مردوں کی مسیحائی۔۔۔۰۸۔۔۔ فقر محمدی ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

04:00AM Tue 27 Sep, 2022

فقر محمدیؐ پرانے مشائخ طریقت میں ایک بزرگ شیخ احمد بن ابراہیم الواسطیؒ گزرے ہیں، جن کو شیخ عبد الحق دہلویؒ ’’عالم عامل‘‘ اور ’’عارف کامل‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور شہادت دیتے ہیں کہ  ’’از کبار مشائخ دیار عرب بود، و مقتدائے روزگار، در طریق اتباع سنت و تقویم و ترویج ایں طریقہ بے نظیر وقت بود۔‘‘ ...عرب کے مشہور مشائخ میں سے تھے اور اپنے زمانہ کے پیشوا اور پیروی سنت رسولؐ اور اس کے پھیلانے میں اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے.... ان بزرگ کا عربی میں ایک رسالہ’’الفقر المحمدیؐ‘‘ کے نام سے ہے، شیخ دہلویؒ کو ایک نسخہ اس کا ہاتھ لگ گیا۔ اس کا فارسی ترجمہ انہوں نے ’’تحصیل الکمال الأبدی باختیار الفقر المحمدی‘‘ کے نام سے کردیا، جو ان کے مجموعہ رسائل و مکتوبات میں نمبر پانچ پر شائع ہوا ہے۔ آج تصوف کے بہت سے دشمن اور مخالفین اور بہت سے دوست و موافقین، اس کو شریعت اسلام سے علیحدہ کوئی مستقل نظام سمجھ رہے ہیں، ان دونوں گروہوں کے حق میں، شاید اس کے بعض مطالب کا مطالعہ مفید ہو۔ ترجمہ لفظی نہیں، عنوانات میرے اضافہ کئے ہوئے ہیں اور مضامین کی ترتیب بھی میری قائم کی ہوئی ہے۔ تصوف کا اصل اصول اگرچہ سچی درویشی اور اصلی فقیری کی طلب ہے، جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں بلند ہوں تو لازم ہے کہ محمدؐ رسول اللہ کی فقیری اور درویشی کو اختیار کرو، اور انہیں کی پیروی کرو کہ صاف اور پاکیزہ پانی وہیں ملتا ہے جہاں سے چشمہ پھوٹتا ہے اور بعد کے آنے والوں کی درویشی کو اختیار نہ کرو کہ پانی سرچشمہ سے دور جاکر گندلا ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ اصلی باقی نہیں رہتا۔ اس مسلک کا انجام اس طریقہ محمدیؐ پر اگر قائم رہے تو امید ہے کہ اگلوں سے جا ملوگے، جو پیغمبر خداﷺکے اصحاب میں سے تھے اور قیامت کے روز پیمبرؐ کے جھنڈے کے نیچے پیمبر و یارانِ پیمبر کے ساتھ تمہارا حشر ہوگا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ دوسرے اپنے اپنے شیوخ اور مرشدوں کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے لیکن تمہارے اوپر اس وقت تمہارے شیخ یعنی حضورؐ رسول خداﷺکے جھنڈے کا سایہ ہوگا۔ تصوف کے معنی لوگوں کی زبان پر آج فقر فقر ہے، لیکن اس کی حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں، نہ یہ جانتے ہیں کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے اور نہ یہ خبر ہے کہ اس کی انتہا کیاہے۔ اگر فقر کے معنی سمجھ میں آجائیں اور اس کے ابتدائی مدارج کا علم ہوجائے تو اس پر اس کی انتہا کا بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فقر کے میدان میں قدم رکھنا صرف اسی وقت ممکن ہے جب ممنوعات سے بچنے اور احکام کی تعمیل پر قدرت حاصل ہولے۔ لازمی شرطیں اس رنگ میں ڈوبنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ جس طرح متقی اپنے جسم کو گناہ سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح فقیر اپنے دل کو خیال گناہ سے محفوظ رکھے اور اگر دل میں کبھی کوئی خطرہ پیدا ہو تو فوراً اس سے توبہ کرے۔ فقیر ایسے ہی ہوتے ہیں، جن کے دلوں میں مرضی الٰہی کے خلاف کسی خطرہ کا گزر ہی نہیں ہوتا، انہیں اس امر کی شرم ہوتی ہے کہ خدا کی دوستی کا دعویٰ کرکے کسی غیر خدائی خیال کو دل میں آنے دیں۔ یہ فقر کا ابتدائی مرتبہ ہے، جب تک یہ قدرت نہ حاصل ہولے، زبان پر فقیری کا نام لاتے ہوئے بھی شرمانا چاہیے۔ گناہ سے بچنے، احکام کی پابندی کرنے اور دل کو خطرات و وساوس سے محفوظ کرلینے کے بعد دوسری شرط فقیر کے لیے یہ ہے کہ خدا کی طلب و محبت دل پر اتنی غالب آجائے اور طبیعت خدا کی محبت سے اس قدر مغلوب ہوجائے کہ دنیا کے تمام فوائد و منافع، بالکل جل جائیں اور ان کا خیال تک نہ آنے پائے، دل کو محض محبوب حقیقی و مطلوب اصلی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور ماسویٰ سے بالکل خالی ہوجانا چاہیے۔ جب تک یہ کیفیت نہ طاری ہوجائے فقیری کا دعویٰ کرنے سے شرمانا چاہیے۔ کاملین کا مرتبہ اوپر جو شرطیں بیان کی گئیں، یہ مبتدیوں کے لیے ہیں۔ جب دل کو انہیں کے سننے کی تاب نہیں اور ان پر عمل کی توفیق نہیں تو کاملین کے مرتبہ کمال کو یہ کیوں کر سمجھ سکتا ہے اور اس کی تشریح اس مختصر رسالہ میں کیسے کی جاسکتی ہے۔ صرف ان کے مرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جھوٹے مدعی رونے کا مقام ہے کہ ہم میں ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے، جو حرام کھاتا ہے اورباطل میں مشغول رہتا ہے۔ جو ان لوگوں کو مل جائے وہی ان کے نزدیک حلال ہے، اور جو نہ ملے وہی حرام ہے، دن رات انہیں یہ دھن سوار رہتی ہے کہ لذیذ غذائیں کھانے کو، خوب صورت چہرے دیکھنے کو، اور نغمہ کی آوازیں سننے کو ملتی رہیں اور اس دھن میں یہ بڑے بڑے دعوے زبان سے نکالتے ہیں اور اپنے میں وجد و حال ظاہر کرتے ہیں تاکہ عوام ان کے معتقد ہوں اور انہیں دنیا کچھ اور ہاتھ آئے۔ ان لوگوں کو نہ حلاوت اسلام سے واسطہ، نہ لذت ایمان سے سروکار، ساری ساری رات رقص و سماع میں مصروف رہتے ہیں اور نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو گویا ٹکریں مار کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، امیروں اور بادشاہوں کے ہاں کی آمد و رفت اور ان سے نذریں حاصل کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کے شر سے بچائے کہ دنیا کے رہزنوں سے کہیں بڑھ کر یہ دین کے رہزن ہیں۔ دنیا کا رہزن مال لے جاتا ہے اور یہ دولت ایمان پر ہاتھ صاف کرتے ہیں، عوام پر ان کے لباسِ فقر کا اثر پڑتا ہے اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ فقیری اسی کا نام ہے۔ سچے فقیر کی علامت محمدیؐ فقیروں کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے ذوق سے مست رہتے ہیں اور اس کی آواز پر وجد کرنے لگتے ہیں اور اس کے سننے کے وقت ان پر خود متکلم یعنی خدا کی تجلیوں کا عکس پڑنے لگتا ہے۔ کیسے غضب کی بات ہے کہ جس محبوب کی محبت کا دعویٰ کیا جائے، اسی کے کلام میں لطف نہ آئے، اس کے لیے طبیعت حاضر نہ ہو، اور لطف آئے تو شعر و قصیدہ پر، گانے بجانے پر اور تالیوں پر سماع اور قرآن اللہ کے دوستوں اور عاشقوں کے لیے ساری لذت و حلاوت قرآن میں ہے اور ان کے دلوں کی راحت و تسکین کا سامان اسی میں ہے۔ کلام کے ساتھ ہی ان کا دل متکلم سے وابستہ ہوجاتا ہے اور قرآن کے احکام و قصص، مواعظ و اخبار، وعد و وعید کو سنتے ہی ان کے دلوں میں گداز پیدا ہوجاتا ہے اور متکلم کی عظمت میں وہ اپنی ہستی گم کردیتے ہیں اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ شعر کو نہ کہ قرآن کو، طبیعت بشری سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اشعار کو سن کر دل میں قدرتاً تحریک پیدا ہوتی ہے، سو یہ قول لغو بے حقیقت ہے، اس لیے کہ شعر کے وزن اور موسیقی کے تال سر پر حرکت کرنا جبلت حیوانی کا تقاضا ہے، چنانچہ حیوانات اور بچے، سب اچھی موسیقی سے اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ فطرت حیوانی ہے۔ انسان کی اعلیٰ فطرت کا درجہ اس سے کہیں بلند ہے، جن کے دلوں میں ایمان گھر کرچکا ہے اور محبت الٰہی حلاوت حاصل کرچکی ہے، جیسا کہ حضرات صحابہ اور ان کے بعد آنے والوں کا حال تھا، سو ان کے قلب کو حرکت میں لانے والی اور ان کے شوق، وجد، رقت اور خشوع کو بڑھانے والی شے، قرآن پاک کی سماعت ہی ہوسکتی ہے۔ عملی ہدایات صحیح تصوف یا فقر محمدی میں قدم رکھنے کے لیے عملی ہدایتوں سے پہلی شے یہ ہے اپنے پروردگار کے سامنے جس نے قرآن اور رسول جیسی پاک نعمتیں اتاری ہیں، صدق دل سے توبہ کرنا، پھر تنہائی میں جاکر، سب کی نظروں سے الگ، وضو کرکے دو رکعتیں خشوع قلب کے ساتھ پڑھنا، اس سے فارغ ہوکر ننگے سر، ہاتھ باندھے ہوئے اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر اتنی دیر کھڑے رہنا کہ دل میں گداز پیدا ہوجائے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں، اس وقت رو روکر توبہ و استغفار کرنا، اور الفاظ حدیث کے مطابق سید الاستغفار پڑھنا، پھر طریق پیروی رسولؐ پر قائم و مضبوط رہنے کے لیے توفیق چاہنا اور آئندہ کے لیے مضبوط عہد کرنا کہ آنکھ، کان، زبان، شکم، شرم گاہ اور ہاتھ پیر، ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رہیں گے، ایسا کہ جب دن ختم ہو، تو نہ زبان کسی کی بد گوئی، جھوٹ، بد زبانی وغیرہ سے آلودہ ہوئی ہو، نہ کان نے کوئی بے جا بات سنی ہو اور نہ آنکھ کسی ایسی چیز پر پڑی ہو، جس کا دیکھنا شرعاً پسندیدہ نہ تھا اور نہ خالق و مخلوق میں سے کسی کا حق اپنے اوپر باقی رہنے پائے۔ عملی ہدایات کی دوسری دفعہ یہ ہے کہ نماز باجماعت، اپنے ارکان و آداب و حضور قلب وغیرہ کی پوری پابندیوں کے ساتھ ادا کی جائے، ایسی کہ حدیث میں جو لفظ ’’احسان‘‘ آیا ہے، اس کی پوری عملی تفسیر ہوتی رہے۔ حال صحیح وہی ہے جو حالت نماز میں طاری ہو۔ بندہ اور پروردگار کے درمیان رابطہ پیدا کرنے والی شے نماز ہے، پس اگر نماز میں حضور قلب پیدا نہیں ہوتا تو اس کا کوئی حال معتبر نہیں، اس لیے کہ جس بندہ کے حجابات، ایسی منزل قرب میں بھی پہنچ کر دور نہیں ہوئے، اس کے لیے کسی دوسرے موقع پر اس کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ حیف ہے کہ سماع شعر کے وقت تو قلب حاضر ہو لیکن جو وقت عین حضوری حق کا ہوتا ہے، اسی وقت غائب ہو۔ ایسی فقیری فاسد اور ایسی درویشی ناجائز۔ بنیاد کا راز سچے تصوف کی ساری بنیاد رسولؐ کریمﷺ کے ساتھ محبت و ربط قلب پیدا کرنے پر ہے، اپنے دل کو اس ذات گرامی کی محبت میں اٹکایا جائے، اسی کو اپنا شیخ اور اپنا امام بنایا جائے، اسی کے نام پر بکثرت درود و صلاۃ بھیجا جائے اور اسی کے ساتھ پیوند محبت مستحکم کرلیا جائے۔ تمام درویشوں کو دیکھا ہوگا کہ ان کے دلوں میں ان کے مرشدوں کی ایسی عظمت بیٹھ جاتی ہے کہ وہ جب کبھی اپنے شیخ اور مرشد کا نام سنتے ہیں، تو بے چین ہوجاتے ہیں، یہی کیفیت، یہی نسبت قلب سچے درویش کو رسول کریمﷺکی ذات گرامی کے ساتھ پیدا کرلینی چاہیے۔ اپنا امام اور شیخ انہیں کو بنانا چاہیے۔ دل میں خیال آئے تو انہیں کا، آنکھوں میں صورت پھرتی رہے تو انہیں کی، کان لذت حاصل کریں تو انہیں کے نام مبارک سے، عظمت کا احساس پیدا ہو تو انہیں کے ذکر سے، زبان انہیں پر درود بھیجنے میں لگی رہے، دل میں انہیں کے حالات سننے اور جاننے کا ذوق پید اہو، حدیث و آثار کے پڑھنے سے علاقہ محبت کو اور ترقی ہو، شوق و اشتیاق ہو تو انہیں کا، یاد ہو تو انہیں کی، پیروی ہو تو انہیں کی، ہر امر میں انہیں کے حکم کی تعمیل اور پیروی کا شوق غالب ہو اور ان کی پیروی میں اتنی شدت برتی جائے کہ ہر شخص دیکھتے ہی ’’محمدی‘‘ سمجھ لے۔ رسالہ کے اہم اور ضروری مطالب کا ملخص سطور بالا میں آگیا۔ شیخ عبد الحق دہلویؒ ان تمام مطالب کو نقل کرنے کے بعد خود بھی ان کی پرزور تائید کرتے ہیں۔ کیا اہل شریعت اس میں کوئی امر اپنے عقیدہ کے خلاف پاتے ہیں؟ کیا اہل طریقت کو اس میں کہیں حرف رکھنے کی گنجائش ہے؟ کیا کسی گروہ کو کوئی وجہ اعتراض ہے؟ ہمارے سچے رسولؐ کی زبان سے یہ پیام دنیا کو پہنچا تھا کہ غیر مسلم، اگر خدائے واحد ویکتا کی پرستش پر متفق ہوجائیں تو مسلمانوں سے فوراً صلح ہوسکتی ہے، اگر آج سارے اسلامی فرقے، رسولؐ خاتم و برحق کی محبت و اطاعت کے مرکزی نقطے پر آکر جمع ہوجائیں تو آپس کی رنجش و نقیض، رد و کد کے لیے کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟