مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ ۔۔۔ ایک روشن چراغ۔۔۔ از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

09:24AM Sat 19 Nov, 2022

ایک ایسے وقت جب کہ مسلمانان ہندو پاک کو بردبار، سنجیدہ اور معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والی اور ملی وملکی تنازعات میں ثالثی کی صلاحیت رکھنے والی دانش مند قیادت کی ضرورت پہلے سے زیادہ تھی، کراچی سے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے اس جہان فانی سے کوچ کرنے کی غمناک خبر موصول ہوئی ہے۔۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ کو علماء نے مفتی اعظم پاکستان کے باوقار منصب پر فائز کیا تھا۔

آپ کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بر صغیر کے چوٹی کےمفسرین قرآن، فقہاء اور مفتیان کرام میں ہوتا ہے، آپ اپنے عظیم والد ماجد کے حقیقی معنوں میں جانشین تھے۔

آپ کی ولادت مورخہ ۲۱ جولائی ۱۹۳۶ء بھارت کے مردم خیز قصبے دیوبند میں ہوئی تھی،ولادت پر آپ کا نام اپنے وقت کے عظیم مصلح حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے محمد رفیع رکھا تھا، آپ کے تینوں بھائیوں مولانا محمد ذکی کیفی، ، اور مولانا محمد ولی رازی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مختلف دینی وعلمی میدانوں میں بڑی ناموری پائی، آخر الذکر کو تو اس وقت نہ صرف برصغیر میں بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک دینی وفقہی امور میں اہم مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔

آپ نے ابھی دیوبند میں حفظ قرآن شروع کیا تھا اور نصف قرآن ہی مکمل کر پائے تھے کہ تقسیم ہند کا المیہ پیش آیا، اور آپ اپنے والد ماجد کے ساتھ مئی ۱۹۴۸ء صغر سنی ہی میں پاکستان ہجرت کرگئے، شاید اللہ تعالی کو اس خاندان سے اس نئی بستی میں اپنے دین کی سربلندی کا عظیم کام لینا مقصود تھا۔

کبھی ہم سوچتے ہیں کہ تقسیم ہند اور پھر اس کے نتیجے میں اپنے جائے پیدائش کو چھوڑ کر نئے ملک کو آباد کرنا کتنی غیر دانشمندی کی بات تھی۔ لیکن جب بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہےکہ جن علماء واکابر نے اپنی زمین چھوڑی اور دیار غیر میں ہجرت کی تو اس میں اللہ کی کوئی بڑی حکمت پوشیدہ تھی، دیکھئے یہی چند افراد تھے جنہیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،جنہوں نے نئے ملک کے چپے چپے پر دینی تعلیم کے دارالعلوم اور مراکز قائم کئے، اور ارشاد واصلاح کی مسندیں بچھادیں،اگر اللہ تعالی نے اس وقت ان کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تواسلام کے نام پر قائم شدہ یہ ملک شرک وبدعات کی سب سے بڑی آماج گاہ بن گیا ہوتا، اور یہاں پر صحیح دین بتانے والوں کا کال پڑ گیا ہوتا، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے کسم پرسی کے عالم میں ویران بستیوں میں علم دین کی شمعیں روشن کین، اور دار العلوم اور جامعات قائم کرکے صحیح دین کی تفہم اور پیغام و اشاعت کے لئے اپنی اپنی عمریں  نچھاور کردیں، اگر تخمینہ لگایا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تناسب کے لحاظ سے علمائے حق کے ماننے والوں کی مملکت خداداد میں اکثریت نہیں ہے، بدعات اور غلط پیر پرستی کا ہر طرف غلغلہ ہے، لیکن دینی تعلیمی میدانوں پر نظر دوڑائیں تو اپنی تعداد کے تناسب سے ان کے نامور ادارے زیادہ نظر آتے ہیں، یہ ان بزرگان دین کی تقسیم کے ہنگامےاور فتنے کے زمانے میں اپنائی گئی حکمت عملی تھی، جس کا پھل آج کی نسلیں کھارہی ہیں۔

مفتی رفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارام باغ ، باب الاسلام کراچی میں حفظ قرآن مکمل کیا، اور حفظ قرآن کا آخری سبق مفتی اعظم فلسطین شیخ امین الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ پڑھا، آپ ۱۹۵۱ء میں اپنے والد ماجد کے قائم کردہ دارالعلوم کراچی میں داخل ہوئے، جہان سے آپ  نے۱۹۶۰ء میں درس نظامی مکمل کیا، اسی دوران آپ نے ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی اور منشی کے امتحانات پاس کئے، ۱۹۶۰ء میں آپ نے افتاء کا کورس مکمل کیا۔

دارالعلوم کراچی میں آپ کے اساتذہ میں مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، مولانا اکبرعلی سہارنپوری، مولانا سحبان محمود، مولانا سلیم اللہ خان، وغیرہ کا نام آتا ہے، اور جن اکابر سے آپ نے حدیث کی اجازت لی تھی ان میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ ،حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا ظفر احمد تھانویؒ جیسے عظیم علماء ومحدثین شامل ہیں۔

اپنے والد ماجد کی سرپرستی میں آپ نے تدریس و افتاء سے وابستگی اختیار کی، اور عارف باللہ حضرت مولانا عبد الحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی رحلت کے بعد آپ دارالعلوم کراچی کے صدر نامزد ہوئے، اور تادم آخر اپنی اس ذمہ داری کو کامیابی سے نبھاتے رہے۔

اس ذمہ داری کے ساتھ آپ پاکستان علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی، حکومت سندھ زکوۃ کونسل کے رکن رہے، شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مشیر، اور ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنولوجی اور جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کے رکن رہے، اور وفاق المدارس کی مجلس انتظامیہ کے رکن رہے۔

انتظام وانصرام سے وابستہ رہنے کے باوجود آپ نے  (۲۷ ) کتابیں یادگار چھوڑیں، جن میں البلاغ کراچی، اور جنگ کراچی کے مضامین کے علاوہ ، پراسرار بندے، احکام زکوۃ، عالم قیامت ، التعلیقات النقیۃ، بیع الوفاء، اسلام میں عورت کی حکمرانی، حیات مفتی اعظم، کتابِت حدیث عہد رسالت یا عہد صحابہ میں، میرے مرشد حضرت عارفیؒ۔ نوادر الفقہ وغیرہ۔

مولانا ئے مرحوم کو ہمیں دو مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، پہلی مرتبہ 1995ء میں جب ابوظبی میں موتمر الفقہ الاسلامی جدہ کی کانفرنس میں دونوں بھائی مولانا مفتی محمد رفیع اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تشریف لائے تھے، اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے القصیص میں قدیم تبلیغی مرکز میں علماء کا ایک اجتماع رکھا گیا تھا، ان حضرات کی میزبانی اس وقت ہمارے دوست سلمان احمد صدیقی صاحب نے کی تھی، اس وقت ان حضرات کا مستقل دو تین دن ساتھ رہا، بازار میں خریداری کے لئے جانا ہوا، جس سے محسوس ہوا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی بہ نسبت آپ زیادہ خوش پوشاک وخوش خوراک  ہیں، اللہ نے وجاہت بھی دی تھی، کلائی میں رولکس گھڑی  بڑی سجتی تھی ۔ در اصل ان حضرات کا ذریعہ معاش دارالعلوم کی خدمت پر منحصر نہیں تھا، ان کے بھائی مولانا محمد ذکی کیفی مرحوم نے جن کا عین جوانی میں انتقال ہوا تھا، پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا کاروبار کافی پھیلایا تھا۔ دیوبند، ندوۃ المصنفین دہلی وغیرہ کی کتابیں انہی حضرات کے اداروں سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ خود والد ماجد اور ان کی اپنی تصانیف تھی جن کی بڑی مارکیٹ تھی۔ مفتی صاحب کو ہم نے خوش مزاج پایا، دوسری بار ۲۰۰۸ء میں پاکستان ایسوسی ایشن کی دعوت پر آپ کی تشریف آوری کے موقعہ پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔

 ایک ایسے وقت جب کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت کا بھوت اپنا منہ پھلائے ہوئے رطب ویابس کو نگل رہا ہے، آپ جیسی شخصیات بڑی غنیمت تھیں، اپنے والد ماجد کی طرح یہ بھی مسلکی اور نظریاتی اختلاف رہنے کے باوجود انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے تھے، عقیدے اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ ایک میز پربیٹھنے میں انہیں عار نہیں محسوس ہوتا تھا،بعض دفعہ  مفتی صاحب کی بردبارانہ حکمت عملی کو ان کے ہم مسلک لوگوں نے برداشت نہیں کیا، اور آپ کے خلاف غیروں نے نہیں بلکہ خود اپنوں نے زبانیں کھولیں، اس کے باوجود اعلی مفاد کی حفاظت کے لئے آپ نے ان باتوں کو در خور اعتناء نہین سمجھا، اور اپنی زبان کو داغ دار نہیں کیا۔

آپ کے زیر اہتمام دارالعلوم کراچی نے بڑی ترقی کی، ۱۹۷۶ء میں حضرت مولانا مفتی ٘محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد سے نصف صدی کا طویل عرصہ اس ادارے نے آپ ہی کے زیر اہتمام گذارا ،نہ جانے اس دوران کتنی نسلیں قال اللہ وقال الرسول کی شمعیں  لے کر یہاں نسلیں نکلیں، جن سے قیامت تک دنیا کو روشنی ملتی رہے گی، اور ان شاء اللہ ان سے آپ کے درجات بلند ہوتے رہیں گے، اللہ آپ  پر اپنی رحمتیں نازل کرے ، اللھم اغفر لہ وارحمہ۔

2022-11-19

WA: 00971555636151

https://telegram.me/ilmokitab/