Mujhay Inquilabi Hal Chahiay by Dr F. Abdur Rahim

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:33AM Thu 3 Oct, 2024

جامعہ ازہر کی فیکلٹی آف عربک میں میرا داخلہ 1964میں ہوا تھا۔ فیکلٹی کے نظام کے مطابق مجھے .Ph.D میں داخلہ سے پہلے ایم فل کرنا تھا۔ چنانچہ میں نے ”عربی زبان میں مستعمل فارسی الفاظ " کے نام سے مقالہ لکھا جس کا مناقشہ ہوا، اور مجھے ڈگری مل گئی۔ انہی دنوں میں عربی کے مشہور محقق اور نحو کے نامور عالم شیخ عبد الحمید محی الدین ہماری فیکلٹی کے ڈین بن گئے۔ وہ قدیم طرز کے عالم تھے اور اس زمانے کے پروفیسروں کی تصانیف کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کو ایم فل کے نصاب سے اختلاف تھا۔ اس سال ایم فل کرنے والے تین تھے، میں اور میرے دو مصری ساتھی۔ شیخ محی الدین صاحب ہم لوگوں کو Ph.D میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ایک دن ہم تینوں ان سے ملنے گئے۔ انہوں نے کہا: ایم فل کے نصاب میں مقررہ کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے phonetics کی کتاب کا ذکر کیا۔ بولے: اس کے مصنف کون ہیں ؟ ہم نے بتایا کہ اس کے مصنف کلیہ دارالعلوم کے ڈین ڈاکٹر ابراہیم انیس ہیں۔ انہوں نے حیرت سے کہا: ایم فل کے نصاب میں اس کی کتاب پڑھائی جاتی ہے ؟ پھر بولے: «هو جاهل زيكم» یعنی وہ تو تم لوگوں کی طرح جاہل ہے۔ اسی وجہ سے میں اس نصاب سے خوش نہیں ہوں۔ ہم اس مسئلے پر غور کر رہے ہیں، اور جو فیصلہ ہو گا آپ لوگوں کو اس کی اطلاع دی جائے گی۔ میں ہر روز کالج جاتا اور کالج سکریٹری دور سے اشارہ کر کے بتا دیتے تھے کہ اب تک کوئی نئی بات نہیں ہوئی۔ مجھے ہندوستان کے cultural exchange programme کے تحت اسکالر شپ ملتا تھا۔ .Ph.D کے داخلے میں کافی تاخیر ہو چکی تھی۔ مزید تاخیر کی صورت میں اسکالر شپ کے بند ہو جانے کا خدشہ تھا۔ میں اس بارے میں بہت فکر مند تھا۔

 میں مہم جو قسم کا آدمی نہیں ہوں، اور کوئی انقلابی قدم اٹھانا میرے مزاج کے منافی ہے۔ لیکن مجبوری کے احکام مختلف ہوتے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے اصول پر میں نے  ازہر کے وزیر جناب با قوری صاحب سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔

 االمنيرة نامی محلہ میں ان کا دفتر تھا، خلاف عادت دفتر کے گیٹ پر کوئی سنتری نہیں تھااندر داخل ہوا، سکریٹری کا کمرہ بھی خالی تھا، پھر ایک دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناب با قوری ن صاحب تشریف فرما ہیں اور ایک بڑے فوجی افسر کے ساتھ ہم کلام ہیں۔ مجھے اس وقت ہمت آگئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور دونوں سے مصافحہ کیا، پھر میں نے وزیر صاحب کو اپنا دکھڑ ا سنایا۔ انہوں نے میری مشکلات سے کوئی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ کہنے لگے: یہ مسئلہ ڈین سے بات کر کے طے کر لو۔ یہ سن کر میں طیش میں آگیا۔ میں نے چلا کر کہا: اريد حلا ثوريا  یعنی مجھے انقلابی حل چاہیے۔ اور یہ جملہ بولتے ہوئے میں نے ایک زور دار گھونسہ میز پر مارا۔ صدر جمال عبد الناصر کا زمانہ تھا۔ کچھ دس سال پہلے فوج نے انقلاب کے ذریعہ ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تھی، اور شاہ فاروق کو ملک بدر کر دیا تھا۔ ان دنوں «ثورة» ایک خطر ناک لفظ تھا، عوام اس سے بہت ڈرتے تھے۔ میرے اس جملہ کی وجہ سے وزیر صاحب بہت پریشان ہو گئے۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیے انہوں نے فورا کہا: «الحل الثوري عند حضرة الضابط» یعنی انقلابی حل تو آفیسر صاحب کے پاس ہے۔ اب افسر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، وہ میرے مسئلے کا حل نکال سکتے تھے۔ انہوں نے صرف ایک جملہ کہا: "تم ابھی سیدھے کالج چلے جاؤ۔ دائیں بائیں کہیں نہ مڑنا "۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ کالج پہنچا تو دیکھا کہ واقعی انقلاب برپا ہو چکا ہے:

نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی

 کالج سکریٹری دروازے پر کھڑے ملے۔ بولے: بھائی عبد الرحیم ! ایم فل کی ڈگری لیے تم کو پورے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ اب تک تم نے .Ph.D میں داخلے کی درخواست کیوں نہیں دی ؟ تم کو اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ دیکھو میں تمہارے لیے داخلہ فارم لے آیا ہوں، یہیں بیٹھ کر اسے فورا بھر کر مجھے دے دو۔ کل اس وقت آنا، داخلے کی کاروائی ان شاء اللہ پوری ہو چکی ہو گی۔ میں خوشی خوشی واپس ہوا اور اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ ثورة یعنی انقلاب میرے حق میں مفید ثابت ہوا۔