مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۳) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

03:12PM Thu 31 Dec, 2020

جامعہ میں داخلہ

۔(مولانا اقبال فرماتے ہیں ) ایک دن عصر کے وقت ہم مولانا عبد الحمید ندوی ؒ کے درس قرآن کے انتظار میں بیٹھے تھے، کہ آپ نہیں آئے بلکہ آپ کی جگہ پر منیری صاحب درجہ میں داخل ہوگئے، اور تقریر شروع کردی، یہ آپ کی زندگی کی دو تین شاہکار تقریروں میں سے ایک تھی، جس کا خلاصہ یہ تھا، اور حقیقت بھی یہی تھی، کہ ہم سے پہلے بھی دو تین افراد نے اس قصبے میں ایک دینی مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام ہوگئے، ہم نے بھی بہت کوشش کی، لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمیں یہاں پڑھنے کے لئے بچے نہیں مل رہے ہیں، کل قیامت کے دن اللہ تعالی ہم سے پوچھے گا تو ہم جواب دیں گے کہ خدایا! ہم نے سکت بھر کوشش کی، لیکن ہمیں بچے نہ مل سکے، اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، اور آپ نے زبردست ترغیبی انداز میں اس طرح بات کی کہ ہمارے دل پسیج گئے۔ اس وقت ہائی اسکول چھوڑ کر جامعہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی، اب بھٹکل سے وہ محاورہ ((کومجان گھالوچے)) ختم ہوگیا ہے، اس زمانے میں گھر سے میت اٹھنے کے بعد کافور اور لوبان کی دھونی دی جاتی تھی، کسی سے ناامید ی اور مایوسی کی حدیں پار ہوجاتیں تو یہ محاورہ بولا جاتا تھا، ہائی اسکول چھوڑ کر جامعہ میں داخلہ پر بھی اس زمانے میں اس محاورے کا اطلاق ہوتا تھا، جامعہ میں داخلہ کا واضح مطلب یہ تھاکہ اس نے دنیا کو لات مارکر اپنی تباہی مول لی ہے، میرے ایک ساتھی کو جامعہ میں داخلہ لینے پر یہ کہ کر قید کردیا گیا کہ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے، عامل سے پانی پر پھونک کر لایا گیا۔ جب مولانا ندوی نے یہ آیت قرانی پڑھائی ( قَالُوا یَا صَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ہَذَا أَتَنْہَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِی شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ مُرِیب) انہوں نے کہا ''اے صالح، اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ تو جس طریقے کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے، تو ایسا لگا کہ جیسے آج ہی کے رو ز کے لئے یہ آیت اتری تھی، میں نے قرآن کی چند ایک آیتوں کو اسی طرح سمجھا ہے گویا ہماری زندگی ہی کے بارے میںیہ اتریں تھیں۔ منیری صاحب کے تقریر سن کر میں اسی(۸۰) ڈگری گھوم گیا، اس کے بعد لوگوں نے مجھے لعن وطعن کرنا شروع کردیا، حتی کہ ان لوگوں نے بھی جنہوں نے جامعہ کے قیام میں حصہ لیا تھا، اور جامعہ کے خاص لوگوں میں تھے، انہوں نے بھی اشاریوں کنایوں میں کہنا شروع کیا کہ آپ نے ہمارے لئے مسائل پیدا کردئیے ہیں، ایک شخص نے ہمارے سامنے کہا کہ آپ ایسا نہ کرتے تو اچھا ہوتا، ہم آپ کو داخل کرکے انجمن سے ٹکراو نہیں چاہتے، منیری صاحب نے تقریر کی اور چلے گئے، اس کے بعد مجھے پھر کسی کا ساتھ نہیں ملا، مولانا عبد الحمید ندوی نے بھی ہوشیاری دکھائی، مجھے جامعہ میں رہنے کے لئے بھی نہیں کہا،اس وقت مجھے ایک شخص نے ساتھ دیا، وہ تھے قاسم سعدا مرحوم، بانی جامعہ سعدا محمد جفری کے بھانجے اور پھر داماد، جامعہ میں (متن الغایۃ والتقریب) داخل نصاب کرنے کا باعث وہی بنے تھے ، انہوںنے مجھ سے کہا کہ، یہ لوگ ہمیں پڑھنے نہیں دیں گے، ہم انہیں سبق سکھائیں، یہاں سے بھاگ کر منگلور چلیں، وہاں مولانا سید یوسف صاحب ہیں، ان سے جاکر پڑھیں، باقی وقت ریلوے اسٹیشن پر جاکرقلی کا کام کریں، مسافروں کا سامان ڈھوئیں، ان شاء اللہ تعلیم نہ چھوڑیں، ان کی اس بات پر عمل کا موقعہ زندگی میں نہیں آیا، لیکن آپ کے اس جذبے نے مجھے تقویت پہنچائی ، میں نے گھر والوں کو کوئی جواب نہیں دیا، خدا کا شکر ہے، جو لوگ اس وقت مخالفت میں تھے، جامعہ کی تائید میں آگئے، ان سے بعد میں جامعہ کو کمک ملی، میری زندگی کا رخ بدلنے، اور جامعہ میں داخلہ کروانے میں منیری صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ میرے ساتھ مولانا غزالی خطیبی مرحوم بھی داخلہ لینے والے تھے، لیکن انہیں یہ کہ کر روکا گیا، کہ میٹرک مکمل ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں، اللہ ان کا بھلا کرے، یہاں میٹرک کا آخری پرچہ ختم ہوا، وہاں امتحان ہال سے سیدھے عصر کے وقت جامعہ آگئے، اور دو تین ماہ کے اندر چھوٹے ہوئے اسباق پورے کئے، مولانا صادق اکرمی بھی چند عرصے بعد داخل ہوگئے،خدا کا شکر ہے انہیں سرپرستوں کی تائید حاصل تھی، ان کے والد ماجد نے انہیں اجازت دیدی تھی، پھر جلال رکن الدین آئے۔ ان حالات پر مولانا ندوی نے ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے: ((البتہ ہائی اسکول سے دینی ذوق رکھنے والے چند ایسے طلباء بھی آئے جنہوں نے پختگی کے ساتھ طے کیا کہ ہم کو دینی تعلیم حاصل کرنا چاہئے، لیکن ہفتہ دو ہفتہ کے بعد حالات کے ماتحت انہیں سمجھا بجھا کر جامعہ سے ہائی اسکول واپس کیا گیا کہ تعلیم کو ادھورا چھوڑدینے سے بہتر یہ ہے کہ ہائی اسکول پاس کرکے جامعہ میں داخل ہوں، صرف ایک طالب علم محمد اقبال بن حسین ملا باقی رہ گیا، جس پر ہائی اسکول واپس جانے کے لئے کسی کی کوئی کوشش کارگر نہیں ہوئی، اسکے اعزہ، اکابرین شہر، محترم اساتذہ، خود ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اور میں نے خود بھی سمجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن اس نے کسی کی نہ سنی،نہ دھمکیوں کی پروا کی، نہ افہام و تفہیم کا اثر لیا، جس کے نتیجہ میں اسے بڑی ہی دشوار گذار گھاٹیوں سے گذرنا پڑا، لیکن پائے استقلال میں جنبش نہ آنی تھی، نہ آئی، بس یہی وہ پہلا طالب علم ہے جسے حق تعالی نے جامعہ کے نصیب میں لکھ رکھا تھا، جو جامعہ کی دستوری اوپننگ کے دو مہینے پانچ روز کے بعد ۲۵؍ جمادی الاولی ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۵؍ اکتوبر۱۹۶۲ء کو صبح (۷) بجے عین تلاوت کے وقت گریاں بریاں جامعہ میں داخلہ کے لئے حاضر ہوا۔۔۔ (روداد اجلاس اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل ۔ص ۶۵))۔ مولانا اقبال صاحب اپنے استاد محترم کے ان کلمات پر اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ((یہ میرے لئے شرف وعزت کی بات ہے کہ جس طرح مولانا روم نے اپنے شاگرد حسام الدین کی تعریف کی اور حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی ؒ نے اپنے مسترشد علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تعریف کی اسی طرح میرے استاد مولانا عبد الحمید ندوی ؒ نے نہ صرف اپنے اس شاگرد کی تعریف تاریخ میں ریکارڈ کی بلکہ روداد کا ایک صفحہ میرے لئے مخصوص کیا، اور اس میں وقت ، روز، تاریخ ہجری او رمیلادی کی پوری تفصیلات محفوظ کردیں، یہ مولانا کا مجھ پر احسان ہے، اور آپ کے یہ کلمات میری نجات کا ذریعہ ہیں۔مولانا ندوی کے بھٹکل والوں پر احسانات کا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا، اگر مولانا جیسی شخصیت یہاں کے لوگوں کو میسر نہ ہوتی تو شاید بھٹکل اور ملبار کے کاسرکوڈ کی معاشرت میں کوئی خاص فرق نہ ہوتا، حضرت مولانا علی میاںؒ اور مولانا ابرار الحق ؒ جیسی شخصیات یہاں باربار نہیں آتیں، اور اس کی تعریف کرکرکے دنیا بھر میں اسے متعارف نہ کرواتیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ جامعہ کے بانی کون تھے؟ اس کا تخیل کس نے پیش کیا تھا؟ پرانے ریکارڈ کا مطالعہ کرنے سے آپ کو یہ سب معلوم ہو جائیگا، لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ، دارالعلوم دیوبند کے اصل بانی نہیں تھے، وہ تو افتتاح کے وقت بھی موجود نہیں تھے، اسی طرح علامہ شبلی نعمانیؒ، دارالعلوم ندوۃ کے قیام کے بعد یہاں آئے، لیکن یہ لوگ اپنی کوششوں اور جدوجہد سے ان اداروں کی شناخت بن گئے، میں تو یہی کہوں گا کہ اللہ تعالی ہمیں خلوص عطا کرے، اور جہاں تک میں جانتا ہوں، بھٹکل کی تقدیر میں جامعہ کا قیام لکھا تھا، وہ ہوگیا، ورنہ اسباب ایسے نہیں تھے))۔ WA: 00971555636151

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/