مردوں کی مسیحائی۔۰۴۔ دو راستے۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Seeratun Nabi

12:00AM Tue 27 Sep, 2022

دلوں کی اقلیم میں انقلاب منکروں کا اقرار مہینوں کی تپش و تابش، لو اور لپٹ، تڑاقے اور جلاپے کے بعد، جب برسات کی ہوائیں چلتی ہیں، تو کالے کالے بادل امنڈ امنڈ کر آتے ہیں اور جل تھل بھرجاتے ہیں، سالہا سال کی سختیوں اور آزمائشوں، امتحانات، ابتلاآت کے بعد، جب مشیت مطلقہ کو، اس مشیت کو جس کے اوپر کوئی مشیت نہیں، منظور ہوا کہ مردہ میں جان پڑ جائے اور سوکھی ہوئی کھیتی لہلہانے لگے تو نیتوں کے رخ پلٹ دئیے اور دلوں کی اقلیم میں انقلاب برپا کردیا۔ جو گردنیں اکڑی ہوئی تھیں وہ جھکیں اور جو زبانیں انکار پر اڑی ہوئی تھیں، وہ اقرار کا کلمہ پڑھنے لگیں۔ جو قلوب اپنی سختی و شقاوت میں پتھر کو شرما رہے تھے وہ پانی ہو گئے اور جو جہنم کے شعلوں کے لیے تیار ہورہے تھے، وہ جنت کے ٹکٹ کی خریداری کو لپک لپک کر بڑھے۔ مکہ کی سرزمین جو توحید کے منادی کرنے والے پر تنگ ہوچکی تھی، اب اسی بے بس و بے کس یتیم کے جاہ و جلال، فتح و اقبال کے سامنے اپنی ساری وسعتوں اور پہنائیوں کے ساتھ پیش ہوئی اور خانہ کعبہ کا دروازہ اسی ہجرت کرجانے والے پردیسی کے ہاتھوں، نہیں بلکہ اس کے خادموں اور خدمت گزاروں کے ہاتھوں کھل کر رہا۔ جس اللہ کا نام زبان پر لانا منع تھا، اب اسی کی بڑائی کی پکار عرب کے گوشہ گوشہ میں گونجی اور اس کے جس بندہ کو مکہ نے حقیر جانا اور طائف نے جس پر تمسخر کیا تھا، اس کی سچائی اور عظمت کی شہادت دینے پر اب مکہ و طائف، نجد و حجاز، یمن و عمان، دشت و جبل کے پیرو جوان، زن و مرد، غول کے غول، خیل کے خیل، جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھنے لگے! جس مجبور و بے کس کو، اپنا عزیز و محبوب وطن، بالفاظ گبنؔ،۱راتوں رات صرف ایک رفیق طریق کی معیت میں چھوڑنا پڑا تھا، وہ اس شہر میں جس کے در و دیوار تک اس کی عداوت کا عہد کرچکے تھے، اس کے آٹھویں ہی برس، اس شان سے داخل ہوا کہ دس ہزار آہن پوش جاں باز اس کے جلو میں تھے، اور کعبہ نبوی کا منظر اس جاہ و جلال کا تھا کہ بڑے سے بڑے دشمن اسلام کی آنکھیں خیرہ ہوکر رہ گئیں۔ ایک مؤرخ ان الفاظ میں نقشہ کھینچتا ہے: ’’لشکر اسلام جب مکہ کی طرف بڑھا، تو آنحضرت ﷺ نے حضرت عباسؓ سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر کھڑا کردو، کہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ کچھ دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم پیدا ہوا۔ قبائل عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھیں۔ سب سے پہلے غفار کا پرچم نظر آیا۔ پھر مہینہ، پھر ہذیم، پھر سلیم، ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر ہر دفعہ مرعوب ہو ہوجاتا تھا۔ سب کے بعد انصار کا قبیلہ اس سرو سامان کے ساتھ آیا کہ آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ ابو سفیان نے متحیر ہوکر پوچھا یہ کون لشکر ہے؟ حضرت عباسؓ نے نام بتایا۔ دفعۃً سردار فوج حضرت سعد بن عبادہ ہاتھ میں علم لیے ہوئے برابر سے گزرے، اور ابو سفیان کو دیکھ کر پکار اٹھے؛ ’’الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الکعبۃ‘‘ آج گھمسان کا دن ہے، آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔ سب سے اخیر کعبہ نبوی نمایاں ہوا، جس کے پَرتو سے سطح خاک پر نور کا فرش بچھتا جاتا تھا۔ حضرت زبیر بن العوام علم بردار تھے۔‘‘ ...سیرۃ النبی، شبلی؛ جلد اول،ص: ۳۷۷ باطل کی سرداری ختم چند سال کے اندر دیکھتے دیکھتے دنیا کی کایا پلٹ ہوچکی تھی۔ اب راج تھا تو مکہ کے اسی امی کااور جیت تھی تو بنی ہاشم کے اسی یتیم کی۔ ابو جہل کی فخاری، عتبہ کی سرداری، ابولہب کی ریاست، سب نسیاً منسیاً ہوچکی تھی اور عاص بن وائل، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ کے بھائی اور بھتیجے، بیٹے اور پوتے اگر کہیں تھے تو اس آرزو و تمنا میں دوڑتے ہوئے کہ اللہ کے رسولﷺکی رکابوں کو چومیں، اور خاک پا کو آنکھوں سے لگائیں!

نصرت الٰہی یہ عجیب و غریب نظارہ، عالم رویا و منام میں نہیں، نگاہ کشفی و عرفانی سے نہیں، اسی عالم حس و بیداری میں، انہیں مادی آنکھوں سے دکھایا گیا اور دکھانے کے ساتھ ہی جتا بھی دیا گیا، کہ یہ جو کچھ ہوا محض نصرت الٰہی سے ہوا، نصرت کا وعدہ شروع ہی سے تھا، نصرت علم باری میں مقدر ہوچکی تھی، جب اس کی گھڑی آئی، نصرت اپنے عین وقت پر ظاہر ہوکر رہی۔۲ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ورنہ کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اپنے عزم و ہمت، اپنی سعی و زور بازو سے ممکن نہ تھا کہ اتنا زبردست و عظیم الشان انقلاب پیدا کرسکتا، اور فتح، اسی نصرت الٰہی ہی کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہوکر رہی۔ نصرت کا رنگ تو لطیف و خفی ہوتا ہے۔ اس کا ادراک تو صرف صاحب بصیرت ہی کرسکتے تھے، فتح کا ظہور ایسا مادی اور اس قدر نمایاں اور کھلا ہوا ہوکر رہا، کہ عامی سے عامی نے بھی اسے دیکھا، اور غبی سے غبی بھی اس کو سمجھ کر رہا۔ پھر نری ’’فتح‘‘ ۳ تو دوسروں کے لیے بھی ممکن ہے۔ جسموں کے فاتح تو دنیا میں اور بھی ہوئے ہیں، یہ نبیﷺکی فتح تھی، اللہ کے سب سے بڑے پرستار کی فتح تھی۔ سکندر اور چنگیز، نپولین اور ہنڈن برگ کی فتح نہ تھی۔ یاد یہ نہیں دلایا جاتا کہ ملک کا رقبہ اتنا وسیع ہوا، خراج کی رقم میں اتنے کا اضافہ ہوا، ’’رعایا‘‘ کی گنتی اتنی بڑھی، بلکہ مخاطب کے خاص مذاق پیمبری کی رعایت سے ارشاد یہ ہوتا ہے کہ اس فتح کے آثار میں تم نے سب سے بڑا اور نمایاں اثر یہ دیکھ لیا کہ {وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللہِ أَفْوَاجاً} جس دین میں شامل ہوتے لوگ اکّا دکّا بھی ڈرتے تھے، اس میں اب فوج کے فوج، جوق جوق، گھرانے کے گھرانے، محلہ کے محلہ، قبیلہ کے قبیلہ، کھلے خزانے، ہانکے پکارے، بے دھڑک اور بلا جھجک شامل ہورہے ہیں اور شامل کاہے کو ہورہے ہیں، کسی انسانی جتھے کی تقویت کے لیے نہیں، قبیلہ، قوم، ملک، رنگ، نسل، وطن کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے نہیں، ’’نیشنل ازم‘‘ کے نام پر جینے اور مرنے کے لیے نہیں، بلکہ فی دین اللہ، محض اللہ کے نام کی پاکی اور بلندی کے لیے، توحید کی پرستاری کے لیے، لوگ سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں، ہتھیار نہیں رکھ رہے تھے، سیاسی محکومی کے اقرار نامے نہیں لکھ رہے تھے، مسلمان ہورہے تھے، توحیدکا کلمہ پڑھ رہے تھے، نجات و غفران کے پروانے حاصل کر رہے تھے اور کل تک جس نور حق کے خون کے پیاسے تھے، آج اسی شمع کے گرد پروانہ وار خود نثار ہوجانے کو آگے بڑھ رہے تھے۔ دنیا نے ’’فتوحات‘‘ بہت سی دیکھی ہیں، ایسی حیرت انگیز ’’فتح‘‘ بھی چشم تاریخ نے کہیں دیکھی ہے؟ اس عجیب و غریب فتح کو بجز نصرت الٰہی کے اور کسی شے پر محمول کرنا ممکن ہے؟ دنیا جب فتح مند ہوتی ہے تو عام طور پر کیا کرتی ہے؟ اچھلتی ہے، کودتی ہے، ناچتی ہے، گاتی ہے، باجہ بجاتی ہے، جشن مناتی ہے، کھاتی ہے، کھلاتی ہے، پیتی ہے، پلاتی ہے، یہ ’’فتح‘‘ جس طرح اپنی ذات میں بے نظیر تھی، اپنے ثمرات و عواقب کے لحاظ سے بھی بے نظیر رکھی گئی۔ حکم یہ نہیں ملتا کہ اس فتح کی خوشی میں شہر کو چراغاں کیا جائے، کوئی جلوس نکالا جائے، جلسے اور مظاہرے کرکرکے تجویزیں پاس کی جائیں، بلکہ ارشاد یہ ہوتا ہے کہ اے پیمبر! اب دین کی تکمیل ہوچکی؛ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً} فرائض تمام ہوچکے، پیام کی منادی تم کرچکے، حق کے لیے، اور خالق کے حکم سے، خلق کی جانب، اپنے دل پر جبر کرکے بہت رجوع کر چکے، بس اب وقت ہے کہ اپنے اصلی ذوق کے مطابق صورۃً بھی تمام تر حق ہی کی طرف رخ کرلو، خالق ہی کی جانب رجوع ہوجاؤ، اسی کی حمد کی تسبیح میں لگ جاؤ، اسی سے استفادہ شروع کردو، اسی سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرنے لگو۔۴وہ تمہارا رب، جو تمہارا اور سب کا مربی حقیقی ہے، بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، بڑا ہی رجوع بہ رحمت کرنے والا ہے۔

تعمیل کی شان سبحان اللہ کیا شان بے نیازی ہے اور کس درجہ تکمیل عبدیت مقصود ہے! استغفار کا حکم اسے مل رہا ہے، جو خود دوسروں کی مغفرت کرائے گا اور توبہ قبول ہونے کی بشارت اسے دی جارہی ہے، جو معصوم ہی نہیں، معصوموں کا سردار ہے لیکن صلی علی، بندہ بھی کیسا تھا، اپنے مولا کا عاشق زار! حکم کی تعمیل معناً تو جس طرح کی ہوگی، اس کا حال اہل معنی ہی جان سکتے ہیں۔ لفظاً اس طرح کی کہ اٹھتے اور بیٹھتے، اور آتے اور جاتے، کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ زبان سبحان اللہ وبحمدہ کے ورد سے ناآشنا رہنے پائی ہو،۵ اور کلمات استغفار کی کثرت اس کے علاوہ احکام میں مخاطب گو پیمبر ہوتے ہیں، لیکن مراد امت ہوتی ہے، جب فتح و نصرت، غلبہ و کامرانی کے موقع پر، رسول تک کو حکم تسبیح و استغفار کا ہے، تو غیر معصوم افراد امت کے لیے، ان احکام کی تعمیل کتنے زائد درجوں میں ضروری ہوگی۔

حق پرستوں کا راستہ ایک راستہ یہ تھا۔ یہ حق پرستوں کا راستہ تھا۔ صرف ’’تھا‘‘ یہ صیغہ ماضی نہیں ’’ہے‘‘ بہ صیغہ حال بھی، جس طرح ہمیشہ کھلا ہوا تھا آج بھی کھلا ہوا ہے۔ حق کی پرستش بے کار نہیں جاتی اور راہ کی منزلیں کتنی ہی دشوار گزار اور آزمائشیں کیسی ہی سخت ہوں، آخری فلاح و کامیابی حق پرستوں ہی کو ہوکر رہتی ہے۔ قرآن پاک واقعات تاریخی کا رجسٹر نہیں، ہدایت و رہنمائی کا نسخہ ہے، دنیا کے سارے حق پرستوں کے سردار کی سرگزشت سنا کر جتا دیا کہ راہ حق پر چلنے والوں کے لیے یہ نقشہ تقدیر ہے۔ پہلے ’’عسر‘‘ پھر ’’یسر‘‘، پہلے بے بسی و بے کسی، پھر قوت و عظمت، پہلے یتیمی و بے سامانی، پھر غلبہ و کامرانی۔ پہلے ہجرت، پھر فتح و نصرت، شرط صرف یہ ہے کہ حرا کی غار نشینی نظر انداز نہ ہونے پائے اور سخت سے سخت بے چارگی میں {لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا} کہنے والے کی طرح ’’کسی‘‘ کی معیت کا سررشتہ تصور ہاتھ سے نہ چھوٹے۔

خود پرستی کا راستہ لیکن دنیا میں یہی ایک راستہ نہیں۔ ایک دوسرا راستہ ٹھیک اسی کے مقابل، مادیت و خود پرستی کا ہے، یہاں توکل علی اللہ پر قہقہے لگائے جاتے ہیں اور اعتماد اپنی قوت پر کیا جاتاہے۔ یہ راہ خودی کی ہے، یہ راہ دولت و حکومت، جاہ و ثروت، عزت و وجاہت والوں کی ہوتی ہے، یہاں کامیابی نتیجہ سمجھی جاتی ہے، زر پاشی کا، پارٹی بندی کا، ’’خوش تدبیریوں‘‘ کا، مہذب دور کی مہذب اصطلاح میں ’’کنوسنگ‘‘ کا! ہر نور اپنے مقابل، ٹھیک اسی درجہ کی ظلمت کو چاہتا ہے۔ مکہ کا یتیم، جو خیر محض، نور مجسم بناکر بھیجا گیا، اس کے مقابلہ پر جو شر محض، ظلمت مجسم بن کر اٹھا، وہ نسباً و قرابۃً کوئی غیر نہیں، اوروں سے بڑھ کر اپنا، یعنی اس داعی حق کا چچا ہے، ریاست مکہ کا رئیس ہے، صرف دنیوی ہی نہیں، بلکہ دینی بھی۔ اہل مکہ کا لیڈر ہے، اور خانہ کعبہ کا متولی! اس کے جاہ و اثر، اقتدار و وجاہت کا کیا پوچھنا۔ ادھر صفا کے ٹیلہ پر چڑھ کر پیمبر حقؐ نے، اپنے عزیزوں، قریبوں کو اپنا پیام سنانا چاہا کہ ادھر اس دشمن حق نے اپنے ہاتھ اٹھاکر کوسا کہ ’’اے محمدؐ! تو ہلاک ہو، کیا تو نے ہمیں بس اسی کے لیے اکٹھا کیا تھا‘‘ اور اس وقت سے یہ شیوہ ہوگیا کہ جدھر جدھر وہ حق کا راہبر اپنے وعظ و پند کے لیے رخ کرتا تھا، اسی طرف یہ ظالم بھی اپنی قوت و اقتدار کی پوری نمائش کے ساتھ سد راہ بن بن کر ساتھ ہوتا تھا، اب حق و باطل کا معرکہ اپنے شباب پر تھا اور باطل اپنی تائید پر ساری ظاہری و مادی قوتوں کے اجتماع کے ساتھ، غلبہ پاتا نظر آرہا تھا۔ عین اس وقت جب کہ حق کی بے چارگی اپنے مرتبہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی اورحق کے پرستار پر معلوم ہوتا تھا کہ زمین، آسمان سب تنگ ہوچکے ہیں۔ ....سورۂ لہب کے نزول کا زمانہ ابتدائی زمانہ ہے۔ جب ذات مبارکؐ ہر طرح نرغہ اعداء میں محصور تھی اور غلبہ کی ساری نشانیاں ابوجہل و ابولہب کے ساتھ تھیں۔...اعلان ہوتا ہے کہ یہ جوش مخالفت اور آتش عداوت سے بھرا ہوا شخص، جو اپنے انجام کی مناسبت سے اسی دنیا میں ابو لہب ...شعلہ والا... کے نام سے مشہور ہوچکا ہے، ہلاک ہوگیا {تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّ} اور اس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے! جو ہاتھ مخالفت حق میں اس قدر سرگرم ہیں اور جنہیں اٹھا اٹھاکر اس بدبخت نے کوسا تھا، وہ خود ٹوٹ کر رہ گئے۔ اس کی کوششوں اور سازشوں پر پانی پھر گیا۔ اس کی کمیٹیاں اور کانفرنسیں کچھ کام نہ آئیں۔ اس کے جوڑ توڑ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کا پروپیگنڈا خود اسی کے منہ پر الٹا پڑا۔ اس کو بڑا دعوی اپنے زر و مال کا اور بڑا نشہ اپنی زر پاشیوں کا تھا۔ ان میں سے کوئی چیز اس کے آڑے نہ آئی۔ نہ اس کی جائیداد اسے ہلاکت و بربادی سے بچا سکی {مَا أَغْنَی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ} نہ اس کی سرمایہ داری۔ انجام اس کا خسران ہوا۔ اس کی ہر تمنا ناکام اور ہر کوشش رسوا ہوکر رہی۔

ابولہب کی ناکامیاں، کاتب تقدیر کا فرمان پیش گوئی کسی شاعر کا تخیل نہ تھا۔ کاتب تقدیر کا فرمان تھا۔ حرف حرف پورا ہوکر رہا۔ چند ہی سال کی مدت میں، آسمان کے نوریوں ہی نے نہیں، زمین کے خاکیوں نے بھی دیکھا کہ یہ خوش اقبال رئیس مکہ، و بلند بخت امیر قریش، اپنے ہر منصوبہ میں ناکام و نامراد، ہر طرح پرخائب و خاسر، اپنے کلبہ احزان میں، ایک وبائی جلدی مرض میں مبتلا، رفیقوں اور دوستوں کی دل دہی اور عزیزوں قریبوں کی تیمار داری سے محروم، تن تنہا بستر مرگ پر پڑا ،ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہا ہے اور مرنے کے بعد جب جسم بالکل سڑ جاتا ہے اور عفونت دور دور پھیلنے لگتی ہے تو حبشی، لاشہ بے کفن کو گھسیٹ کر ایک گڑھے میں ڈال آتے ہیں اور یہ ٹھیک وہ وقت ہوتا ہے جب وہ مکہ کا بے یار و یاور یتیم، بدر کے میدان میں ابو جہل اور اس کے ساتھ بڑے بڑے گردن کشوں کا خاتمہ کرکے، اپنے صدہا جاں نثاروں کے جلو میں، فاتحانہ و شاہانہ جاہ و جلال سے مدینہ کے اندر، اپنے ہزارہا فدائیوں کی آبادی میں داخل ہورہاہے۔ ساڑھے تیرہ سو سال گزر چکنے کے بعد ...ہجرت کا سنہ، عین ابو لہب کے ظلم کی تاریخ ہے... اب عقیدت مندی سے نہیں، تاریخ سے سوال ہے کہ ابو لہب کی عظمت کہاں ہے؟ اس کا نام کس کی زبان پر ہے؟ اس کی اولاد دنیا کے کس گوشہ میں آباد ہے؟ اس کے نام پر نوحہ خواں کس دیس میں بستے ہیں؟ اس کی قبر کا نشان دنیا کے کسی محکمہ آثار قدیمہ نے ڈھونڈ نکالا ہے؟ انجام عاجل یہ ہوا، اب انجام آجل کی بھی خبر سن لیجیے۔ دنیا یوں گئی، آخرت بھی جاتا ہوا اب دیکھ لیجئے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ابھی ہوا ہی کیا ہے، یہ تو نمونہ تھا، اس ابدی حرماں{سَیَصْلَی نَاراً ذَاتَ لَہَبٍ٭وَّامْرَأَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ٭فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ} اور دائمی خسران کا، جو آگے پیش آکر رہنا ہے اور آرہا ہے وہ وقت، جب اس بدنصیب کے اندر کی آگ اسے باہر سے بھی گھیر لے گی اور اپنے نام کی طرح جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان یہ پھینکا جائے گا۔ اس کی جتھے بندیاں جب دنیا ہی میں اسے نہ بچاسکیں، تو وہاں کیا کام آئیں گی اور یہ صاحب وہاں تنہا نہ ہوں گے، بلکہ مع اپنی لیڈی صاحبہ کے ہوں گے۔ ان لیڈی صاحبہ کے اوصاف حمیدہ یہ ہیں کہ یہاں دنیا میں ادھر کی ادھر لگاکر، دلوں میں رنجش اور عداوتیں پیدا کرتی رہتی ہیں اور اپنے شوہر نام دار کی آتش بغض و فساد کے شعلوں کو ایندھن ڈال ڈال کر اور بھڑکاتی رہتی ہیں اور ایمان والوں کی راہ میں ایذاء رسانی کے لیے کانٹے بچھاتی رہتی ہیں، وہاں ان کی خوش گوئی (Gossip gossing) کچھ کام نہ دے گی۔ آج اس سیہ بخت عورت کو اپنے قیمتی زیوروں پر غرہ ہے اور اپنی گردن کا طلائی ہار یہ اللہ کی چہیتی امت، مسلمانوں کی مخالفت میں لگادینا چاہتی ہیں، کل اس کی اسی گردن کو موٹی رسی سے گھسیٹ گھسیٹ کر، اسے اسی آگ میں جھونکا جائے گا اور یہی دنیا میں حق کے دشمنوں کا انجام ہوا ہے۔ ایک راستہ وہ تھا، دوسرا راستہ یہ ہے، ایک میں آگے بڑھ کر فتح و نصرت کی کشادگیاں ہیں اور فضل و کرم کی بہار آرائیاں، دوسرے کا خاتمہ تباب و ہلاکت، تباہی و بربادی، حرمان و خسران پر آکر ہوتا ہے۔ پہلا راستہ ترک خودی کا ہے، دوسرا خودی کا، پہلی راہ اللہ والوں کی، اللہ کے مقبولوں کی، عجز و شکستگی اختیار کرنے والوں کی ہے، دوسری خود پرستوں کی، زر والوں اور زور والوں کی، دانش و فرزانگی کے مدعیوں کی، حکمت و تدبیر پر مغروروں کی! دونوں راہیں تشریعاً ایک دوسرے کی ٹھیک ضد ہیں، اور عین مقابل، لیکن تکوینی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نور و ظلمت، خیر و شر کی طرح ایک دوسرے کی متمم و مکمل اور ایک دوسرے کے لیے مایہ حیات اور مورث معنی، ایک سورہ قرآنی، ایک راستہ دکھانے والی، دوسری راہ سے ہوشیار کردینے والی، دونوں کے زمانہ نزول کے درمیان سالہا سال کا فرق، لیکن ترتیب نظم قرآنی کے اعجاز پر ایک مستقل گواہ کی حیثیت سے، دونوں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو! سورۂ کافرون کے آخر میں آتا ہے {لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ} ...اے کافرو! تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے... ترتیب قرآنی میں اس کے معاً بعد سورۂ نصر، آخری ٹکڑے وَلِیَ دِیْنِ ...میرے دین پر... کی شارح اور اس سے متصل سورہ ابی لہب پہلے ٹکڑے{لَکُمْ دِیْنُکُمْ} ...کافروں کے دین... کی ترجمان!

۱گبن، مشہور انگریز مؤرخ ہوا ہے۔ رومہ کی ضخیم تاری میں اسلام اور شارع اسلام کا بھی ذکر کیا ہے۔ واقعۂ ہجرت کے سلسلہ میں لکھتا ہے: ’’اب مکہ کی سرداری امیہ کے خاندان میں آئی، اور ابوسفیان کو ملی، جو خاندان ہاشم کا جانی دشمن اور مذہب شرک کا زبردست علم بردار تھا۔ اس نے پیمبر کی قسمت کے فیصلہ کے لیے ایک مجلس قریش اور ان کے حلیفوں کی منعقد کی…فیصلہ قتل کا ہوا اور قرار پایا کہ ہر ہر قبیلہ کا ایک ایک شخص ان کے قلب میں تلوار بھونکے، تاکہ قصاص لینا بنی ہاشم کے لیے آسان نہ رہ جائے۔ کسی فرشتہ یا جاسوس نے سازش کی مخبری کردی، اب پیمبر کے لیے بجز ترک وطن کے کوئی چارہ نہ تھا۔ رات کی تاریکی میں محض ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر چپکے سے اپنے گھر سے نکلے۔‘‘...باب:...۵۰مکہ میں فاتحانہ داخلہ بھی اسی کی زبان سے سنیے: ’’جوش و خروش اور نظم و باقاعدگی نے کوچ کو بھی جاری رکھا، اور راز کو بھی قائم رکھا، تاآنکہ دس ہزار تلواروں کی چمک دمک نے حیرت زدہ قریش کو پرقوت دشمن کی آمد پر چونکا دیا۔ مغرور ابوسفیان نے شہر کی کنجیاں لاکر حوالہ کردیں اور اس کے سامنے سے پرچموں اور ہتھیاروں کے جو جلوس پر جلوس گزر رہے تھے، انہیں دیکھ دیکھ عش عش کرتا رہا۔‘‘...ایضا...۔ ۲ومعنی مجیٔ النصر جمیع الأمور مرتبطۃ بأوقاتھا یستحیل تقدمھا عن وقتھا أو تأخرھا عنہ فاذا جاء ک الوقت المعین حضر معہ ذلک الأمر المقدر۔...خازن... وانما عبر من الحصول بالمجیٔ بجوز للاشعار بأن المقدرات متوجھۃ من الأزل الی أوقاتھا المعینۃ فتقرب منھا شیئا فشیئا ...بیضاوی... ۳فتح عربی میں چیز کے کھل جانے اور دشواری کے حل ہوجانے کو کہتے ہیں۔ ’’الفتح ازالۃ الاغلال والاشکال‘‘ راغبؒ نے لکھا ہے کہ اس کی دو بڑی قسمیں ہیں؛ ایک وہ جو مادی آنکھوں سے نظر آتی ہے، مثلا: دروازہ کا کھلنا، قفل کا کھلنا وغیرہ۔ اور دوسری قسم وہ ہے جو صرف چشم بصیرت سے نظر آتی ہے، پھر خود اس کی متعدد قسمیں ہیں، اور ہر معنی کے استشہاد میں کلام مجید کی آیات پیش کی ہیں اور سورۃ الفتح میں فتح مبین سے مراد علوم و ہدایات نبوی سے لی ہے۔ عنی ما فتح علی النبی من العلوم التی ھی ذریعۃ الی الثواب والمقامات المحمودۃ ۴استغفار کے معنی لغت میں، حفاظت کرنے کے بھی آئے ہیں۔ بعض مفسرین نے استغفار سے امت کے لیے استغفار مراد لیا ہے۔ ۵مسروق عن عائشۃ قالت ما صلی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم صلاۃ بعد أن نزلت علیہ اذا جاء نصر اﷲ والفتح الا یقول فیہا سبحانک ربنا وبحمدک اللہم اغفر لی...صحیح البخاری... ۶ایک جماعت مفسرین کا خیال ہے کہ استغفار کا جو حکم رسولﷺکو ملا ہے، اس سے مراد امت کے لیے استغفار ہے، وقیل استغفرہ لأمتک...بیضاوی...وقیل المراد منہ الاستغفار لذنوب أمتہ وھذا ظاھر...خازن...

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/