مولانا محمد ملا اقبال ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔ جامعہ کے گل سرسبد ( ۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
عالیہ درجات کے سامنے کچھ لکچر دئے؟، مولانا کو جب بھی ہماری وطن آمد ہوتی تو اس کی فکر رہتی تھی کہ طلبہ کو استفادہ کا موقعہ دیں، اور انہیں نئے، مفید اور اہم علمی موضوعات سے آگاہ کریں، وطن پہنچنے پر وہ ہم سے طلبہ کو مستفید کرنے کو کہتے، کسے معلوم تھا کہ یہ مولانا سے ہماری آخری ملاقات ہوگی؟اب شاید ہمارے نصیب میں اگر لکھا ہو تو جنت ہی میں ملاقات ہوگی ان شاء اللہ، امید ہے کہ وہاں ان کے درجات اعلی علییین، صدیقین اور صالحین میں ہونگے۔ کیونکہ جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، ان کی شہادت ہے کہ انہوں نے بہت ہی صاف ستھری، بے داغ زندگی،عزت نفس کے ساتھ گذاری، ان کا تعلق اپنے خالق سے گہرا تھا،حرام وحلال کا خیال رکھنے والے،فرائض و سنن کے پابند تھے، نہ صرف حقوق العباد کا خیال رکھتے ،بلکہ صلہ رحمی اور ضرورت مندوں مدد کے لئے آگے بڑھنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ان کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر جس نے بھی سنی اس نے محسوس کیا کہ وطن بھٹکل سے خیر کا ایک اہم سرچشمہ خشک ہوگیا ہے۔ مولانا کافی عرصے سے مختلف بیماریوں سے گھرے ہوئے تھے، کبھی شوگر ہے، تو کبھی بلڈ پریشر،تو کبھی نمونیہ، لیکن جب بھی چل پھرنے کی سکت ہوتی، جامعہ آباد وہ پابندی سے آتے، اور تخصص فی الفقہ کے درجات کو فقہ کی اعلی کتابیں پڑھاتے، یا پھر انہیں میراث، علم فلک، اوقات الصلوۃ کا فن سکھاتے، مولانا ان علوم وفنون میں بہت درک رکھتے تھے اور پورے علاقے میں اس سلسلے میں اہم ترین مرجع شمار ہوتے تھے، آپ نے بڑی محنت سے جن علوم وفنون کو سیکھا تھا، انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی انہوں نے بھر پور کوشش کی، آپ نے نہ صرف بھٹکل واطراف کے اوقات صلوۃ کو مرتب کیا، بلکہ اس کے لئے آپ نے ایک ایسا نظام تیار کیا جس سے چھوٹے چھوٹے قریوں اور دیہاتوں کے لوگ جب ان سے رجوع کرتے تو چند منٹوں میں اسے تیار کرکے بھیج دیتے تھے، آپ نے اس میدان میں جو محنت کی اس کے نتیجے میں تاقیامت ان شاء اللہ آپ کا نام زندہ وتابندہ رہے گا۔ آج جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو جنوبی ہند میں منارہ نور کی حیثیت حاصل ہے، نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے،یہاں سے علم دین کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل رہی ہے، اللہ نظر بد سے بچائے، بھٹکل شہر کے معاشرے پر اس ادارے کا جو اثر ہے شاذ ونادر ہی کسی دینی درسگاہ کا اپنے شہر میں اتنا اثر نظر آئے گا، آج بھٹکل میں ا ندازا ایک سو مساجد ہیں، ان تمام مساجد میں جامعہ کے فضلاء امامت، وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور ان میں سے بہت ساری مساجد میں درس قرآن کے سلسلے بھی جاری ہیں، ہمیں قیام جامعہ کا وہ زمانہ بھی یاد ہے، جب بھٹکل میں کل سات مسجدیں ہوا کرتی تھیں، ان میں سے آدھ مسجدوں میں بھٹکل سے باہر کے ائمہ و مؤذنین مقرر تھے، جو عالم بھی نہیں تھے، پورے شہر میں ایک ہی حافظ قرآن ہوا کرتے تھے، لیکن آج ماہ رمضان المبارک کے دوران شہر بھر کی ہر مسجد میں تین سے زیادہ حافظ قرآن بہ یک وقت دستیاب رہتے ہیں، رہی بات مستورات کی تو آج گھر گھر حافظات قرآن سے منور ہے، اللہ کی اس نعمت پر جتنا حمد وشکر بجا لایاجائے کم ہے، یہ سب برکات ہیں بھٹکل میں جامعہ اسلامیہ کے قیام کی ہیں۔ جامعہ کی تکمیل صرف مجلس بانیان اور عمارتوں سے نہیں ہوتی ، یہ بنتی ہے استاد اور طالب علم کے اس سے جڑنے کے بعد، وہ اولین قافلہ جو جامعہ کے قیام اور تاسیس میں آگے آگے تھا، اور وہ شخصیت جس نے پہلے پہل یہاں پر قال اللہ اور اور قال الرسول کی مسند سجائی تھی، انہیں سفر آخرت پر روانہ ہوئے عرصہ بیت گیا ہے، اور مورخہ ۲۳ ؍ ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۵؍جولائی ۲۰۲۰ء مولانا اقبال ملا صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے جنہیں جامعہ کے اولین طالب علم کی حیثیت سے جامعہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل تھی۔ اس طرح جامعہ کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے۔