مولانا محمد ملا اقبال ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔ جامعہ کے گل سرسبد ( ۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:43PM Sun 27 Dec, 2020

  یہ گزشتہ جنوری ۲۰۲۰ء کی بات ہے، میری دبی واپسی کا دن تھا، ظہر کی نماز میں نے جامعہ آباد مسجد میں اداکی، نماز کے بعد مولانا اقبال صاحب مسجد کے دروازے پر بائیں جانب بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے، جاتے جاتے مولانا نے دریافت کیا کہ کیا اس مرتبہ آپ نے تخصص اور عالیہ درجات کے سامنے کچھ لکچر دئے؟، مولانا کو جب بھی ہماری وطن آمد ہوتی تو اس کی فکر رہتی تھی کہ طلبہ کو استفادہ کا موقعہ دیں، اور انہیں نئے، مفید اور اہم علمی موضوعات سے آگاہ کریں، وطن پہنچنے پر وہ ہم سے طلبہ کو مستفید کرنے کو کہتے، کسے معلوم تھا کہ یہ مولانا سے ہماری آخری ملاقات ہوگی؟اب شاید ہمارے نصیب میں اگر لکھا ہو تو جنت ہی میں ملاقات ہوگی ان شاء اللہ، امید ہے کہ وہاں ان کے درجات اعلی علییین، صدیقین اور صالحین میں ہونگے۔ کیونکہ جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، ان کی شہادت ہے کہ انہوں نے بہت ہی صاف ستھری، بے داغ زندگی،عزت نفس کے ساتھ گذاری، ان کا تعلق اپنے خالق سے گہرا تھا،حرام وحلال کا خیال رکھنے والے،فرائض و سنن کے پابند تھے، نہ صرف حقوق العباد کا خیال رکھتے ،بلکہ صلہ رحمی اور ضرورت مندوں مدد کے لئے آگے بڑھنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ان کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر جس نے بھی سنی اس نے محسوس کیا کہ وطن بھٹکل سے خیر کا ایک اہم سرچشمہ خشک ہوگیا ہے۔ مولانا کافی عرصے سے مختلف بیماریوں سے گھرے ہوئے تھے، کبھی شوگر ہے، تو کبھی بلڈ پریشر،تو کبھی نمونیہ، لیکن جب بھی چل پھرنے کی سکت ہوتی، جامعہ آباد وہ پابندی سے آتے، اور تخصص فی الفقہ کے درجات کو فقہ کی اعلی کتابیں پڑھاتے، یا پھر انہیں میراث، علم فلک، اوقات الصلوۃ کا فن سکھاتے، مولانا ان علوم وفنون میں بہت درک رکھتے تھے اور پورے علاقے میں اس سلسلے میں اہم ترین مرجع شمار ہوتے تھے، آپ نے بڑی محنت سے جن علوم وفنون کو سیکھا تھا، انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی انہوں نے بھر پور کوشش کی، آپ نے نہ صرف بھٹکل واطراف کے اوقات صلوۃ کو مرتب کیا، بلکہ اس کے لئے آپ نے ایک ایسا نظام تیار کیا جس سے چھوٹے چھوٹے قریوں اور دیہاتوں کے لوگ جب ان سے رجوع کرتے تو چند منٹوں میں اسے تیار کرکے بھیج دیتے تھے، آپ نے اس میدان میں جو محنت کی اس کے نتیجے میں تاقیامت ان شاء اللہ آپ کا نام زندہ وتابندہ رہے گا۔ آج جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو جنوبی ہند میں منارہ نور کی حیثیت حاصل ہے، نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے،یہاں سے علم دین کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل رہی ہے، اللہ نظر بد سے بچائے، بھٹکل شہر کے معاشرے پر اس ادارے کا جو اثر ہے شاذ ونادر ہی کسی دینی درسگاہ کا اپنے شہر میں اتنا اثر نظر آئے گا، آج بھٹکل میں ا ندازا ایک سو مساجد ہیں، ان تمام مساجد میں جامعہ کے فضلاء امامت، وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور ان میں سے بہت ساری مساجد میں درس قرآن کے سلسلے بھی جاری ہیں، ہمیں قیام جامعہ کا وہ زمانہ بھی یاد ہے، جب بھٹکل میں کل سات مسجدیں ہوا کرتی تھیں، ان میں سے آدھ مسجدوں میں بھٹکل سے باہر کے ائمہ و مؤذنین مقرر تھے، جو عالم بھی نہیں تھے، پورے شہر میں ایک ہی حافظ قرآن ہوا کرتے تھے، لیکن آج ماہ رمضان المبارک کے دوران شہر بھر کی ہر مسجد میں تین سے زیادہ حافظ قرآن بہ یک وقت دستیاب رہتے ہیں، رہی بات مستورات کی تو آج گھر گھر حافظات قرآن سے منور ہے، اللہ کی اس نعمت پر جتنا حمد وشکر بجا لایاجائے کم ہے، یہ سب برکات ہیں بھٹکل میں جامعہ اسلامیہ کے قیام کی ہیں۔ جامعہ کی تکمیل صرف مجلس بانیان اور عمارتوں سے نہیں ہوتی ، یہ بنتی ہے استاد اور طالب علم کے اس سے جڑنے کے بعد، وہ اولین قافلہ جو جامعہ کے قیام اور تاسیس میں آگے آگے تھا، اور وہ شخصیت جس نے پہلے پہل یہاں پر قال اللہ اور اور قال الرسول کی مسند سجائی تھی، انہیں سفر آخرت پر روانہ ہوئے عرصہ بیت گیا ہے، اور مورخہ ۲۳ ؍ ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۵؍جولائی ۲۰۲۰ء مولانا اقبال ملا صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے جنہیں جامعہ کے اولین طالب علم کی حیثیت سے جامعہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل تھی۔ اس طرح جامعہ کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے۔

آغاز زندگی

مولانا نے ۸؍رمضان المبارک ۱۳۶۴ھ۔ مطابق ۱۷؍اگست ۱۹۴۵ء اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تھی، اس لحاظ سے آپ نے اس دنیا کی پچھتر بہاریں دیکھیں۔ آپ کے والد محمد حسین ملا صاحب تقسیم ہند سے قبل خاکسار تحریک سے وابستہ رہے تھے۔ اور مدراس (چنئی) میں ذریعہ معاش اپنا ئے ہوئے تھے، انگریزوں کے زمانے میں جب خاکسار تحریک کا کریک ڈاؤن ہوا، اور تحریک آزادی کے دور کے بدترین ظلم و ستم کا نشانہ اسے بنایا گیا اور ویلور جیل میں تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی سمیت تحریک کی قیادت کو پابندسلاسل کیا گیا تو ان میں آپ بھی شامل تھے، آپ کو بھی سخت ترین اذیتوں کے مراحل سے گذرنا پڑا، جس کے دوران آپ کی پیشانی کے اوپری حصہ پر کسی آلے سے ایسی ضرب لگائی گئی جس کے بعد آپ کا نفسیاتی توازن بگڑ گیا، اس قید وبند کے بعد آپ نے پھر دوبارہ وطن کا رخ نہیں کیا، اس وقت اقبال صاحب کی عمر ڈھائی سال کی تھی، آپ نے والد ماجد کو پہلی مرتبہ ۱۹۶۶ء میں اس وقت دیکھا تھا جب آپ جامعہ کی تعلیم مکمل کرکے اعلی تعلیم کے لئے ندوۃ العلماء تشریف لے جاررہے تھے۔ اور پھر۱۹۷۰ء میں جب آپ کی رحلت پر جنازے میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ تعلیمی پس منظر آپ کی زندگی کے ابتدائی حالات،تعلیمی پس منظر اور جامعہ اسلامیہ میں داخلہ کی روداد خود مولانا یوں بیان کرتے ہیں:۔ ـ((ماہ ربیع الاول کے موقعہ پر مولانا ارشاد احمد مبلغ دارالعلوم دیوبند کو بھٹکل میں تقاریر کی دعوت دی گئی تھی، اس وقت جناب محمد میراں گوائی صاحب کے۔۔ مکان کی پہلی منزل کرایہ پر لی گئی، جہاں پر جامعہ سواتین ماہ رہا، اس منزل کا کرایہ ایک سو روپیہ ادا کیا گیا، یہاں سے جامعہ مین روڈ پر واقع سوداگر بخار میں منتقل ہوا، سوداگر بخار کا تو اب وجود نہیں، لیکن وہ منزل جہاں سے جامعہ کا آغاز ہوا تھا، اب بھی باقی ہے، یہ بڑی تاریخی جگہ ہے، اس زمانے میں بانیان جامعہ کے ساتھ ساتھ مرحوم دامدا بو امین صاحب چیڈوبھاؤ، قاضی محمد احمد خطیبی صاحب، عثمان حسن ہیڈ ماسٹر کی آپس میں بڑی قربتیں تھیں، ماسٹر صاحب تو بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب ؒکے قریبی دوست تھے۔ میں سچ بتاتاہوں جب میں ہائی اسکول میں پڑھ رہا تھا، تو مجھے قرآن پڑھنا نہیں آتا تھا،قرآن پڑھنا اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، جس کا احساس اب ہوتا ہے، جب ہم لوگ مستورات وغیرہ کو آج کل چند دینی باتیں بتارہے ہوتے ہیں، قرآن نہ جاننے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میرا بچپن مدراس میں گزرا تھا، جب بھٹکل منتقلی ہوئی تو یہاں کے رائج نظام کے مطابق خواتین معلمات قرآن جنہیں عرف عام میں خلفین کہا جاتاہے، ان کے یہاں جانے کا موقعہ نہ ملا، محتشم ابو بکر مرحوم کی ہمشیرہ جو میری خالہ زاد بہن بھی ہیں، ان کے پاس د و تین دن جانا ہوا، جب اسکول میں داخلہ ہوا تو ان کے پاس بھی جانا بند ہوگیا،اس وقت تھوڑا بہت یسرنا القرآن پڑھنے کا موقعہ ملا ہوگا))۔ انجمن میں تقریری مقابلہ ((یہ بات میں پہلی مرتبہ آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسی کیسی نگاہ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں، میرے سرپرست بنیادی طور پر چچا جان تھے، لیکن ان کی غیر موجود گی میں حساب کتاب، میری نگرانی وغیرہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب کیا کرتے تھے، ان کے دواخانے میں بیٹھنے والے افراد عموما دینی امورپر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے، اور انجمن میں دینیات کے درجے میں دوسرے طلبہ پر میں فائق رہتا تھا،ابھی میں انجمن کا طالب علم ہی تھا کہ بچوں کا ایک تقریری مقابلہ رکھا گیا، جس میں شراب بندی کے موضوع پر میری ایک اچھی سی تقریر ہوئی، باوجود اس کے کہ اس مقابلہ میں مجھ سے بڑی عمر کے طلبہ شریک تھے، مجھے دوسرا بڑا انعام ملا، اس جلسہ کی صدارت محی الدین منیری ؒصاحب کررہے تھے، اور یہ تقریر لکھ کر دی تھی ڈاکٹر علی ملپا صاحبؒ نے، میں خوشی خوشی علوہ محلہ سے ہوکر تکیہ محلہ میں واقع اپنے گھر کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا کہ راستے میں علوہ مسجد کے سامنے شاہ الحمید عیدروسہ صاحب کے مکان کے پڑوس میں منیری صاحب اپنے سسر مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی صاحب کے مکان کی ڈیوڑھی پر بیٹھے ہوئے تھے ،((ہینگا ایوا))کہ کر مجھے بلایا، اور فرمایا کہ تمہیں پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بننا ہے، اس طرح مجھے خوب اکسایا، اور کہاکہ میں تمھیں اعلی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجتا ہوں، ٹھیک ہے۔۔۔ کہ کر میں وہاں سے چلاگیا، اور جاکر یہ بات اپنے گھر والوں کو، اور میرے تعلیمی سرپرست ڈاکٹر ملپا صاحب کو بھی بتائی، یہاں سے بات عثمان حسن ہیڈ ماسٹر صاحب تک پہنچی، یہ بات میں اس لئے آپ لوگوں کو بتارہاہوں کہ دینی تعلیم کی اہمیت سمجھ کر بہتوں نے جامعہ کی تحریک کے لئے کام کیا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بچے کی اچھی سی تقریر سن کر منیری صاحب نے اسی وقت اسے ندوہ بھیج کر ایک عالم دین بنا نے کا سوچا))۔ (نوٹ: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تحریک ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، منیری صاحب کو بھٹکل میں ایک دینی تعلیمی ادارے کی داغ بیل ڈالنے کی فکر ۱۹۵۵ء میں ممبئی میں دینی تعلیمی کنوینشن کے انعقاد کے بعد سے لگی ہوئی تھی،اس مقصد سے آپ نے ایک زمین بھی لے لی تھی، اور تدریس میں خود کفالت کے لئے مقامی نوجوانوں کو حافظ و عالم بنانے کی کوششیں شروع کردی تھیں، اسی منصوبہ کے ساتھ آپ نے مولانا حافظ اقبال ندوی، مولانا محمد تقی محمد حبیبا ندوی،مولوی احمدبن عبد الرزاق قافشی صاحب، اور مولانا عبد المجید ملپا ندوی، وغیرہ کو ندوۃ العلماء میں داخلے پر آمادہ کیا، اور اس سلسلے میں مناسب تعاون پیش کیا۔ ع۔م)۔