مولانا دریابادی ؒ کے عاشق ، ایک شریف النفس انسان کی موت (۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:07AM Sat 6 Feb, 2021

 مورخہ  ۳ جنوری کی دوپہر محمد سعید دامودی صاحب کے انتقال کی خبر آئی  تو ذہن فوری طور  پر سعید حسین دامودی  صاحب کی طرف نہیں گیا، لیکن فون کرنے پر  ان کے فرزند عبدالخالق  نے  استفسار پر بتایا کہ ان  کے والد ماجدابھی ابھی گیارہ بجے اللہ کو پیارے ہوئے ہیں، وہ  دو چار روز سے معمولی طور پر بیمار تھے، آج تھوڑی صحت زیادہ خراب محسوس ہوئی تو  انہیں قریبی  آسٹر ہاسپٹل لے جایا گیا ،   اسپتال میں  داخل ہونے سے پہلے کار ہی پر  ان کی روح  قفس عنصری سے آزاد ہوگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔سرکاری دستاویزات میں آپ کی  تاریخ پیدائش اگسٹ  ۱۹۳۲ ء   لکھی ہوئی ہے، لیکن آپ کے مطابق   پیدائش دسمبر ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی،  ا س طرح آپ نے نوے  سال کی عمر میں اس دنیائے فانی میں گذارے۔

 اس دنیا میں ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے، قدرت نے ہر ایک کے لئے عمر کی ایک حد  مقررکر رکھی ہے، کوئی جلد یا  بہ دیر  ،ہر یہاں آنے والے ہر فرد پر رخصت ہونا لکھا ہے، یہ جاننے کے باوجود  بعض لوگوں کے اس دنیا سے اچانک جانے کی خبر سے  حیرت میں ڈال دیتی ہے، سعید صاحب کا شمار بھٹکل میں صحت کا بہت زیادہ خیال رکھنے ولے معدودے چند  افراد میں ہوتا تھا، ظاہر بیں آنکھیں انہیں دیکھ کر عمر کا اندازہ لگانے میں دھوکہ کھا جاتی تھیں، کل ہی کی بات لگتی ہے، احمدیہ اسٹریٹ سے میں گزر رہا تھا، دبی کے قدیم مدرسہ احمدیہ سے منسلک ریسٹونٹ البیت القدیم کے سامنے شیخہ لطیفہ بلڈنگ کی بالکونی میں اپنے فلیٹ  سے انہوں نے مجھے  دیکھ کرآواز دی تھی، اور ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کی باتیں بھی کی تھیں، کسے معلوم تھا کہ یہ ان کا آخری دیدار ہوگا!۔  اور اس طرح پلک جھپکتے ، کسی کو تکلیف دئے بغیر اس دنیا سے چلے  جائیں گے!، انہوں نے زندگی بھی  کچھ ایسی ہی بے ضرر گذاری، وہ غیبت اور دوسروں کا دل دکھانے کے عادی نہیں تھے، شرافت ان کے رگ وپے میں بسی ہوئی تھی، ان کے جانے سے  ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی سے شرافت و اخلاق کا ایک بہترین نمونہ ختم ہوگیا، انہوں نے اس دنیا سے منہ موڑتے ہوئے بھی کسی کو تکلیف نہیں دی۔

وہ ایک خوشحال گھرانے کے فرد تھے، بھٹکل کے مشما محلہ میں دو نسلوں سے قائم گھر میں آپ نے آنکھیں کھولی تھی، یہاں کی روایت کے مطابق قرآن کی تلاوت سیکھنے کے بعد اسکول میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے ابتدائی دو سال تعلیم پائی ، مکتب کے  ساتھیوں میں جناب عثمان حسن جوباپو

سابق ہیڈ ماسٹر انجمن ہائی اسکول ان میں   شامل تھے۔آپ کے والد کا شمار پرانے زمینداروں میں ہوتا تھا،  قریبی قصبے کری منجیشور اور ناوندا  میں آپ کی ایک دکان اور  وسیع رقبے پر  زرعی زمینیں پائی جاتی تھی، اور جب بھی ان کا وہاں سے گزر ہوتا تو یہاں کے مزارع وڈیار کہ کر والہانہ استقابل کرتے اور آپ کے لئے  ناریل، مرغیاں، کیلے، ترکاریاں، چاول وغیرہ  کے تحفے لے آتے، ۱۹۳۳ء  میں سعید صاحب کے والد اور ان کے چچا نے ممبئی کے نل بازار میں اپنے بیٹوں ، دامدا ابو محمد اسمعیل، اور دامدا ابو بوبکر کے نام پر  مشہو ر ڈی اے ابوبکر اینڈ اسماعیل   کمپنی قائم کی تھی، اسماعیل صاحب آپ کے بڑے  بھائی تھے، ان دونوں چچا زاد بھائیوں ابو بکر و اسماعیل کا شمار جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے بانیان میں ہوتا ہے۔ ڈی اے اسماعیل صاحب نے ناظم جامعہ کی حیثیت سے  دو میعاد تک خدمات بھی انجام دیں، اسماعیل صاحب  نے ہائی اسکول اور پی یوسی کی تعلیم بھٹکل کے قریب کمٹا کے مشہور زمانہ جب  ہائی اسکول میں پائی ، اس زمانے میں کمٹا   اس علاقے میں تجارتی جنکشن شمار ہوتا تھا، یہاں پر صدیق ابو الحسن صاحب (ہندا وڑاپا )کا  صدیق اسٹور پورے علاقے کا سب سے بڑا تجارتی مرکز  شمار ہوتا تھا، چونکہ بھٹکل میں دسویں کے بعد تعلیم کی سہولت نہیں تھی، تو اس زمانے میں اعلی تعلیم کے خواہشمند طالب علم  یہیں آکر تعلیم پاتے تھے، مرحوم جوکاکو شمس الدین جیسے قومی قائدین نے اعلی تعلیم یہیں پر پائی تھی،  اسماعیل صاحب کا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا، لیکن ممبئی میں دکان کی ذمہ داریوں کی وجہ سے انہیں اپنا یہ ارادہ ختم  کرنا پڑا۔

۔۱۹۴۳ میں سعید صاحب   کی ممبئی منتقلی ہوئی، آج تو بھٹکل سے ممبئی کا راستہ گیارہ گھنٹوں میں پورا ہوجاتا ہے، لیکن اس زمانے میں ممبئی کا سفر بہت لمبا ہوا کرتا، جمعہ کی نماز پڑھ کر بس پر  کمٹا کے لئے روانہ ہوتے، راستے میں  وینکٹاپور، ہوناور، اور کمٹا کی ندی پڑتے،  ان میں ہوناور ندی ایک میل چوڑی تھی،ان پرابھی پل نہیں بنے تھے، بسیں اور سواریاں  یہ ندیاں  لکڑی کے جنگلے پر پارکرتی تھیں، اگر موسم سازگار رہا تو پھر شام گئے تک   کمٹا تک کا چالیس کلومیٹر کا فاصلہ بخیر وخوبی طے ہوتا، موسم باراں میں یہ سفر خطرات سے بھرا ہوتا، ۱۹۶۹ء تک یہی صورت حال رہی، مسافر  رات کمٹا میں گزار کر فجر کی نماز  وہیں پڑھ کر ہبلی  کے لئے روانہ ہوتے، شام کو ہبلی سے پونہ کے لئے ریل چلتی، جو دوسرے روز پونہ پہنچاتی ، چند گھنٹوں بعد  پونہ سے ممبئی کے لئے  دوسری ٹرین پکڑنی ہوتی ،  اس طرح بھٹکل سے ممبئی کا سفر تین دنوں میں طے پاتا۔  ممبئی کا ایک اور راستہ پانی جہاز کا تھا، سابرمتی اور سروستی نام کےبھاپ سے چلنے والے پانی  جہاز بھٹکل بندرگاہ  سے ہفے میں دوبار گذرتے، ایک آنے کے لئے اور دوسرا جانے کے لئے، یہ بھی تین روز لیتے،

 ممبئی پہنچ کر آپ کا داخلہ ناگپاڑہ ، اگبوٹ والا بلڈنگ میں انجمن اسلام ہائی اسکول کے   نئے قائم کردہ اسکول میں ہوا،  یہاں اس وقت  ہیڈ ماسٹر ضیاء الدین صاحب کا دور تھا، آپ نے   طلبہ میں اسپورٹ اور کھیل کی  سرگرمیاں فروغ دینے میں بڑا نام  پایا، ان کے دور میں انجمن  اسلام نے کھیلوں میں بڑے بڑے میڈل  جیتے، سعید صاحب میں زندگی بھر اپنی صحت کا خیال رکھنے کی جو عادت رہی، اس کی داغ بیل شاید یہیں پر پڑی تھی۔وہ چونکہ درمیان سال  ممبئی آئے تھے تو ان کا ایک تعلیمی سال رائگاں  چلاگیا، اور آپ کا داخلہ یہاں دوبارہ  دوسری کلاس میں ہی ہوا، یہاں پر سال دو سال تعلیم پاکر آپ نے  مینارہ مسجد کے قریب  پائیدھونی میں واقع  بیگ محمد ہائی اسکول میں داخلہ لیا ، اس وقت یہ اسکول مسلمانوں کا بڑا باوقار اسکول مانا جاتا تھا، اور یہاں داخلے کے لئے کامیابی کے  نمبرات بہت زیادہ لینے پڑتے تھے،  اور رسوخ استعمال کرنا پڑتا تھا، یہاں پر عثمان حسن آکر ان سے دوبارہ مل گئے لیکن ایک درجے کے فرق کے ساتھ، کیونکہ  تعلیمی سال مکمل کرکے  یہاں آنے کی وجہ سے ان کا نقصان نہیں ہوا، وہ چوتھی میں تھے تو  سعید صاحب تیسری میں۔ اس اسکول میں بھی بھٹکل کے قدیم تعلیم یافتہ لوگوں میں سے کئی ایک نے تعلیم پائی اور نام کمایا۔

اس زمانے میں یہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے عبدا لرزاق داؤد صاحب، انہوں نے علی گڑھ سے یل یل بی پاس کیا تھا، اور شاید ان کی  ابتدا ئی  تعلیم عیسائی مشنری داروں  میں ہوئی تھی، انہیں اردو بہت کم آتی تھی، ان کی اعلی معیار  کے انگلش کالجوں سینٹ زیویرس وغیرہ میں بڑی مانگ تھی، لیکن انہوں نے وہاں کے اعلی پیشکشوں کو ٹھکرا کر، مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے معمولی تنخواہ پر بیگ محمد اسکول میں کام کرنے کو ترجیح دی تھی، اس زمانے کے اساتذہ میں  مشہور عالم مولانا ابراہیم عمادی مرحوم  اردو پڑھاتے تھے، داؤد صاحب انگریزی میں شہریات وغیرہ کے کورس تیار کرتے، اور عمادی صاحب ان کو اردو میں منتقل کرتے۔ یہاں پر ایک استاد سلیم جالب بھی تھے، جو سیماب اکبرآبادی کے شاگردوں میں تھے، اور اچھے  شاعر تھے۔ بھٹکل کے شعراء میں سے محمد علی قمر مرحوم وغیرہ نے آپ سے کسب فیض کیا۔

سامراجی  غلبہ سے پہلے دنیا میں زرعی تجارت کا زور تھا، انگریزوں نے صنعتی انقلاب کو فروغ دیا، جس کے لئے  مزدوروں کی ضرورت تھی، اس کے لئے انہیں  شہر اور بندرگاہیں آباد کرنے کی ضرورت پیش آئی، یہ ضرورت گاؤں کے لوگوں کو شہروں میں رغبت دلائے بغیر ممکن نہیں تھی، لہذا انہوں نے شہروں میں وہ سب سہولتیں اور آسائشیں اور عیاشی کے سامان مہیا کئے ، جن میں یہاں آنے والا دیہاتی پھنس جائے،  اور گاؤں واپسی بھول جائے، گھر کو بھولنے کے لئے  عیاشی میں اپنی ساری کمائی یہیں لٹا دے اور وہ واپس گاؤں نہ جاسکے،تاکہ کارخانوں میں کام نہ رکنے پائے،  اس کے لئے انہوں نے، سینما، ٹھیٹر، ناچ گانے، پیلا ہاؤس، اور سٹہ   کھیلنے کے مرکزوں کو عام کردیا ، اس وقت بھٹکل اقتصادی طور پر بہت پس ماندہ تھا، زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے وہاں پر ذرائع معاش ناپید تھے، لہذا یہاں کے لوگ اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر ذریعہ معاش کی تلاش میں یا پھر چھوٹی موٹی تجارت  کے لئے ممبئی جیسے شہروں میں جانے پر مجبور تھے، جس کی انہیں بڑی قیمت چکانی پڑتی تھی، اور اس کے لئے تاجر ہو یا مزدور سال دو سال کے وقفوں سے اپنے بال بچوں  کے پاس جانے کے لئے  مجبور ہوتے تھے، اور اس کے جو منفی اخلاقی و معاشرتی اثرات پڑ سکتے تھے، مکمل طور پر یہ ان سے یہ   لوگ بھی کیسے محفوظ رہ سکتے تھے؟۔ سعید صاحب ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،  دین سے تعلق بچپن ہی سے   ان کی سرشت میں تھا، لہذا وہ بچپن ہی سے نمازوں کے باپند تھے، جو اس زمانے میں عام بات نہیں تھی، کیونکہ بڑے بوڑھوں ہی میں اس زمانے میں فرائض و عبادات سے لگاؤ ہوتا تھا۔اور شہر ی زندگی کے ان منفی اثرات سے محفوظ رہے۔