مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۵)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:02PM Thu 7 Jan, 2021

 دارالعلوم ندوۃ العلماء میں

مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ نے جامعہ کے اس اولین درجے کے طلبہ پر حد درجہ محنت کی، اور تین سال تک مسلسل دن رات ایک کرکے انہیں اس قابل بنایا کہ اس اولین درجے نے۱۹۶۶ء میں جب جامعہ کا نصاب مکمل کرکے د ارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا تو درجہ میں شامل ان تینوں طالب علموں کا داخلہ عربی ہفتم میں ہوا، اور دو سال تعلیم پا کر ان تینوں طلبہ نے یہاں سے درجہ عالمیت کی سند حاصل کی اور ایک طالب علم نے مزید دو سال رہ کر سند فضیلت، پھر پندرہ سال کے بعد جامعہ کے ندوے سے الحاق تک زیادہ سے زیادہ اتنا ہوا کہ جامعہ میں آخری درجہ عربی چہارم پاس کر کے کسی طالب علم کا ندوے میں عربی پنچم میں داخلہ ہوگیا تو اس نے بڑا تیر مار لیا، ورنہ زیادہ تر جامعہ میں عربی چہارم میں کامیاب طلبہ کو ایک دو سال کے نقصان کے ساتھ وہی عربی چہارم یا پھر اس سے ایک سال پیچھے داخلہ ہوا۔ مولانا نے ندوے میں اپنے تعلیم کے دوسال کیسے گذارے ،انہی کی زبانی سنئے:۔ (( جب ندوے میں پڑھتا تھا تو وجے واڑہ سے چچاجان کی کمپنی سے پچاس روپئے اور ایلور سے ایک اور چچا احمد ملا کے یہاں سے پندرہ روپئے بطور وظیفہ آتے تھے، اسی میں ندوے میں کھانے پینے کی فیس، سال میں دومرتبہ آنے جانے کا ٹکٹ،سفر خرچ اور دیگر اخراجات پورے کرنے ہوتے تھے، واپسی عموما ممبئی سے ہوتی، اور ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار ممبئی میں چند روزٹہرنا ، اور بھٹیار خانوں سے جھوٹا موٹا کھانے پر گزارہ کرنا پڑتا تھا، ندوے کے تندور کی روٹی اتنی کھردری اور سخت ہوتی کہ حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی، چاول بنتا تو اس میں کنکر پڑے ملتے، اسے کھایا نہیں جاتا، میں نے ندوہ ہی چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک ترکیب سوجھی، مولوی محسن نواب ندوی میرے ساتھ رہتے تھے، میں نے مہتمم صاحب کے پاس جا کر اپنا کھانا بند کرنے کی درخواست دی، جس پر مہتمم صاحب نے منظور ی کے دستخط کردئے، سنا ہے کہ مدتوں بعد ایسا کوئی کیس ان کے سامنے پیش ہوا تھا، مطبخ کے انچارج افتخار مرحوم خفا ہوکرتلملا اٹھے، لیکن کیا کرتے، مہتمم صاحب کی منظور ی کے بعد روکنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس زمانے میں کھانے کی فیس پچیس روپیہ ہو ا کرتی تھی، محسن کے پچیس اور میرے پچیس ملا کر جملہ پچاس روپئے ہوئے، اس میں مزید پانچ روپئے ڈال کر ایک وقت کا اسپیشل کھانا جاری ہوا، سوا سال تک ہم دونوں نے اسی طرح ایک وقت کھانا کھایا، اور بچے ہوئے بیس روپئے کا ناشتہ۔ ہماری مولانا عبد الحمید ندوی ؒ جیسے جلیل القدر استاد کے ہاتھوں تربیت ہوئی تھی، جن پر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کااثر غالب تھا، جب ہم ندوے جارہے تھے تو تصور میں تھا کہ ہم کسی خانقاہی نظام میں جارہے ہیں، لیکن یہاں کی دنیا مختلف تھی، ہمیں وہاں کچھ عجیب عجیب سا لگنے لگا، اور ہمیں شیطان بھڑکانے لگا، ابھی ششماہی امتحان ہوا ہی تھا کہ سوچنے لگا، اتنا پڑھنا بس ہے، وجے واڑہ جاکر روزی روٹی سے جڑتا ہوں، اور کچھ وقت دعوت اور درس میں لگاتا ہوں، چھٹیوں میں ساتھی ادھر ادھر چلے گئے، اور میں نے وجے واڑہ جانے والی ٹرین کی ٹکٹ کٹوادی، اور یہ فیصلہ کرکے گھر والوں کو اور مولانا ندوی ؒ کو خط لکھ دیا، ایک صاحب نے ہم سے نقل کیا کہ جب مولانا تک یہ خط پہنچا تو بڑے دکھ سے فرمایا کہ اقبال نے میری کمر توڑ دی، اس زمانے میں مدراس کے لئے ہفتے میں تین دن بوگی لگتی تھی، جو وجے واڑہ ہوکر جاتی تھی، چونکہ ٹرین سنیچر کو تین بج کر چالیس منٹ پر تھی، تو سوچا کہ کیوں نہ جاتے جاتے ندوے کے ایک بزرگ استاد مولانا وجیہ الدین صاحب سے کچھ استفادہ کیا جائے، اس زمانے میں حیاۃ الصحابہ کی دو جلدیں چھپ کرآئی تھیں، جنہیں میں نے خرید لیا تھا، مولانا وجیہ الدین بڑے اللہ والے بزرگ تھے، سلیمانیہ ہوسٹل کے نگران تھے، ان کے پاس یہ کہ کہ کر کہ چند روز آپ سے استفادے کے لئے آتا ہوں جانے لگا، سنیچر کے روز تین چالیس پر ٹرین تھی، ایک بجے کتاب پڑھنے کے بعد مولانا سے میں نے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ میں ندوہ چھوڑ کے جارہا ہوں، اور ان کے سامنے تقریر جھاڑدی کہ کیا فائدہ؟ تھوڑی بہت دینی تعلیم حاصل کرنا کافی ہے، وجے واڑہ میں ہمارے لئے کاروباری ٹھکانہ موجود ہے، ایک گھنٹہ درس دینے سے دین کی خدمت بھی ہوگی، مولانا نے فرمایا کہ پڑھنے کے زمانے میں مجھے بھی ایک مرتب شک ہوا تھا، کہ پڑھانے سے کیا فائدہ، یہ بھی عام دنیا داری ہے، پیسے کے لئے پڑھاتے ہیں،اسے چھوڑ دو اور کھیتی باڑی کرو، ایسا کرو، ویسا کرو، تو حضور اکرم ﷺ خواب میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ وجیہ الدین تم جو کررہے ،ہو کرتے رہو، اور مولانا فرمایا، مولوی صاحب جو تم کررہے ہو کرتے رہو، شیطان بڑے عالم فاضل افراد کو گمراہی کی طرف ترغیب نہیں دیتا، اسے افضل سے مفضول کے طرف ڈال دیتا ہے، گیند اوپر رکھتا ہے، پھر یہ قدم دوقدم نیچے آتے رہتی ہے، پھر ایکدم نیچے گر جاتی ہے، بات دماغ میں لگی، میں سیدھے چہار باغ گیا ، ٹکٹ کینسل کی، تین بجے گاڑی چھوٹ رہی تھی تو آخری وقت میں کتنے پیسے ملتے؟، میں لکھنو ہی میں ٹہر گیا، اور پھر تبلیغی جماعت میں تنہا چلا گیا، ساتھیوں میں کوئی دہلی گیا تھا، تو کوئی اپنے گاؤں،مولانا وجیہ الدین مرحوم کا مجھ پر بڑا احسان ہے، منیری صاحب کا بھی بڑا احسان ہے، اور قاسم کا بھی، زندگی میں کچھ مرحلے ایسے آئے کہ اگر اس وقت درست فیصلہ کی توفیق نہ ملتی، تو زندگی کا رخ بدل جاتا، اللہ ان سب کو غریق رحمت کرے))۔ https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/