Musawat aur Muwasat by Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

04:53PM Sun 24 Mar, 2024

’’اے لوگو ، تم پر ایک عظیم المرتبت اورمبارک مہینہ سایہ فگن ہورہاہے۔ اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اس ماہ میں روزے اللہ نے فرض کئے ہیں، اور راتوں میں قیام کو نفل قراردیاہے، اس ماہ میں تقرب کی نیت سے نفل عبادت کا اجربرابر ہے فرض کے اورفرض کا اجربرابر ہے عام اجر فرض کے ستّر گُنے کے۔ لوگو، یہ مہینہ صبر کا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کی باہمی ہمدردی کاہے ……یہ وہ مہینہ ہے جس کے شروع میں رحمت ہے، درمیان میں مغفرت ہے ، اورآخر میں جہنم سے نجات ہے‘‘۔

سچےؐ کی زبان نے جس مہینہ کے یہ فضائل بیان کئے، وہ پھر آگیا ۔ زمین کے گیارہ مہینوں کی گردش کے بعد پھر وہ بہار کا موسم آگیا۔ مسجدیں آباد ہوگئیں، نمازیوں کی آبادی بڑھ گئی۔ تراویحیں ہونے لگیں، قرآن گھر گھر پڑھے جانے لگے۔ سحری کے سہارے تہجد بھی بہتوں کونصیب ہونے لگی۔ افطار کی فرحت الفاظ میں ناقابل بیان۔ اس کی قدربے روزہ خود غریب کیاجانے ! اُس بیچارہ نے روزہ سے جی چُرا کر اپنے کو کسی محنت سے بچایا ہو یا نہ ہو، لیکن افطار کی لذت وفرحت سے تو یقینا اپنے کو محروم کرلیا!

ریلوے میں ایک زمانہ ’’کنسیشن‘‘ کا ہوتاہے۔ ٹکٹ سستے ہوجاتے ہیں، تھوڑے دام میں سفر بہت کچھ ہوجاتاہے۔ روحانیت کی دنیا میں بھی ’’کنسیشن‘‘ کا موسم ہے۔ اور اس رعایت کی شرح اتنی اونچی، کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز۔ تھوڑا کیجئے، اور صلہ بہت کچھ پائیے۔ صبر صرف چند گھنٹوں کے لئے کام میں لائیے۔ ہمت کا امتحان ہلکے سا ہلکا دے کر دیکھئے، اور پھر انعام واکرام بیشمار لوٹ لیجئے……طبّی حیثیت سے جو فوائد ہیں، وہ بیشمار۔ اخلاقی، قومی ڈسپلن کے لحاظ سے بے نظیر۔ اَور پھر آخرت میں اجر ومزد کے جو انبار پر انبار نظرآئیں گے، اُن کے تو اندازہ کے لئے بھی عقل بشری ناکافی……انفرادی، اجتماعی، جسمانی، روحانی، جس پہلو سے بھی جانچئے، پرکھئے، اس بے مثال ادارہ کی مثال نہ کسی دوسرے مذہب میں نظرآئے گی، نہ کسی دوسری قوم میں۔ مسلمان، رسمی اور اسمی مسلمان، اس گئی گزری حالت میں بھی، صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہ کر نماز ہروقت کی پڑھے گا، اور شام کو تازہ دَم ہوکر پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ شروع رات سے پَیر پھیلا کرسوئے ، نماز اول شب میں ہمیشہ ۱۷رکعتیں پڑھتاتھا، اب مہینہ بھر ۳۷رکعتیں پڑھے گا، اور پچھلی رات میں جوکچھ پڑھے گا، وہ اُس کے علاوہ!

بھوک کی قدر وہی کرسکتاہے جو خود بھی کبھی بھوکا رہے۔ اور پیاسوں کے ساتھ ہمدردی اُسی کو ہوسکتی ہے جو خود بھی کبھی پیاسا رہ کر دیکھے۔ یہاں سوال ’’کبھی‘‘ کا نہیں، عمر کے ہر سال، اور ہر سال کے پورے مہینہ بھر کے لئے لازمی ہے، کہ بڑے سا بڑا، امیر بھی اس حیثیت سے اپنے کو روزانہ ۱۲۔۱۲،اور ۱۵۔۱۵گھنٹے پانی دانہ سے محروم رکھ تجربہ کرے کہ بھوک اور پیاس کہتے کسے ہیں……گرمیوں کا موسم، پہاڑ کے سے دن، امیر سا امیر مسلمان صبح تڑکے اُٹھے گا، چائے کا وقت آئے گا اور گزر جائے گا۔ نہ چائے نہ ناشتہ ، دوپہر آئے گی اور پھر فاقہ، سہ پہر آئے گا، اور نہ شربت نہ آئس کریم نہ برف کی قلفیاں ، نہ سگرٹ نہ پان، نہ سگار نہ پیچدان۔ جو دن میں کئی کئی بار کھانے اور ناشتہ کا عادی، وہ ایک لقمہ بھی زبان پر نہ رکھ سکے گا۔جودن میں گلاس پر گلاس برف کے چڑھاجانے کا عادی، وہ ایک قطرہ سے بھی زبان کی خشکی نہ دُور کرسکے گا! دنیا کے سارے مذہبوں، ساری قوموں کا جائزہ لے ڈالئے ہے کہیں کوئی مثال اس مساوات کی، اوراس مواسات کی، اس صحیح اور سچی اشتراکیت کی، اس صحیح اور سچی عبدیت کی؟