے پر مجبور کیا گیا، اور پھر آپ نے جبہ یا قمیص دوبارہ نہیں پہنی، پھر ہمیشہ کندروہ ہی میں رہے، مولانا نے کبھی اپنی بات چیت ریکارڈ کرنے نہیں دی، لہذا ان کا کوئی انٹرویو ریکارڈ نہ ہوسکا، جب دبی آئے تھے، تو تحفیظ القرآن کے مسابقہ میں جو تقریر کی ، اور ۸؍مئی ۲۰۰۸ ء کو ابنا ئے جامعہ کے سامنے اپنے حالات زندگی کے چند پہلؤوں پر روشنی ڈالی ، یہ ایک دستاویز بن گئے ہیں ، اس مضمون میں جو عبارتیں قوسین میںہیں آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں، یہ اسی تقریر سے نقل کی گئی ہیں۔ جماعت المسلمین بھٹکل کے قاضی مولانا محمد احمد خطیبی مرحوم کی خواہش رہی کہ ان کی زندگی میں مولانا محکمہ شرعیہ میں کوئی ذمہ داری سنبھالیں اور فقہی مسائل اور تنازعات کے حل میں آپ کا تعاون کریں، مولانا نے جماعت المسلمین کی تقویت کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کیا تھا، لیکن محکمہ شرعیہ میں کو ئی عہدہ قبول کرنے سے ہمیشہ انکاری رہے، ۲۰۰۹ء میں جب قاضی خطیبی صاحب کی رحلت کا واقعہ پیش آیا تو اس عہدے کے لئے شایان شان شخصیت کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی، اس سلسلے میں مخلصین کی نظر آپ پر تھی، لیکن مولانا تھے کہ پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتے تھے، اس حساس موقعہ پرمولانا کے مخلصین نے آپ کو قائل کرنے کے لئے بہت زور لگایا،اور توفیق یزدی سے مولانا نے یہ عظیم ذمہ دار ی آخر قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی، مولانا نے قضاء کے اس عہدے کو عزت اور وقار بخشا، اسے قوم میں اتحاد اور وحدت کی علامت بنایا، آپ کے دور میں رویت ہلال کے سلسلے میں بعض دور رس فیصلے ہوئے، جن میں کالیکٹ کے کاپاٹ ساحل اور چنئی کے مطلع کو قبول کرنا، اور یہاں کی رویت کو قبول کرنا شامل ہے، جس کے نتیجے میں آپ کے دور میں رویت ہلال ، رمضان اور عید کے سلسلے میں کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔

مجلس العلماء بھٹکل

مولانا محمود خیال مرحوم اپنے وقت کے اکابر علماء میں تھے، انجمن میں میں ہمارے جن علماء نے تعلیم پائی وہ ان کے استاد رہے، آپ کی سرپرستی میں بھٹکل میں درپیش علمی و فقہی مسائل کے حل کے لئے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے نصف اول میں علماء کی ایک مشورتی کمیٹی مجلس العلماء کے نام سے تشکیل پائی تھی جس کے مولانا اقبال صاحب بھی متحرک تھے، ہر ہفتے علوہ محلہ میں اس کی مشاورتی نشستیں ہوتی تھیں۔ان مجلسوں میں مولانا خیال مرحوم کے شاگردوں میں سے مولانا قاضی محمد شبیر اکرمی، مولانا علی سکری اکرمی، وغیرہ پابندی سے شریک ہوتے تھے، زمانہ ہوا یہ سبھی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، آج سے دو تین سال قبل فقہ شافعی اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اس کی بھر پور ہمت افزائی کی ، اس کی سرگرمیوں میں شریک رہے، اور اس کے سرپرست بھی رہے۔ یہ مولانا کی خوبی تھی، کہ مرتے دم تک جامعہ سے نکلنے والی تمام نسلوں کا آپ سے ربط وتعلق رہا، اور آپ کے مشوروں سے وہ انہیں نوازتے رہے، ابنائے جامعہ اور مولانا ابو الحسن اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی آپ سرپرستی کرتے رہے، اور ہمت بڑھاتے رہے، پہلے حضرت مولانا ابر ابرالحق رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر رہے، پھر سرپرست جامعہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم سے اصلاحی تعلق قائم کیا، اور حضرت نے اپنے اس شاگرد کو خلافت سے بھی نوازا۔ مولانا اس طرح ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ہیں، کہ محسوس ہوتا ہے ایک ایسے چھتناور درخت کا سایہ سر پرسے اٹھ گیا ہوجس سے مسافروں کو ٹھنڈک ملتی تھی، او ر انہیں جھلساتی دھوپ میں چھوڑ دیا گیا ہو، ہمارا وطن جانا ہوتا، تو اہل وعیال سے ملاقات کے بعدآپ سے ملاقات کی فکرسب سے پہلے دامنگیر ہوتی، اور جب تک قیام رہتا ، روز دورز کے وقفے سے شام ڈھلے آپ کے ساتھ وقت گذرتا، چونکہ وہ دیر سے سونے کے عادی تھے، تو ان کے گھر پر شام کے کھانے کے بعد جانے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا تھا، ان سے ملتے تو قدردانی اور عزت افزائی کا احساس ہوتا تھا، اب ان کی یاد سے آنکھیں بھر آتی ہے، وہ ایک مدبر انسان تھے، مشکل معاملات میں ان کے مشورے کارگر ہوا کرتے تھے، اب ہمارا وطن جانا ہو تو ایک خلا سا محسوس ہوگا، اور نگاہیں اپنے ایک عظیم مشفق اور محسن کی متلاشی ہونگی ۔جن کی باتیں دلوں کو ٹھنڈک دیتی تھیں ،اور جب محسوس ہوگا کہ ایک ایسی شخصیت کو ہم نے بھی دیکھا ہے تو سر فخر سے بلند ہوگا، کہ ہم نے بھی اقبال او رسربلندی کا نمونہ دیکھا تھا، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔اللھم اغفر لہ وارحمہ۔ ) اس مضمون میں جو باتیں مولانا اقبال صاحب کی طرف منسوب ہیں ، وہ مولانا کی دبی میں ۸ ؍مئی ۲۰۰۸ء کو ابنائے جامعہ کے اجلاس میں ہوئی تقریر، اور جامعہ اسلامیہ کی رودادوں سے ماخوذ ہیں( 2020-11-19 https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/