مولانا عبد الستار خان مصنف عربی کا معلم۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:39PM Thu 11 May, 2023

 بات سے بات: مولانا عبد الستار خان مصنف عربی کا معلم کے بارے میں چند منتشر باتیں

 عبد المتین منیری 

ایک کرم فرما نے خوش فہمی میں اس ناچیز سے مولانا عبد الستار خان مرحوم کے سلسلے میں معلومات دینے کی فرمائش کی ہے، مولانا مرحوم کی عربی قواعد وزبان کی نصابی کتاب عربی کا معلم ( ۴ حصے) اور کلید عربی کا معلم (۲ حصے ) ایک زمانے  میں کافی مقبول نصابی کتابیں تھی، معلوم نہیں یہ کتابیں ہمارے دینی مدارس میں بھی رائج تھیں یا نہیں، البتہ پنجاب ،سندھ ، ممبئی کوکن  وغیرہم کے سرکاری اسکولوں میں رائج  الوقت تھیں، بھٹکل کے انجمن اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں اسے پڑھایا جانا ہمیں یاد ہے۔

 اس کتاب کے سلسلے میں مصنف کا کہنا ہے کہ "اس قسم کی کتاب لکھنے کا خیال کوئی سات سال سے میرے دماغ میں چکر لگارہا تھا، مگر اس کے اظہار کی جرات نہیں ہوتی تھی، ۱۹۱۵ء کے ماہ اپریل میں جبکہ میں پونا میں مقیم تھا ۔ بروڈہ کالج کے پروفیسر مسٹر جی جی پنیڈے یم اے جو ایک مراٹھ ہندو ہیں اتفاق سے پونا آئے اور مجھ سے عربی پڑھنا چاہا، چونکہ وہ اردو فارسی سے صرف حرف شناس تھے اور میں انگریزی سے برائے نام واقف  اور پھر ان کی تعطیل کے دو ہی ماہ باقی رہ گئے تھے، اس لئے میں خود متردد تھا کہ کس طرح ان کی تعلیم شروع کروں، بالآخر انہوں نے مجھے ایک فرنگی عالم  کی تصنیف کردہ کتاب مسمی تھیاچر عربک گرامر بتائی، اسے دیکھ کر مجھے جو خوشی ہوئی وہ بیان نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اس کا طرز بیان تقریبا وہی تھا جو میرے دماغ میں سمایا ہوا تھا، چنانچہ وہ کتاب پروفسیر صاحب کو شروع کرائی، انہوں نے بھی اس قدر کوشش سے کام لیا کہ دوماہ کے اندر ہی ختم کرلیا، اور میری طرح آپ بھی تعجب کرینگے کہ ایک مراٹھ ہندو نے دوماہ کے قلیل عرصے میں عربی کی سادہ عبارت پڑھنے اور انگریزی سے عربی میں جملوں کا ترجمہ کرنے کی استعداد پیدا کرلی" (ج ۱ ص ۴ )

عربی کا معلم حصہ اول میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی جو تقریظ ہے اس پر ۱۹ رمضان شریف ۱۳۳۶ھ کی تاریخ درج ہے، یہ۲۷ جون ۱۹۱۸ء کے مطابق بنتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کتاب کا پہلا حصہ اس واقعہ کے تین سال کے اندر اندر منظر عام پر آگیا۔

کتاب کو اسی وقت مقبولیت عام حاصل ہوئی تھی اس کا اندازہ اس کے بعد کے ایڈیشنوں میں حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ،مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، خواجہ عبد الحی فاروقیؒ ( شیخ التفسیر جامعہ ملیہ)،مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ، مولانا محمد ناظم ندویؒ، مولانا عبد القدیر صدیقیؒ، صدر الصدور نواب حبیب الرحمن شروانیؒ وغیرہ جلیل القدر علماء و اکابر کی تبصروں سے ہوتا ہے۔

کتاب کے ایڈیشن رجب المرجب ۱۳۴۲ھ/ ۱۹۲۳ء سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ممبئی کے مضافاتی قصبے اسلام آباد، بھیمڑی میں مقیم تھے،اور ہمارا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ شاید آپ اعظم گڑھ سے یہاں وارد ہوئے ہوں، اور ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۰ء سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد علی روڈ ، بھنڈی بازار کی مشہور منارہ مسجد میں واقع مدرسہ الاسلام میں آپ صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اسی کے قریب  واقع چونا بھٹی مسجد میں جہاں ممبئی کا قدیم دارالعلوم امدادیہ واقع ہے، وہاں  پر ایک اور عالم دین مولانا محفوظ الرحمن نامی بہرائچی نے مفتاح القرآن کے نام سے قرآن فہمی کے لئے مقبول عام ریڈر مرتب کیا تھا۔ عربی کا معلم کے پہلے ایڈیش کے گیارہ سال بعد محرم الحرام ۱۳۶۴ھ/ ۱۹۴۵ء میں  کتاب کے چوتھےایڈیشن کےوقت بھی عربی کا معلم کے مصنف یہیں بھنڈی بازار میں مقیم تھے۔

کتاب کے پہلے ایڈیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترتیب میں مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ، مولانا غلام احمد تلیائی مدیر اعلی مدرسہ محمدیہ (جامع مسجد بمبئی )، مولانا محمد شرف الدین پرنسپل یتیم خانہ اہل اسلام  بمبئی نے وقتا فوقتا رہنمائی ملتی رہی۔

مولانا فرنگی محلی خلافت تحریک کے عظیم قائد اور مولانا محمد علی جوہر کے شیخ تھے، مولانا غلام احمد تلیائی کوکن سے تعلق رکھتے تھے، اور فقہ شافعی میں مرجع سمجھے جاتے تھے، اور مولانا محمد شرف الدین ، محمد علی روڈ پر واقع برصغیر میں مصر اور عالم عرب کی کتابوں کی مشہور دکان شرف الدین الکتبی واولادہ کے بانی تھے، آپ کے فرزندان میں مولانا عبد الحکیم شرف الدین اور مولانا عبد الصمد شرف الدین نے عربی کتابوں کی تحقیق و اشاعت میں بڑا نام کمایا، رابطہ عالم اسلامی کے سابق جنرل سکریٹری عبد اللہ عمر نصیف آپ کے بھانجے ہیں۔ اس خاندان میں صالحہ شرف الدین کی بھی علم وتحقیق میں شہرت رہی ہے۔

شاید قارئین کے لئے یہ بات باعث تعجب ہو کہ مولانا عبد الستار خان مسلکا اہل حدیث تھے، یہ بات ہمیں قاری محمد اسماعیل کاپرے مرحوم سابق ناظر کتب خانہ محمدیہ جامع مسجد ممبئی نے بتائی تھی، مولانا غلام محمد تلیائی مرحوم کی فرمائش پر آپ نے شافعی مذہب کا پہلا رسالہ، دوسرا رسالہ اور تیسرا رسالہ تصنیف کیا تھا، اور ہماری نظر میں طلبہ کی نفسیات کو دیکھ کر ترتیب دیا گیا اردو میں فقہ شافعی کا یہ منفرد ریڈر ہے، اور قریب زمانے تک یہ ریڈر سرکاری اسکولوں میں رائج رہا ہے، مولانا تلیائی نے مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کی تعلیم الاسلام کے انداز میں سوال وجواب پر مشتمل رسالے وضاحت الاسلام کے نام سے مولانا غلام محمد خطیب سابق امام و خطیب جامع مسجد ممبئی سے لکھوائے تھے، اور یہ بھی کافی مقبول عام اور اسکولوں میں رائج تھے۔ داخلی شہادتوں سے یہی کچھ معلوم ہورہا ہے، مولانا عبد الستار خان کو ذاتی طور پر جاننے والے لوگ اب شاید اس دنیا نہیں رہے،ہماری باتیں دور سے تیر چلانے کی ہیں، علم وکتاب کی اس بزم میں کئی سارے اہل علم ہیں جو شخصیات کے سلسلے میں ہم سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی سرا مل جائے تو ضرور آگاہ کریں۔